Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

دھوکہ نمبر 95

  شاہ عبد العزیز محدث دہلویؒ

دھوکہ نمبر 95

یہ اہل سنت و الزام لگاتے ہیں کہ وہ بغیرتی بے حجابی اور برے کام پر سکوت اور اس سے نہ روکنے کی نسبت حضور ﷺ کی طرف کرتے ہیں اور اس کے لیے وہ حضرت عائشہ صدیقہؓ کے روایت بایں الفاظ نقل کرتے ہیں۔

أنها قالت رأيت رسول الله ﷺ يستونى براده وأنا انظر إلى الحبشة يلعبون بالدرف والحرب يوم العيد

فرماتی ہیں کہ میں نے دیکھا رسول اللّٰه ﷺ نے اپنی چادر سے میرا پردہ کر لیا اور میں نے ان حبشیوں کا کھیل دیکھا جو عید کے دن اپنے ہتھیاروں سے کھیل رہے تھے۔

بس اس روایت میں رسول اللّٰه ﷺ پر یہ بات آتی ہے کہ آپ نے خود بھی یہ کھیل دیکھا اور عین مسجد میں حبشیوں کے کھیل پر اور اپنی زوجہ مطہرہ کے نامحروں پر نظر ڈالنے پر سکوت فرمایا اور یہ سب باتیں خلاف شرع اور منافی عزت ہونے کے ساتھ ساتھ اہل سنت کی اس روایت کے بھی خلاف ہے جو انہوں نے رسول اللّٰه ﷺ سے بیان کی ہے اتعجبون من غيرة سعد وانا أغير منه والله أغير مني (کہ کیا تم کو سعد کی غیرت پر تعجب ہوتا ہے میں ان سے بھی زیادہ غیرت والا ہوں اور اللّٰه تعالیٰ مجھ سے بھی زیادہ غیرت والے ہیں) تو پیغمبر تو پیغمبر کوئی ادنیٰ درجہ کا آدمی بھی یہ گوارا نہ کرے گا کہ ان کی بیویاں غیروں کو یا ان کے کھیل تماشے کو دیکھیں۔

اس طنز کا جواب یہ ہے کہ ان کا اتنا بڑھ بڑھ کر بولنا اسلام کے ابتدائی حالات سے نا واقفیت اور تاریخ سے جہالت کی دلیل ہے۔

اس لیے یہ واقعہ آیت حجاب کے نزول سے پہلے کا ہے جبکہ تمام مسلمان عورتیں حتی کے پیغمبر ﷺ کی محرمات اور صاحبزادیاں گھروں سے باہر آتیں اور باہر کے کام کاج انجام دیتی تھیں چنانچہ سنی اور شیعوں ہر دو کی روایات سے ثابت ہیں کہ خاتونِ جنت بی بی فاطمۃ الزہراء رضی اللّٰه عنہا نے جنگ احد کے موقع پر حضور ﷺ کے زخم کو دھویا اور دوا لگائی سہل بن سعد اور دیگر صحابہ کرام رضوان اللّٰه علیہم نے یہ واقعہ دیکھا اور اس کی روایت کی۔

تو اگر یہ کسی ایسی بات کی روایت کریں جو آیت تحریم سے بیشتر کی ہو تو وہ رسول اللّٰه ﷺ اور آپ کی زوجہ مطہرہ رضی اللّٰه عنہا کی نسبت ہی ہو تو اس پر طعن کا کیا جواز ہے۔

اسی طرح صحیح طریق سند کے ساتھ شیعہ اور سنی دونوں کے ہاں یہ واقعہ ثابت ہے کہ حضرت حمزہ حضرت ابو طلحہ اور دوسرے اصحاب نے شراب پی مست ہوئے اور باہم دست گریباں ہوئے آنحضرت ﷺ نے یہ صورت ملاحظہ فرمانے کہ باوجود اس پر سکوت فرمایا اور ان حضرات کو کچھ نہ کہا۔

منکر پر سکوت کا الزام تو اس وقت آئے گا جب وہ منکر ہو اور حرام ہونے سے بیشتر وہ منکر کیسے ہو سکتا ہے۔

