دھوکہ نمبر 91
شاہ عبد العزیز محدث دہلویؒدھوکہ نمبر 91
کہتے ہیں کہ اہل سنت اہل بیت کے دشمنوں کو دوست رکھتے ہیں اور دشمنوں کا دوست بھی دشمن ہی ہوتا ہے کیونکہ حکماء نے کہا ہے کہ دشمن تین قسم کے ہوتے ہیں: اپنا دشمن، اپنا دوست کا دشمن، اپنے دشمنوں کا دوست، اسی طرح دوست بھی تین قسم کے ہوتے ہیں اپنا دوست، اپنے دوست کا دوست، اپنے دشمن کا دوست۔
بس لا محالہ اہل سنت بھی اہل بیت کے دشمن ہوئے اور یہ کلام اس قاعدہ پر مبنی ہے جو اہل شرح و اہل عقل کا مقرر کردہ اور ثابت کردہ ہے کسی سے محبت رکھنے والا اس کے حبیب اور محبوب دونوں سے محبت رکھتا ہے اور اس کے دشمن کا دشمن یا جس کا وہ دشمن ہوتا ہے اس کا یہ بھی دشمن ہوتا ہے اسی طرح سے دشمنی رکھنے والا محبت رکھتا ہے اس کے دشمن سے اور اس سے جس کا وہ دشمن ہے،
اور دشمنی رکھتا ہے اس کے حبیب و محبوب سے لہذا اس سے یہ معلوم ہوا کہ دوست عام ہے دوست رکھنے والے اور دوست رکھے ہوئے سے اور دشمن عام ہے دشمن رکھنے والے اور دشمن رکھے ہوئے سے۔
اہل سنت کی طرف سے طعن کا جواب تو بدطریق جدل ہے کہ اہل سنت خوارج و نواصب کے دشمن ہیں اور وہ اہل بیت کے دشمن ہیں لہذا اہل سنت جب اہل بیت کے دشمن کے دشمن ہوئے تو اہل بیت کے دوست ہوئے۔
اور شیعہ خوارج نواصب کہ دشمن ہیں اور وہ پیغمبر علیہ السلام کے دوست ہیں تو گویا شیعہ پیغمبر علیہ السلام کے دوست کے دشمن ہوئے اور دوست کا دشمن دشمن ہوتا ہے تو ثابت ہوا کہ شیعہ پیغمبر علیہ السلام کے دشمن ہیں اس ضمن میں اسی قسم کی اور باتیں بھی کہی جا سکتی ہیں جن سے شیعوں کے پیغمبر دشمنی ثابت ہوتی ہو۔
دوسرے یہ ہے کہ دوستی اور دشمنی جب براہ راست ہو تو بالواسطہ دوستی اور دشمنی کا کوئی اعتبار نہیں اسی طرح تمام نسبتوں اور تعلقات میں بھی یہی اصول کار فرما ہے کہ بالواسطہ یا بلا واسطہ کے مقابلے میں قابل لحاظ نہیں۔
مثلا ایک شخص کسی کا سگا بھائی ہے اور اس کے دشمن کا ہم زلف بھی تو یہ اپنے بھائی کا دشمن شمار نہیں ہوگا ایسے ہی اگر ایک شخص کا نوکر اس کے دشمن کے نوکر کا بھائی ہے اور اس نوکر کو اس شخص کے دشمن کا نوکر نہیں کہیں گے یہی حال باقی نسبتوں کا سمجھ لو ، پس اب جب اہل سنت بلا واسطہ اہل بیت کے دوست ہوئے تو اسی بلا واسطہ دوستی کا اعتبار ہوگا اور وہ دشمنی جو ان کے دشمنوں کے ساتھ دوستی رکھنے والوں سے بالواسطہ لازم آتی ہے اس کا کوئی اعتبار نہیں۔
حاصل گفتگو یہ نکلا کہ بالواسطہ اوصاف کا لحاظ اسی وقت ہے جب بلا واسطہ اوصاف نہ ہوں کیونکہ بلا واسطہ صاف قوی تر اور اول تر ہیں اور قوی تر کی موجودگی کے وقت کمزور علاقہ کا اعتبار خلاف عقل ہے۔
تیسرے یہ کہ تحقیق یہ ہے کہ نفس و دشمنی کا اعتبار صفات و حیثیات کے لحاظ کیے بغیر خلاف عقل ہے بلکہ دوستی اور دشمنی کی غرض وغایات صفات و حیثیات ہی ہیں۔
