Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام
زبان تبدیل کریں:

دھوکہ نمبر 92

  شاہ عبد العزیز محدث دہلویؒ

دھوکہ نمبر 92

کہتے ہیں کہ اہل سنت خلاف و امامت کے معاملہ میں بزدل کو شجاع پر ترجیع دیتے ہیں حالانکہ خلافت و امامت کا تو مدار ہی بہادر و شجاعت پر ہے اور کفار کے ساتھ جدال و قتال اور ان پر فوج کشی اس کا خاصہ ہے، مزید وضاحت کے طور پر کہتے ہیں کہ جناب علی مرتضی رضی اللّٰه عنہ بہادری اور شجاعت میں تمام عالم میں ضرب المثل اور شہرہ آفاق ہیں بخلاف حضرت ابوبکر صدیق رضی اللّٰه عنہ کے کہ وہ بزدل ہیں جن کی بزدلی پر قران کی یہ آیت دلالت کرتی ہے اِذۡ يَقُوۡلُ لِصَاحِبِهٖ لَا تَحۡزَنۡ جب کہ وہ اپنے ساتھی سے فرما رہے تھے کہ غم نہ کرو، معلوم ہوا کہ غار میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللّٰه عنہ غمگین اور فکر مند تھے اور ایسے صبر آزما مرحلے پر غم کرنا ہی بزدلی کی نشانی ہے۔

اس طعن اور طنز کا جواب کئی طریقوں سے دیا جا سکتا ہے۔

اول حزن اور غم سے روکنا (صاحب حزن کی) بزدلی کی نشانی بالکل نہیں ہے اس لیے کہ حزن و غم تو شجاع اور بہادر کو بھی ہوتا ہے اس لیے کہ حزن اور غم کے معنی کسی مجبوب چیز سے محرومی یا کسی ناگوار چیز کا سامنے آ جانا ہے اور یہ شجاعت کے منافی بالکل نہیں ہے۔

چنانچہ رستم جیسے شجاع کو بھی سہراب کہ قتل پر غم ہوا اور اتنا ہوا کہ اس نے ماتمی سیاہ لباس پہن لیا ماتم کیا اور گریبان چاک کیا یہ گھر کی بات نہیں یہ واقعہ تو زمانہ بھر میں مشہور ہے ہاں حزن کے بجائے خوف ہوتا تو البتہ قابل توجہ بات ہوتی۔

دوسرے یہ کہ اگر حزن سے روکنا بزدلی کی علامت ہوتا تو پھر حضرت موسی اور حضرت لوط علیہم السلام پر بھی یہی طعن وارد ہوتا کیونکہ ان حضرات کو تو حزن سے نہیں خوف سے منع کیا گیا ہے يٰمُوۡسىٰ لَا تَخَفۡ اے موسیٰ ڈرو مت، اِنِّىۡ لَا يَخَافُ لَدَىَّ الۡمُرۡسَلُوۡنَ کیونکہ میرے رسول ڈرا نہیں کرتے، یا فرمایاذذ فرشتوں نے کہا نہ ڈرو نہ غم کرو کہ ہم تم کو اور تمہارے اہل کو اس عذاب سے نجات دیں گے مگر تمہاری بیوی کہ وہ البتہ پیچھے رہ جانے والوں میں سے ہے۔

یہی نہیں بلکہ بعض نصوص قرآنی میں صراحت سے کہا گیا ہے کہ موسی علیہ السلام واقعی خوفزدہ بھی ہوئے فَاَوۡجَسَ فِىۡ نَفۡسِهٖ خِيۡفَةً مُّوۡسٰى پس موسیٰ علیہ السلام نے اپنے دل میں ڈر محسوس کیا۔

تیسرے تاریخ کا یہ مشہور واقعہ ہے کہ جب کفار مکہ نے آنحضرت ﷺ پھر گردن مبارک میں چادر ڈال کر آپ کا گلا گھوٹنا اور دم گھٹنے سے آپ کی مبارک آنکھیں سرخ ہو گئیں اور آپ کو سخت اذیت ہوئی تو ان کفار کے ڈر اور خوف کے سبب یار دوست عزیز و اقارب میں کوئی بھی آنحضرت ﷺ کے قریب نہ آ سکتا تھا ایسے کھٹن لمحے میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللّٰه عنہ ہی کی جرات تھی کہ وہ آپ ﷺ کی مدد و حمایت میں آگے بڑھے اور مدد فرمائی۔

اسی طرح جب ابن الدغنہ نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللّٰه عنہ کی حمایت سے ہاتھ اٹھا لیا اور کفار مکہ کے قہر و غلبہ سے آپ کو ڈرایا اور آپ کو اعلانیہ عبادت اور قران پڑھنے سے ازراہِ ہمدردی منع کیا تو آپ نے ہمت و دلیری کا مظاہرہ فرمایا کہ اپنے گھر سے باہر ایک جگہ مخصوص کر کے سب کے سامنے عبادت و تلاوت کا عمل شروع کر دیا اور بلند آواز سے قرأت کی۔