پھر ایک بات کہ حضرت صدیقہ رضی اللّٰه عنہا اس وقت غیر مکلف تھیں کہ عمر ہی کیا تھی اگر کوئی بچی پردہ میں ہو کر غیر مرد نہ دیکھ سکے اس قسم کی جنگی مشق دیکھے تو اس میں قباحت کی بات ہی کیا ہے۔

اور پھر یہ کھیل کود کب تھا ہتھیاروں سے فوجی مشق اور جنگ کی تیاری کے لیے پینترے بازی، آلات حرب کے استعمال کی تربیت کی ایک لائق تعریف شکل تھی گو ظاہر میں کھیل کود تھا مگر در پردہ اور فی الحقیقت اس میں حکمت ہوتی تھی جیسے گھڑ دوڑ اور نیزہ بازی۔

ایسے کرتبوں کو حضور ﷺ نہ صرف ملاحظہ فرماتے ہیں بعض اوقات عملی شرکت بھی فرماتے بلکہ یہاں تک فرمایا کہ اس قسم کی فوجی کھیلوں میں فرشتے بھی شریک ہوتے ہیں۔

اب رہی بات اس روایت کی جس سے ان حبشیوں کو حضرت عمر رضی اللّٰه عنہ کا جھڑکنا اور ڈانٹنا ثابت ہوتا ہے تو اس کا سبب حضرت عمر فاروق رضی اللّٰه عنہ کی حضور ﷺ سے شدت محبت ہے اس محبت ہی نے ان کو اس پر ابھارا کے گو یہ فعل شرعاً جائز ہے مگر محبوب کے وقار اور شان کے سامنے یہ خفیف الحرکتی ہے جو محب کو بری لگتی ہے اور آپ کا سکوت اخلاق کریمانہ کا مظہر ہے لیکن جب محبوب کا یہ فرمان سنا دعهم يا عمر وامنا يا بنى ارفدة (عمر انہیں نہ چھیڑو، اور ہاں اے بنی ارفدہ اطمینان سے اپنے مظاہرہ میں لگے رہو) تو نہ صرف ڈانٹ ڈپٹ ہی سے باز آگئے بلکہ خود بھی خوشدلی کے ساتھ اسے دیکھا اور سمجھ گئے کہ جب رسول اللہ ﷺ کی مرضی مبارک یہی ہے کہ تو یہ کھیل (اور جنگ کی مظاہرہ) اہل فضل کے وقار و تمکین سے بھی اونچی کوئی چیز ہے۔

شیعوں کی یہ بات باعث حیرت و تعجب ہے کہ قبل تحریم کے واقعات کو تو یہ بےعزتی اور سکوت منکر کہتے ہیں اور خود ائمہ اطہار سے جو رسول اللّٰه ﷺ کے لخت جگر اور آپ کے نائب ہیں اور وہ ان کے نزدیک معصوم اور واجب الاطاعت بھی ایسی روایات کی نسبت کرتے ہیں کہ ان کے محبان صادق تو کیا ہر شریف شخص کی زبان ان کی نقل و حکایت سے لڑکھڑاتی اور ان کے سننے سے ہر مسلمان کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔

منجملہ ان کے ایک یہ ہے کہ جو ان کی کتب میں بروایت صحیحہ منقول ہے کہ حضرت ابو عبد اللّٰه رحمۃ اللّٰه علیہ نے اپنے دوستوں شیعوں سے فرمایا إن خدمة جوارينا لنا وفروجهن لكم حلال (ہماری چھوکریاں ہمارے لیے ان کی خدمت کافی ہے اور ان کی شرمگاہیں تمہارے لیے حلال ہیں) اسی لغو و بے ہودہ روایت پر بنا رکھتے ہوئے شیعہ علماء نے اس وقت کہ امام حق رو پوش تھے، جہاد معطل و بیکار تھا، خمس مال غنیمت سے علیحدہ نہ ہونے کے سبب اپنے مصرف میں صرف نہ ہوتا تھا اور سارے مال غنیمت سے علیحدہ نہ ہونے کے سبب اپنے مصرف میں صرف نہ ہوتا تھا اور سارے مال غنیمت میں مل کر اس کو بھی خراب کر دیتا تھا شیعوں کے لیے چھوکریاں حلال ہونے کا فتوی صادر کیا۔