پس اگر کوئی شخص کسی کو خاص وصف و حیثیت کی وجہ سے دوست رکھتا ہے تو اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ تمام حیثیت سے اس کو دوست رکھتا ہے اور دوستی اور دشمنی بالواسطہ کی تبدیلی اس وقت ہوتی ہے کہ ایک ہی حیثیت سے اس کو دوست بھی رکھتا ہے اور دشمن بھی، پس اہل سنت اہل بیت کے دشمنوں کو اس حیثیت سے دوست نہیں رکھتے کہ وہ اہل بیت کے دشمن ہیں لہذا یہ الزام ان پر آتا ہی نہیں۔
چوتھے یہ بھی تحقیق شدہ امر ہے کہ اہل سنت ان کو دوست رکھتے ہیں جن کو وہ اپنے اعتقاد میں اہل بیت کا دشمن نہیں سمجھتے بلکہ ان کے دوست اور اعتقاد میں موافق خیال کرتے ہیں اور ان کی روایتوں میں بتواتر یہ ثابت ہے کہ وہ ہمیشہ اہل بیت کے مداح اور ثنا خواں رہے۔
اور ان کے دین و شریعت کے مددگار معاون، پنج وقتہ نمازوں اور خطبوں اور دوسری دعاؤں میں ان پر درود بھیجتے رہے البتہ شیعوں نے اپنے گمان میں ان حضرات کو مخالف اور دشمن اہل بیت قرار دیا ہے تو شیعوں کے اس گمان سے وہ واقعہ میں اہل بیت کے دشمن نہیں ہو جاتے پھر اہل سنت اہل بیت کے دشمن کو کس طرح دوست رکھ سکتے ہیں جبکہ خود ان کی کتابوں میں اس مضمون کو صحیح روایات موجود ہیں کہ
ترجمہ:- جو شخص آل محمد سے بغض رکھنے کی حالت میں مر جائے تو اگرچہ وہ نماز پڑھتا ہو اور روزہ رکھتا ہو وہ دوزخ میں ڈالا جائے گا۔
اور طبرانی میں یہ روایت ہے منۡ أَبۡغَضَ أَهۡلَ البَيۡتِ فَهُوَ مُنَافِقٌ (اہل بیت سے بغض رکھنے والا منافق ہے) یا لَا يُبغِضُنَا أَهۡلَ البَيۡتِ أَحَدٌ وَلَا يُحۡسِدُنَا أَحَدٌ اِلَّا زُيَّدَ يَومَ القِيَامَةِ مِنَ الحَوضِ بِسَيَاطِ النَّارِ (ہم میں سے جو کوئی بھی اہل بیت سے حسد و بغض رکھے گا وہ قیامت کے دن حوض کوثر سے آگ کے کوڑے مار کر بھگا دیا جائے گا)
اسی طرح ترمذئی نے نوادر اصول فی اخبار الرسول میں حضرت مقداد بن اسود رضی اللّٰه عنہ سے روایت کی ہے کہ مَعۡرِفَةُ آلِ مُحَمَّدٍ بَرَآءَةٌ مِّنَ النَّارِ وَحُبُّ آلِ مُحَمَّدٍ جَرَازٌ عَلَى الصِّرَاطِ وَالوِلَايَةِ لِآلِ مُحَمَّدٍ أَمَانٌ مِّنَ العَذَابِ (آل محمد کی معرفت آگ سے برأت ہے اور آل محمد ﷺ کی محبت پل صراط پار کرنے کا پروانہ ہے اور آل محمد ﷺ سے دوستی عذاب سے ضمانت ہے۔
بلکہ فاضل کاشی نے بھی جو شیعہ امامیہ کے فضلاء میں سے ہے اہل سنت کو کبار صحابہ رضوان اللہ علیہم کی محبت پر معذور سمجھا ہے اور اہل سنت کی نجات کا قائل ہوا تھا یہاں تک کہ ان کو اس پر جناب باری سے خواب و اجر کا امید دار قرار دیا ہے، یہی نہیں پھر ائمہ کرام کی روایات سے اپنے ان اقوال کو ثابت بھی کیا ہے یہاں ہم اس کے کلام کا خلاصہ پیش کرتے ہیں تاکہ اس دھوکہ کا ازالہ شیعہ فضلہ کی شہادت سے بالکلیہ ہو جائے