ایسے ہی آنحضرت ﷺ کے وصال کے بعد مرتدوں کے قتل کے معاملہ میں تمام صحابہ کرام رضی اللّٰه عنہم خوف زدہ تھے جناب ابوبکر رضی اللّٰه عنہ نے جس طرح جرأت و ہمت اور دلیری کا اظہار فرمایا اس پر دنیا بھر کے دلیر اور شجاع انگشت بہ دنداں ہیں۔

چوتھے شیعوں کے شیخ الطائفہ ابو جعفر طوسی کی روایت کے مطابق جو اس نے امالی میں بیان کی ہے شب معراج کے بعد حضور ﷺ نے حضرت علی کرم اللّٰه وجہہ کو بتا دیا تھا کہ اللّٰه تعالیٰ نے میرے بعد تم کو وصی میرا وزیر میرا خلیفہ بنا دیا ہے اور صاحب نوادر الحکمۃ کی روایت کے بموجب جو اس نے عمار بن یاسر رضی اللّٰه عنہ سے بیان کی یا قطب راوندی کی روایت کے موافق جو اس نے بریدہ اسلمی رضی اللّٰه عنہ سے کی، جناب امیر رضی اللّٰه عنہا معراج کے سفر میں آپ کے ہمراہ تھے اور آپ نے لوح محفوظ کا مطالعہ فرمایا تھا تو ان کے تحت حضرت علی رضی اللّٰه عنہ کو یقین تھا کہ میں حضور ﷺ کے وصال کے بعد تیس سال زندہ رہوں گا اور امامت و خلافت کی مسند پر فائز ہوں گا اور پھر مجھ کو ابن ملجم مرادی شہید کرے گا تو اس سب کچھ کے باوجود آپ لڑائیوں میں ڈرنے کیوں لگے۔

پانچویں شیعوں کے ہاں یہ بات طے شدہ ہے کہ امام اپنی مرضی اور اختیار سے مرتا ہے ایسی صورت میں حضرت علی رضی اللّٰه عنہ لڑائیوں میں شرکت فرماتے اور دشمنوں کے مقابلہ میں آتے تو آپ اپنی موت اختیار نہیں فرماتے تھے اور آپ کی مرضی کے بغیر موت کا آنا محال تھا بخلاف حضرت ابوبکر صدیق رضی اللّٰه عنہ کو ان کو باجماع امت نہ یہ درجہ حاصل تھا اور نہ ان کو اس قسم کا علم اور یہ بھی ظاہر اور فطری بات ہے کہ جس کو اپنی جان کا خطرہ ہوگا وہ امکان بھر جنگ و جدل میں ملوث ہونے میں پس و پیش کرے گا جس کو اپنی جان جانے کا خطرہ نہ ہوگا بلکہ یقین ہوگا کہ وہ ابھی نہیں مرے گا اس کو کسی بات کی پرواہ نہ ہوگی تو ایسی صورت میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللّٰه عنہ تو باوجود جان جانے کے خطرہ اور خوف کے جان نثاری اور جانبازی دکھائیں، دین کی نصرت فرمائیں اور مرتدین سے بے دھڑک قتال کریں تو یہ جرات اور بہادری اور انتہائی دلیری اور ثبات قلبی کی دلیل ہے ان کو کیسے بزدل کہا جا سکتا ہے۔

چھٹے پھر جب خود جناب امیر رضی اللّٰه عنہ نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللّٰه عنہ کی دلیری اور شجاعت پر گواہی دی ہو تو اس کے بعد ان کو بزدل کہنا خود جناب امیر رضی اللّٰه عنہ کی گواہی کا انکار اور رد کرنا ہے چنانچہ محمد بن عقیل ابن ابی طالب رضی اللّٰه عنہ راوی ہیں کہ خطبنَا عَلي قَالَ أَيُّهَا النَّاسُ مَنْ أَشجَع النَّاسِ فَقُلْتُ أَنتَ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ فَقَالَ ذاكِ ابو بكرِ الصديق أنه كمَا كَانَ يَوْمُ بَدر وَ صَنَعْنَا لِرَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْعَرِيسُ فَقُلْنَا مَنْ تَقُومُ عِندَهُ لَا يَدنوا إليه احد من المشركينَ فَمَا قَامَ إِلَيْهِ إِلَّا ابُو بكَرِ وَ أَنَّهُ كَانَ شاهدا سَيْفِ بِرَامِهِ فَكَلَّمَا ولَى الْيْهِ أَحَد اهُوَى إِلَيْهِ أبو بكر بالسيف.

