دھوکہ نمبر 93
شاہ عبد العزیز محدث دہلویؒدھوکہ نمبر 93
شیعوں کا ایک گروہ مثلا ابن مطہر علی اور اس کے پیرو اہل سنت پر طعن کر کے کہتے ہیں کہ یہ لوگ مجسمہ محیرہ جو تجیم الہیٰ اور جبر مانتے ہیں حالانکہ یہ طعن بھی حسب عادت افترا اور جھوٹ اور سراسر بہتان ہے اہل سنت تو مجسمہ اور محیرہ کو کافر مانتے ہیں ان کے اقوال و عقائد کے رد میں رسالے اور کتابیں لکھی ہیں البتہ ان شیعی حضرات کے سر بر آوردہ پیشوا اور راویان اخبار بے شک مجسمہ گزرے ہیں جس کی پوری تفصیل ان شاء اللہ آگے بیان ہوگی اور انہی میں سے ایک بڑی جماعت محیرہ کی بھی گزری ہے چنانچہ کلینی نے خود کافی میں اسے روایت کیا ہے۔
اس سلسلہ میں شہرستانی کے اس قول سے جس میں اس نے اہل سنت کو مجسمہ کہا ہے سند لانا اور دلیل میں پیش کرنا درست نہیں کیونکہ اہل سنت اس گروہ کے قول کو بھی رد کیا ہے اگرچہ اہل سنت کے مذہب کی تعبیر میں لفظ جسم آتا ہے مگر اس سے مراد صرف وجود مستقل ہے اور یہ درست ہے اور اسی لفظی اشتراک کے سبب ان کو بھی مجسمہ کہہ دیا گیا ہے۔
ہاں وجود مستقل پر لفظ جسم کا اطلاق کرنا اور پھر اللّٰه تعالیٰ کی ذات پاک کو البعاد ثلاثہ وطول عرض عمق اور لازم جسمانیت سے پاک جاننا شبہ کی گنجائش اور اختلاف اسی میں ہے اس لیے کہ اکثر حضرات نے اللّٰه تعالیٰ کی ذات پر چہرہ ہاتھ آنکھ وغیرہ کا اطلاق جائز بتایا ہے مگر ان کے نزدیک بھی ذات باری کو اجزاء میں بٹا ہوا ماننا اور اس حیثیت سے ہاتھ پاؤں اور دیگر اعضاء کا اعتقاد رکھنا گمراہی ہے بخلاف شیعہ حضرات کہ وہ البعاد ثلاثہ کے اعتقاد کے ساتھ ذات باری کی حقیقی جمعیت کو مانتے ہیں اور بعض نے تو ذات باری کی شکل و صورت بھی بیان کی ہے (شنید ہے کہ بعض ملکوں میں ذات باری کہ خیالی فوٹو بھی دستیاب ہیں)
اسی طرح اہل سنت جبر و متوسط کو مانتے ہیں جو بالکل حق اور درست ہے جیسا کہ جناب ابھی عبداللہ رحمہ اللّٰه علیہ سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا لا جبر ولا تفويض ولكن أمر بين امرين نہ پورا جبر ہی ہے اور نہ پوری تفویض بلکہ ان دونوں کے درمیان ایک چیز ہے۔