الْمحِبَّةُ وَالمُبغضةُ إِذَا كَانَا لِله يُوحَدُ صاحبهما وَإِنْ كَانَ الْمحَبُوبُ مِنْ أَهْلِ النَّارِ وَالْمَبْعُوضُ مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ لاعتِقَادِ الْخَيْرِ فِي الْأَوَّلِ وَالشَّرِ في الثَّانِي وَإِنْ أَخْطَاءَ فِي اعْتِقَادِه، يَدلُ عَلَى ذَالِكَ مَا رَوَاهُ فِي الْكَافِي بإسْنَادِهِ عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ عَلَيْهِ السَّلَامُ قَالَ لَوْ أَنَّ رَجُلًا احَبَّ رَجُلًا لِلَّهِ لَاثابَهُ اللهُ عَلَى حُبِّهِ إِيَّاهُ وَإِنْ كَانَ الْمحَبوبُ فِي عِلْمِ اللَّهِ مِنْ أَهْلِ النَّارِ وَلَوْ أَنَّ رَجُلًا ابغَضَ رجُلا للَّهِ اثَابَهُ اللهُ عَلَى بَغضِهِ إِيَّاهُ وَإِن كَانَا الْمُبَغُوضُ فِي عِلْمِ اللَّهِ مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةَ وَلَا يَخْفَى أَنَّ هَذَا الْحَبُّ وَالْبُغض يَرَاب إلى محبة المَقَامِ وَالْحَقِيقَةِ دُونَ الشَّخصَ الْجَرى وَكَذَا الْمُبغضَةُ خُصُوصًا إِذَا لَمْ يَرَا الْمَحَبُّ وَالْمُبْغِضُ محبوبه ومبغوضه وَإِنَّمَا سَمِعَ بِصِفَاتِهِ وَاخْلَاقِهِ وَمِنْ فَهُنَا يَحْكُمُ بِنَجَاةِ كَثِيرٍ مِنَ الْمُخَالِفِينَ الْمُسْتَضْعَفِينَ سيما الواقعين في عفي خفَاء الإِمَامِ الحَقِّ المُحبينَ لأئمتنَا صَلَوَاتُ اللهِ عَلَيْهِمْ وَإِنْ لَمْ يَعْرِفُو اقَدْرهمْ وَإِمَامَكُمْ كَمَا يَدل عَلَيْهِ مَا رَوَاهُ الْكَافِي باسْنَادِهِ الصحيح مَنْ زَرَارَةِ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ عَلَيْهِ السَّلَامُ قَالَ قُلْتُ اصلحكَ اللَّهُ ارءيتَ مَنْ صلى وَصام وَاجْتَنَبَ الْمَحارم مَ وَحَسَنَ وَرعَهُ مِمَّنْ لا يَغضبُ وَلَا يعْرِفُ فَقَالَ إِنَّ اللَّهَ يُدْخِلُ أُولَئِكَ الْجَنَّةَ برحمته وفى احتجاج الطبرَ سِي عَنِ الْحَسَنِ بْنِ عَلِي عَلَيْهِمَا السَّلَامُ أَنَّهُ قَالَ فِي كَلام لَه فَمَنْ أَخَذ بِمَا عَلَيْهِ أَهْلُ الْقِبْلَةِ الَّذِي لَيْسَ فِيهِ اخْتِلافٌ وَرَدَّ عِلْمَ مَا اخْتَلَفُوا فِيهِ إِلَى اللَّهِ سَلِمَ وَنَجَا بِهِ مِنَ النَّارِ وَدَخَلَ الْجَنَّةَ وَمَنْ وَقَّقاهُ اللهُ تَعَالَى وَمَنَّ عَلَيْهِ وَاحْتَج عَلَيه بِإِن كُورَ قَلْبهُ بِمعْرِفَةِ وَلَا وَالأَمْرِ مِنْ أَئمتِهِمْ وَمَعْدَانِ الْعِلْم أي هُوَ فَهُوَ عِنْدَ اللَّهِ سَعِيدُ وَاللَّهِ وَلِيُّ ثُمَّ قَالَ بَعْدَ كَلَامٍ إِنَّمَا النَّاسُ ثَلَثَةٌ مَوْ مِنٌ يَعْرِفُ حَقَّنَا وَيُسْلِمُ لَنَا وَيَأتَمْ بنَا فَذَالكَ نَاجٍ محِبٌّ للَّهِ وَلِيّ وَنَاصِبٌ لَنَا الْعَدَادَةَ يَتَبَرَهُ مِنَّا وَيُلَقتنَا وَيَسْتَحِلُ وَمَا دَنَا وَيجحد حَقْنَا وَيَدِينَ اللَّهَ تعَالَى بِالبراء منا فهُوَ كَانَ كَافِرُ مُشْرِكُ فَاسِقٌ وَإِنَّمَا كَفَرُوا أَشْرَكَ مِنْ حَيْثُ لَا يَعْلَمُ كَمَا يَسُبُّ اللَّهَ عَدوا بِغَيْرِ علم وكذالك يُشْرِكْ بِغَيْرِ عِلْمٍ رَجُلٌ أَخَذَ بِمَا لَا يَخْتَلَفُ فِيهِ وَردَ عَلِمَ مَا أَشْكَلَ عَلَيهِ إِلَى اللَّهِ تَعَالَى مَعَ وَلَايَتِنَا وَلَا يَاتُم بِنَا وَلَا يُعَادِينَا وَلَا يَعْرِفُ حَقَّنَا نَحْنُ نَرْجُوا أَنْ يَغْفِرَ اللَّهُ له وَيُدخِلَ الْجَنَّةَ فَهَذَا مُسْلِم ضعیف انتهى