ہمارے سامنے حضرت علی رضی اللّٰه عنہ نے تقریر فرمائی اور حاضرین سے پوچھا بتاؤ سب سے زیادہ بہادر کون ہے میں نے کہا اے امیر المومنین آپ، آپ نے فرمایا وہ (بہادر) ابوبکر صدیق ہیں جنگ بدر کے دن ہم نے رسول اللہ ﷺ کے لیے گھاس پھونس کا ایک سائبان بنایا پھر لوگوں سے پوچھا کہ آپ ﷺ کی حفاظت کے لیے آپ کے پاس کون کھڑا ہوگا کسی مشرک کو آپ کے پاس پھٹکنے نہ دے تو اس کے لیے ابوبکر کے سوا کوئی آمادہ نہ ہوا آپ شمشیر برہنہ حضور ﷺ کے سامنے کھڑے ہو گئے جب بھی کوئی مشرک ادھر کا رخ کرتا آپ تلوار لے کر اس پر ٹوٹ پڑتے۔

ساتویں ایک ایسا شخص جس سے بہادروں اور دلیروں جیسے کام سرزد ہوئے ہوں جس کے ہاتھوں امور خلافت و امامت روز روشن کی طرح انجام پائے ہوں اس کے متعلق بزدلی کا دل میں خیال لانا یا یہ کہنا کہ یہ شخص خلافت و ریاست کے قابل نہ تھا نہایت لغو و لچر اور بے معنی بات ہے یہ تو ایسا ہی ہے کہ کوئی شخص عین دوپہر کے دھوپ میں بیٹھے آفتاب کی شعاعوں کی روشنی میں سب کچھ دیکھے پھر یہ کہے یا دل میں خیال لائے کہ آفتاب تو تاریک ہے تو یہ اس شعر کا مصداق ہو۔

اگر نہ بیند بروز شپرۂ چشم

چشمہ آفتاب راچہ گناہ

اور جو شخص واقف سیرت ہو اور جنگ وفتوحات عراق و شام کے حالات سے بخوبی آگاہ ہو وہ یقین ہے یہ مانے گا اور اس کی گواہی دے گا کہ سخت ہیجان کے وقت دلی مضبوطی، ارادہ کی انتہائی پختگی اور اس پر ڈٹے رہنے میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللّٰه عنہ کا کوئی ہمسر اور مثیل نہ تھا۔

چنانچہ قاضی فاضل اپنے رسائل میں اس بادشاہ کی مدح سرائی کرتے ہوئے رقمطراز ہے جس نے مختصر سی مدت میں ملک شام کو فرنگیوں کے پنجے سے آزاد کرا لیا ان سے جنگ آزما ہوا اور ان کے قلعوں کو مسمار کیا لَهُ الْفَرَسَاتُ الصّدیقية وَالْفُتُوحَاتُ الْعُمُرِيَّةُ وَالْجُيُوشُ العثمانِيَّةُ () الحَيدرية جو صدیق رضی اللّٰه عنہ جیسے پختہ ارادے رکھنے والا اور عمر رضی اللّٰه عنہ جیسی فتوحات کرنے والا اور عثمان رضی اللّٰه عنہ جیسی فوجی طاقت کا مالک اور حیدر رضی اللّٰه عنہ جیسا حملہ آور تھا۔

البتہ حضرت علی رضی اللّٰه عنہ کے بارے میں بہادری و قوت بازو، شمشیر زنی، نیزہ بازی، پہلوانوں کی پچھاڑنے، خود بنفس نفیس معرکہ کار زار و جنگ و جدل میں حصہ لینے اور دشمنوں میں گھس بننے کی جتنی روایت منقول ہے اتنی دوسرے کے بارے میں نہیں مگر یہ صفات چونکہ ہتھیار سواری نیزہ بازی کے فنون اور جنگوں اور میدان جنگ کی تجربہ کاریوں سے تعلق نہیں رکھتی ہیں، اصل شجاعت سے جو ایک قلبی صفت زیادہ تعلق نہیں رکھتی اور ریاست کبریٰ و خلافت میں اس کی چنداں ضرورت نہیں۔

کیونکہ مثلا حضرت امام سجاد رحمۃ اللّٰه علیہ اور ان کے بہت سے دوسرے ائمہ ان فنون اور باتوں سے بالکل نا آشنا تھے حالانکہ ان سب کو امامت کبری کا مستحق مانا گیا ہے۔

اسی طرح بہت سے بادشاہ مثلا سکندر، اورنگزیب وغیرہ گزرے ہیں کہ جو شجاع قلب اور شیر افگن تھے مگر میدان جنگ میں کسی ہمسر سے دو بدو نبرد آزمائی یا پہلوانوں سے کشتی لڑنے کا موقع پیش نہیں آیا اس کے باوجود ان کی شجاعت میں کسی نے شک نہیں کیا نہ ان کو بزدل کہا، اور اصل ہر دو صفات شجاعت، جنگی مہارت میں فرق ہے شجاعت ایک قلبی صفت ہے اور یہ خلقی اور فطری ہوتی ہے جبکہ جنگی مہارت بدنی صفت ہے جو شکی اور کسبی کام ہے عام اصطلاح میں ان کو فن سپاہ گری بھی کہتے ہیں اور شجاعت کو اس سے بالکل الگ صفت شمار کرتے ہیں۔