دھوکہ نمبر 94
شاہ عبد العزیز محدث دہلویؒدھوکہ نمبر 94
کہتے ہیں کہ اہل سنت کی اپنی صحیح کتابوں میں یہ روایت مروی ہے کہ كانت تلعب بالبنات فى بيت البني ﷺ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللّٰه عنہا نبی کریم ﷺ کے گھر میں گڑیاں کھیلا کرتی تھیں، اب ظاہر ہے کہ اس فعل کی نسبت آنحضرت ﷺ کے گھر کی طرف کرنا اور آپ کی زوجہ محترمہ کو متہم کرنا کہ وہ ناجائز صورت بناتی تھیں اور ایسے گھر میں جو اتنے جلیل القدر پیغمبر کی عبادت گاہ ہو اور وحی فرشتوں اور جبرائیل علیہ السلام کی فردوگاہ ان میں حرام صورتوں کو رکھتی تھیں بہت ہی بری اور نازیبا بات ہے حالانکہ خود اہل سنت نے روایت کی ہے کہ جس گھر میں صورت یا بت ہو نماز جائز نہیں اور فرشتے اس گھر میں نہیں آتے اور انہی میں یہ روایت بھی بیان کی ہے کہ آنحضرت ﷺ خانہ کعبہ کے اندر تشریف لے گئے تو وہاں حضرت ابراہیم و حضرت اسماعیل علیہ السلام کے بت رکھے دیکھے تو ان کو باہر نکالنے کا حکم فرمایا۔
اس طنز و دھوکہ کا جواب یہ ہے کہ اہل سنت پہ یہ الزام اس وقت لگانا تو کچھ ٹھیک ہوتا جب وہ بجائے بنات کے تصویر تمثال یا صورت کے الفاظ نقل کرتے بنات سے صورت ہی کے معنے کیوں مراد لیے جائیں اس سے مراد وہی لینا چاہیے جو اس زمانہ میں مروج و مشہور ہو، چنانچہ چاہے اس زمانے میں گڑیا کی ہیئت کچھ اس طرح ہوتی تھی کہ گول شکل کا ایک کپڑا کترتے پھر اس کے بیچ میں دوسرے کپڑے کی گول سی لپٹی ہوئی گولی رکھ دیتے اور گول کپڑے کے اطراف کو سیدھی الٹی سمت سے سمٹ کر گولی کے نیچے دھاگہ سے مضبوطی کے ساتھ سی لیتے کہ وہ گولی آدمی کے سر کی طرح ہو جاتی اور اس کے نیچے کا حصہ آدمی کے دھڑ کی مانند لگتا اور اس دھڑ میں ہاتھ پاؤں یا دوسرے اعضاء نہیں ہوتے تھے نہ گول حصہ میں منہ ناک آنکھ کچھ ہوتا اس گڑیا کو اوڑھنی کرتا پہناتے اور تیار کردہ شکل کو کھلونے کے طور پر بنات کہتے اور آج کل طرح طرح کی باریکیوں اور نوع بنوع کاریگریوں کا جو رواج ہے اس زمانہ میں بالکل رواج نہ تھا اور ایک گڑیا ہی کیا رہن سہن کھانے پینے زیورات و ملبوسات فرش و فروش میں جو سادگی تھی اس میں اور آج کل کے تکلفات میں زمین و آسمان کا فرق ہے یہ آج کل کی بت اور صورت سازی تو فقہائے اہل سنت کے نزدیک حرام ہے البتہ ادھوری تصویر جس سے کوئی حکمت دینی مقصود ہو وہ تو جناب نبی کریم ﷺ سے مروی ہے مثلا ایک مرتبہ آپ نے ایک خط کھینچ کر اس سے انسانی شکل کو ظاہر فرمایا۔
اور دوسرے دو خطوں میں سے ایک سے اجل اور دوسرے سے امل کی تصویر کھینچی اور ایسی گڑیوں کی ایجاد بھی اس لیے تھی کہ چھوٹی بچیوں میں کم سنی ہی ہے امور خانہ داری پڑھنے لکھنے، سینے پرونے وغیرہ جیسے کاموں میں دلچسپی اور رغبت پیدا کی جائے جیسے ہر زمانہ میں حسب ضرورت و مناسب حالات بچوں کے لیے طرح طرح کے کھلونے بنائے جاتے ہیں تاکہ کم سنی ہی سے ان کے متعلق معلومات دلچسپی اور واقفیت پیدا ہو اور ان سے کام لینے کی مشق ابھی سے کروائی جائے۔
علاوہ ازیں اس پنز پر زبان کھولنا اس وقت تک تو زیب دیتا ہے کہ اس وقت تک تصویر بنانا یا ان کو گھروں میں رکھنا حرام ہو چکا تھا اور یہ بھی معلوم ہو گیا تھا کہ گھر میں تصویر رکھنے سے فرشتے گھر میں نہیں آتے تھے اور یہ ثابت کیا بھی کیسے جا سکتا ہے جب کہ قصہ مذکورہ ہجرت کے متصل زمانہ کا ہے اور تصویروں کا مٹانا اور کعبہ سے ان کا نکالنا آٹھ سال بعد کا واقعہ ہے اور کسی چیز کی حرمت سے پہلے کی کسی بات پر نہ طنز درست ہے اور نہ وہ قابل گرفت مثلا حرمت خمر سے پہلے حضرت حمزہ رضی اللّٰه عنہ کی شراب نوشی حرمت سود سے بیشتر حضرت عباس رضی اللّٰه عنہ کا سودی لین دین۔
اور تعجب تو اس پر ہوتا ہے کہ یہاں تو ان شیعوں نے زوجہ رسول ﷺ یا آپ کے خانہ مبارک کی ہمدردی کو اس طعن کی سند بنا کر پیش کیا ہے مگر جہاں ان ظالموں نے ام المومنین صدیقہ و ام المومنین حفصہ رضی اللّٰه عنہما کی شان میں سراسر جعلی اور گھڑی ہوئی ایسی روایتیں نقل کی ہیں جن سے ان کا ایمان سلب ہوتا اور یہ کفر وارتداد تک پہنچ جاتے ہیں وہاں وہ ایسے ہمدردی کو کیوں بھول گئے، ان پر وہ مثل صادق آتی ہے ” مرا یاد ترا فراموش“ مجھ کو تو یاد سے تو بھول گیا ہوگا،
ان شاءاللہ باب مطاعن اور باب ہفوات میں ہم ان کے اسی قسم کے بہت سے کھوٹے اور غیر ٹکسالی سکوں کو بیان کریں گے اور ان کا کھوٹ اور جعل برملا بیان کریں گے۔