محبت اور دشمنی جب صرف اللّٰه کے لیے ہو تو وہ ماجور من اللّٰه ہے اگرچہ اس کا محبوب دوزخی ہو اور دشمن جنتی کیونکہ اس کو محبوب سے اعتقاد نیک ہوتا ہے اور دشمن سے برائی کا اگرچہ وہ اپنے اعتقاد میں حق بجانب نہ ہو اس پر وہ روایت دلالت کرتی ہے جو صاحب کافی نے اپنے سندوں سے کافی میں بیان کی ہے کہ ابی جعفر عبداللّٰه سے روایت ہے کہ فرمایا جس کسی نے کسی سے اللّٰه کے واسطے محبت رکھی اللّٰه تعالیٰ اس محبت رکھنے پر اس کو ثواب دے گا اگرچہ اس کا محبوب اللّٰه کے علم میں دوزخی ہو اسی طرح اگر کسی نہ کسی سے اللّٰه واسطہ کا بیر (بغض) رکھا تو اللّٰه تعالیٰ اس کے بغض رکھنے پر اس کو اجر دے گا اگرچہ اس کا مبغوض اللّٰه تعالیٰ کے علم میں جنتی ہو اور یہ بات پوشیدہ نہیں کہ یہ محبت و عداوت حقیقت اور مقام محبت کی طرف لوٹتی ہے نہ اس خاص شخص کی طرف خصوصا جبکہ محبت و بغض رکھنے والے نے محبوب ومبغوض کو نہ دیکھا ہو بلکہ اس کے اخلاق و اوصاف سنے ہوں،
اسی نظریہ کے تحت ان برائے نام مخالفوں کی نجات کا حکم لگایا گیا ہے جو کسی امام کی پوشیدگی کے وقت موجود ہوں مگر وہ ہمارے ائمہ کرام کے ساتھ محبت رکھتے ہوں گر وہ ان کی پوری قدر و منزلت اور امامت کو نہ پہچان سکے ہوں، اس پر کافی کی وہ روایت دلالت کرتی ہے جو ذرارہ سے مروی ہے کہ انہوں نے ابھی عبداللّٰه سے بایں الفاظ روایت کی ہے میں نے آپ سے کہا اللّٰه آپ کو نیک بخت کرے مجھ کو اس شخص کے حال سے باخبر کیجیے جو نماز پڑھتا ہے روزہ رکھتا ہے محرمات سے بچتا ہے اور خوب تقوی والا ہے مگر ہے ایسے لوگوں میں سے جو نہ ائمہ کے دشمن ہیں نہ ان کی امامت کے قائل ہیں پس آپ نے فرمایا اللّٰه تعالیٰ ان کو اپنی رحمت سے جنت میں داخل کرے گا۔
اور احتجاج طبرسی (نام کتاب) میں حضرت حسن بن علی رضی اللّٰه عنہما سے روایت ہے دوران گفتگو ایک مرتبہ فرمایا جس نے اس بات کو لیا جس پر سب اہل قبلہ متفق ہیں اور اختلافی بات کو حوالہ خدا کیا تو وہ محفوظ رہا اور اس نے دوزخ سے نجات پائی اور جنت میں جگہ پائی اور جس پر اللّٰه کا احسان ہو اسے توفیق ملی اور محبت قائم ہوئی تو اس کے دل کو صاحب ریاست اور معدن علم ائمہ کی معرفت سے منور کیا ایسا شخص اللّٰه کے نزدیک نیک بخت ہے اور اللّٰه کا دلی ولی ہے پھر کچھ مزید گفتگو کے بعد فرمایا کہ لوگ تین قسم کے ہیں ایک وہ مومن جو ہمارا حق پہچانتا ہے ہمارے تابعداری اور پیروی کرتا ہے پس وہ نجات پانے والا اللّٰه کا محب اور ولی ہے۔
دوسرا وہ جو ہم سے عداوت رکھتا ہے ہم سے بیزار ہے ہم پر لعنت بھیجتا ہے ہماری خون ریزی کو حلال جانتا ہے ہمارے حق سے انکار کرتا ہے اور ہم سے بیزاری کو اللّٰه تعالیٰ کا دین کہتا ہے پس ایسا شخص کافر مشرک اور فاسق ہے اس نے لاعلمی میں کفر و شرک کیا جیسے بغیر جانے بوجھے کوئی اللّٰه کو گالی دیتا ہے اسی طرح یہ بغیر علم کے شرک کرتا ہے۔
اور تیسرا وہ شخص جو متفق علیہ بات کو قبول کر لیتا ہے اور جو بات سمجھ میں نہ آئے اسے اللّٰه کے حوالہ کرتا ہے ہم سے دوستی تو رکھتا ہے مگر ہماری پیروی نہیں کرتا اور نہ ہم سے عداوت رکھتا ہے نہ ہمارے حق کو پہچانتا ہے تو اس کے بارے میں ہم امید رکھتے ہیں کہ اس کو اللّٰه تعالیٰ بخش دے اور جنت میں داخل کرے یہ ضعیف الایمان مسلمان ہے۔
فاضل کاشی کا یہ کلام بظاہر تو بڑا معقول اور پر مغز اور نقص سے خالی نظر آتا ہے مگر اس کی تہہ اور گہرائی میں جھانکا جائے تو وہ نقص عیاں ہو جاتا ہے اور یہ کلام اصلاح و درستگی مختاج نظر آتا ہے۔
اس کلام کا نقص تو یہ ہے کہ یہ ائمہ کرام کے کلام کے خلاف اور متضاد معلوم ہوتا ہے اس لیے کہ ائمہ کرام نے تو نواصب کو دوزخی کافر اور فاسق فرمایا ہے جبکہ خود کاشی نے کافی سے نقل کیا ہے حالانکہ نواصب اس بات کے مدعی ہیں کہ ائمہ اہل بیت سے ان کا بغض صرف اللّٰه واسطے کا ہے اور بموجب قول امام مذکور جب ان کا بغض اللّٰه واسطے کا ہوا تو چاہے وہ خلاف واقع ہو وہ نجات بلکہ ثواب کا موجب ہوگا ایسی صورت میں ان کو کافر و فاسق سے کہنا کیسے درست ہوگا۔
پھر حضرت امام حسن رضی اللّٰه عنہ کہ کلام میں تفصیل ہے کہ جو شخص خاندان نبوت سے کم اور کم زور سی محبت رکھتا ہو ان کی واقعی قدر و عزت کو نہ پہچانتا ہو اس کو ناجی قرار دیا ہے اور جو ان کے ساتھ عداوت رکھتا ہو اور اس میں خاندان نبوت سے محبت کی بو تک نہ ہو اس کو ہانک ٹھہرایا ہے اس سے یہ پتہ چلا کہ محبوبان خدا سے عداوت کسی صورت میں عذر پذیر نہیں البتہ محبت و تعظیم کے جتنے درجے ہیں سب مقبول ہیں اور درجہ اولی سے اعلی تک ناجی معذور محبت کے اعلی درجے میں قصور و کمی اور چیز ہے اور عداوت اور چیز قصور کن نظر انداز اور صاحب قصور کو معذور رکھیں تو بجا درست ہے لیکن عداوت میں اس کی گنجائش کہاں۔
اس کلام کی اصلاح و درستگی پورے اور مکمل طور پر تو کتاب کے بارویں باب قولا و تبرّا میں ان شاء اللّٰه پیش کی جائے گی یہاں صرف ناظرین کے انتظار کی تسکین کے لیے مختصر سا بیان کیا جاتا ہے لہذا اس کا مطالعہ نہایت توجہ اور غور سے کرنا چاہیے۔
اول تو یہ ہے کہ محبوب و مبغوض میں فرق بہت تمیز کرنی چاہیے اور یوں سمجھنا چاہیے کہ استحقاق محبوبیت اور مبغوضیت دراصل دو قسموں میں منقسم ہے۔
1_ ایک یہ کہ شارع کی طرف سے اس کا ثبوت قطعی اور تواتر کے ساتھ ہو اس قسم میں خلاف واقعہ اعتقاد کو قابلِ عفو و درگزر نہیں سمجھنا چاہیے کہ شرعاً جو محبوب ہو اسے مبغوض خیال کرے اور جو مبغوض ہو اسے محبوب اور اس اعتقاد میں نہ کسی باطل تاویل اور فاسد شبہ کو دخل انداز ہونے دیا چاہیئے اور نہ ایسی باتوں پر کان دھرنا چاہیے۔
ورنہ اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ معاذ اللّٰه اس شخص کو بھی معذور اور مستحق اجر ماننا پڑے گا جو انبیاء کرام علیہ السلام کو ان کی لغزشوں کی وجہ سے للّٰه مبغوض رکھتا ہو اور ابلیس اور فراعنہ کو نیز ائمہ کفر کو صرف اس لیے کہ وہ بھی آخر اللّٰه کے بندے ہیں اس کی صفات کے مظہر ہیں اللّٰه واسطے محبوب رکھتا ہو۔
2_ دوسرے یہ کہ یہ استحقاق بطریق تواتر ہم تک نہ پہنچا ہو حضرت ابو جعفر رحمة اللّٰه علیہ کے کلام کو اسی پر محمول کرنا چاہیے اور آپ کا وہ کلام جو مطلق ہے وہ اس بنا پر کے محبت و بغض جو اللّٰه واسطے کا ہوگا وہ لامحالہ ضروریات دین کے مخالف نہ ہوگا اگر غور کیا جائے تو اپ کا کلام صاف صاف اس قید کی خبر دیتا ہے جہاں آپ نے فرمایا ہے
وَإِنۡ کَانَ فِی عِلمِ اللّٰهِ خِلَافَ إِعتِقَادِہٖ
کیونکہ اللّٰه تعالیٰ کے پوشیدہ علم کی طرف حوالہ اسی جگہ مناسب معلوم ہوتا ہے جہاں شریعت سے اس کا قطعی ثبوت صراحت کے ساتھ نہ ہو۔
قسم اول کے محبوبین کی مثال اہل بیت نبوی ﷺ جن کی شان میں قرآن مجید میں ارشاد ہے
قُلْ لَّاۤ اَسۡئَـــلُـكُمۡ عَلَيۡهِ اَجۡرًا اِلَّا الۡمَوَدَّةَ فِى الۡقُرۡبٰىؕ آپ فرماتے ہیں تم سے کسی مزدوری کا بجز اپنے عزیز و اقارب سے محبت کے خواہاں نہیں ہوں۔
دوسری جگہ یوں ارشاد فرمایا اِنَّمَا يُرِيۡدُ اللّٰهُ لِيُذۡهِبَ عَنۡكُمُ الرِّجۡسَ اَهۡلَ الۡبَيۡتِ اے اہل بیت اللّٰه تعالیٰ اس کے سوا کچھ نہیں چاہتا کہ تم سے رجس دور کر دے، یا اس کی مثال وہ صحابہ کرام ہیں جنہوں نے بیعت رضوان کی ہجرت و نصرت پیغمبر کے فخر سے سرفراز ہوئے اور حضور ﷺ کے وصال کے بعد مرتدین کے فتنہ کا قلع قمع کرنے اٹھے جن کے متعلق اللہ تعالی کا ارشاد ہے
يُّحِبُّهُمۡ وَيُحِبُّوۡنَهٗۤ ۙ ان کو اللّٰه دوست رکھتا ہے اور وہ اللّٰه کو دوست رکھتے ہیں، یا جنہوں نے ان کی طرف ہجرت کی، رَضِیَ اللّٰهُ عَنهُم وَرَضُوا عَنهُ اللہ ان سے راضی ہو اور وہ اللہ سے راضی ہیں، یا وَلَا تَجۡعَلۡ فِىۡ قُلُوۡبِنَا غِلًّا لِّلَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا جو ایمان لائے ان کی طرف سے ہمارے دل میں کھوٹ پیدا نہ کر۔
اسی طرح قسم اول کے مبغوضین کی مثال ابلیس اور دیگر تمام معاندین کفار ہیں جس کے متعلق اللہ تعالی نے فرمایا ہے اِنَّ الشَّيۡطٰنَ لَـكُمۡ عَدُوٌّ فَاتَّخِذُوۡهُ عَدُوًّا ؕ البتہ شیطان تمہارا دشمن ہے تم بھی اس کو اپنے دشمن جانو، یا فرمایا لَا يَتَّخِذِ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ الۡكٰفِرِيۡنَ اَوۡلِيَآءَ مِنۡ دُوۡنِ الۡمُؤۡمِنِيۡنَۚ وَمَنۡ يَّفۡعَلۡ ذٰ لِكَ فَلَيۡسَ مِنَ اللّٰهِ فِىۡ شَىۡءٍ مومنوں کو چاہیے کہ وہ مومنین کے علاوہ کافروں کو دوست نہ بنائے اور جو کوئی ایسا کرے گا اللّٰه کی طرف سے اسے کچھ نہ ملے گا نہ حمایت نہ امداد نہ نصرت، یا فرمایا لَا تَجِدُ قَوۡمًا يُّؤۡمِنُوۡنَ بِاللّٰهِ وَالۡيَوۡمِ الۡاٰخِرِ يُوَآدُّوۡنَ مَنۡ حَآدَّ اللّٰهَ وَرَسُوۡلَهٗ
تم کسی قوم کو ایسا نہ پاؤ کہ وہ اللّٰه اور یوم آخرت پر ایمان لاکر بھی ایسے شخص کو دوست بنائیں جس نے اللّٰه و رسول کی نافرمانی کی ہو۔
ان ارشادات ربانی کی موجودگی میں اب کوئی ناصبی اہل بیت کی عداوت میں اور کوئی رافضی صحابہ کرام رضی اللّٰه عنہم کے خلاف بغض رکھنے میں خاص کر ان صحابہ کے بارے میں جن کا شمار مہاجرین اولین اور انصار سابقین میں ہوتا ہے اور جنہوں نے بیعت رضوان کا شرف حاصل کیا اور مرتدین اسلام کو تہ تیغ کیا ہرگز معذور نہیں سمجھا جائے گا ہاں کوئی فرقہ ان بزرگوں کی حقیقی اور واقعی قدر و منزلت سے کمتر جاننے اور اپنی جہالت یا نادانی کے سبب یا کسی فتنہ فساد کی بنا پر ان کے کسی مرتبہ یا درجہ کا انکار کر بیٹھے تو وہ البتہ معذور شمار ہو گا۔
جیسے تفضیلی شیعہ یا خود حضرت ائمہ رحمہ اللّٰه کے وہ دوست یا محب جنہوں نے ان کی امامت کا انکار کیا مثلا محمد بن الحنفیہ اور زید بن علی بن الحسین رضی اللّٰه عنہم چنانچہ حضرت امام حسن رضی اللّٰه عنہ کے کلام میں بھی اسی قسم کے لوگوں کو معذور قرار دیا گیا ہے۔
قسم ثانی کے محبوبین کی مثال عام نیک بخت مسلمان خصوصاً عام صحابہ عرب اور قریش ہیں اور اسی قسم کے مبغوضین کی مثال عام فاسق، نافرمان، ظالم اور کاذب لوگ ہیں کہ ان ہر دو فریق کی محبت و بغض کا ثبوت شریعت میں اوصاف عامہ کے تحت یا مفہومات کلیہ کے ضمن میں ہے مثلا فرمایا إِنَّ اللّٰهَ يُحِبُ المُحسِنِينَ تحقیق اللہ نیک کام کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے، یا إِنَّ اللّٰهَ يُحِبُّ الصّٰبِرِينَ بے شک اللہ تعالی صبر کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے، یا فرمایا اِنَّ اللّٰهَ يُحِبُّ الَّذِيۡنَ يُقَاتِلُوۡنَ فِىۡ سَبِيۡلِهٖ صَفًّا كَاَنَّهُمۡ بُنۡيَانٌ مَّرۡصُوۡصٌ
بے شک اللہ ان غازیوں کو دوست رکھتا ہے جو اس کی راہ میں جہاد کرتے ہیں، صف بستہ ہو کر گویا وہ سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہیں، اور فرمایا اِنَّ اللّٰهَ يُحِبُّ التَّوَّابِيۡنَ وَيُحِبُّ الۡمُتَطَهِّرِيۡنَ بے شک اللہ تعالی توبہ کرنے والوں اور پاک صاف رہنے والوں کو پسند کرتا ہے، نیز فرمایا اِنَّ اللّٰهَ لَا يُحِبُّ الۡخَآئِنِيۡنَ بے شک اللہ تعالی خائنوں کو دوست نہیں رکھتا، یا حضور اکرم ﷺ کا یہ فرمان أحبوا العرب لثلاثة اني عربي والقرآن ولسان أهل الجنة عربي عربوں کو تین باتوں کے سبب دوست رکھو میں عربی ہوں قرآن عربی ہے اور اہل جنت کی زبان عربی ہے، یا فرمایا من اعانا قريشا اعانه الله ومن عادى قريشا اكبه الله جو قریش کی اہانت کرے اللہ اس کی اہانت کرتا ہے اور جو قریش سے دشمنی رکھے اس کو اللّٰه تعالیٰ نگو فساد و شرمسار کرے، یا اللّٰه تعالیٰ کا یہ فرمان وَ اللّٰهُ لَا يُحِبُّ الظّٰلِمِيۡنَ اللّٰه تعالیٰ ظالموں کو دوست نہیں رکھتا، نیز فرمایا لَّعۡنَتَ اللّٰهِ عَلَى الۡكٰذِبِيۡنَ جھوٹے پر خدا کی لعنت ہوتی ہے، اور فرمایا يَوۡمَ لَا يُخۡزِى اللّٰهُ النَّبِىَّ وَالَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا مَعَهٗ جس دن اللہ اپنے نبی اور اس کے اصحاب کو رسوا نہیں کرے گا۔
الله الله فى أصحابى لا تتخذوهم عرضا من بعدي من أحبهم فحبي أحبهم ومن ابغضهم فبغضي ابغضهم دیکھو دیکھو میرے بعد میرے صحابہ کو دشمن نہ بناؤ جو ان سے محبت رکھے وہ مجھ سے محبت کے سبب سے ان سے محبت کرتا ہے جو ان سے بغض رکھے تو مجھ سے بغض رکھنے کے سبب ہے ان سے بغض رکھے گا۔
اس قسم ثانی کے تمام متعلقہ اشخاص میں سے ہر ایک کی محبت و بغض دو وجوہ سے قطعی الثبوت نہیں، اول یہ کہ ان عبارات کی منشا اور مضمون کا ان خاص خاص ذاتوں میں قطعی طور سے پایا جانا نادر و کمیاب ہے، دوم مضمون عبارت یا کلام کو کسی جگہ متحقق ہونا حکم کے تحقق اور وجود کے لیے اس وقت تک کافی نہیں جب تک تمام موائع دور نہ ہو جائیں مثلا محبت میں جب کہ موانعات نفاق خبث باطل اور فاسد ارادوں کا نہ ہونا ضروری ہے اسی طرح بغض میں اس کے موانعات یعنی صحت ایمان صفائے باطن اور صلاح نیت کار ہونا لازمی ہے اور ان ممانعت کے دور ہو جانے کا قطعی اور یقینی علم تکمیل و ختم نبوت اور سلسلہ وحی بند ہو جانے کے بعد محال ہو گیا ہے۔
جب تک نبی کریم ﷺ موجود تھے اور سلسلہ وہی جاری تھا کسی بھی معاملہ میں قطعی اور یقینی علم ہو جاتا تھا مثلا صحیح احادیث میں یغمان صحابی رضی اللہ عنہ پر باوجود ان کے شرابی ہونے کے برائی سے یاد کرنے اور ان پر لعنت کرنے پر زجر و توبیخ کی گئی آپ نے فرمایا کہ وہ اللّٰه اور رسول کو دوست رکھتا ہے (اس پر لعنت و پھٹکار نہ کرو۔)
مالک بن وحیش جن کا منافقین میں اٹھنا بیٹھنا تھا وہ ان کا یہی خواہ بھی تھا جب ظاہری حالات کی بنا پر ان کو منافق کہا گیا تو اس کو رد کیا گیا اور اس کے ایمان صحیح ہو نیکی کی توثیق کی گئی ایک اور ایک اور بغض جو بڑا مسخرہ اور بد زبان تھا اس کے حق میں ارشاد فرمایا گیا خبیث اللسان وطیب القلب (زبان کا تو گندا ہے مگر دل کا پاک ہے) اسی طرح کی اور بہتری مثالیں ہیں۔
علی ہذا محبت سے متعلق بھی بہت سی روایات اور آثار مروی ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے محض گمان اور خیال آرائی پر بھروسہ کر کے کسی کی نجات اور بلندی درجات کی شہادت نہیں دینی چاہیے تاکہ آنکہ حقیقت حال پوری طرح منکشف نہ ہو جائے۔
بخلاف قسم اول کے جب محبت یا بغض معینہ اشخاص کی قطعی دلیل سے تواتر کے ساتھ ثابت ہو گئی تو اب مضمون کلام کا مستحق ہونا اور حکم کا پایا جانا لازم ہو گیا جیسے کہ انبیاء کرام علیہ السلام کا حال معلوم ہوا۔