اب ذرا چشم عبرت وا کریں اور اس ناشائستہ لفظ پر غور کریں کہ کیا اس کو غیرت و شرم سے دور کا واسطہ بھی ہے۔

اسی طرح اس فرقہ کے بڑے مفسران قرآن میں سے ایک مفسر مقداد کنز العرفان فی احکام القرآن کا مصنف آیت هٰٓؤُلَاۤءِ بَنٰتِىۡۤ اِنۡ كُنۡـتُمۡ فٰعِلِيۡنَؕ‏ (یہ میری لڑکیاں ہیں اگر تم کرنا ہی چاہتے ہو) کی تفسیر یوں کرتا ہے۔ اراد الاتيان من غير الطريق المهو وبين الناس یہاں اتیان سے مراد مقرر اور رائج طریقے کے خلاف طریقہ مراد ہے، یہاں اس کج نہاد مفسر نے حضرت لوط علیہ السلام کی طرف ایسے شرمناک کام کی نسبت کی ہے جس کو رذیل ترین اور اوباش آدمی بھی اپنے لیے باعث ننگ و عار سمجھتے اور اس سے گریز کرتے ہیں چہ جائیکہ شرفاء اور پیغمبر یا پیغمبر زادے۔

اگر کسی شیعی کے دل میں یہ بات کھٹکے کہ گو اس وقت اجنبیوں کے دیکھنے کا حکم تحریم نہ آیا تھا لیکن سلیم الطبع اشخاص کی فطری خصلت اسے عار ہی سمجھتی ہے اس لیے پیغمبر علیہ السلام کو اس کی اجازت نہ دینی چاہیے تھی بلکہ منع کرنا چاہیے تھا تو اس کا یہ شک قابل تسلیم نہیں اس لیے کہ طبرسی کی مجمع البیان اور دوسری شیعی تفاسیر میں لکھا ہوا ہے کہ جس وقت خوش جمال اور خوش پوشاک فرشتے مہمانوں کی شکل میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پاس آئے اس وقت ان کا فرشتہ ہونا ظاہر نہیں ہوا تھا تو حضرت سارہ علیہ السلام بھی وہاں آئیں اور مہمانوں کی باتیں سن کر ہنسیں بھی مسکرائیں بھی تو حضرت سارہ علیہ السلام کا آنا غیر مردوں کی باتوں پر مسکرانا ہنسنا غیرت و شرم سے کس قدر بعید بات ہے لہذا اس سے پتہ چلا عار اور شرم اس وقت لاحق ہوتی ہے کہ ذہنوں میں اس کے متعلق برائی بیٹھی ہو اور برائی دل میں بیٹھنا حکم شرح کے نزول پر موقوف ہے حکم شرح سے پہلے اور کیسی اور کیوں ؟

پھر دنیا بھر کی ان مختلف قوموں کے متعلق کہا جائے گا جو مختلف ملکوں اور شہروں میں پھیلی ہوئی ہیں اور جن کے ہاں عورتوں کا مردوں سے چھپنا یا ان کی طرف نظر نہ کرنا نہ معمول تھا اور نہ مروج اور نہ معیوب کیا ان میں کوئی بھی سلیم الطبع فرد موجود نہ تھا اس کے بادشاہ و امراء تاجر اور صاحب ثروت لوگ تو مسلمانوں سے بھی زیادہ نخوت و تکبر اور اقتدار کے مالک ہیں غیرت و ناموس کے بڑے بلند آہنگ دعوی دار ہیں بالخصوص ہند کے راجپوت وغیرہ۔

لہذا حکم شریعت کے نزول سے پہلے ایسے امور کو غیرت کے منافی خیال کرنے اور اس کو بے غوری پن سے تعبیر کرنا اس بات کی علامت ہے کہ ان میں عادی اور خلقی و پیدائشی باتوں میں فرق و تمیز کرنے کی صلاحیت ہی نہیں اور یہی دھوکے کی جڑ ہے۔

پھر مسلمانوں میں مختلف عادات رواج پا گئی ہیں ان کے امرأ و سلاطین باوجود مستحکم اقتدار رکھنے اور غیرت و شرم کے بڑے بڑے دعوؤں کے اپنی بیگمات کو بالا خانہ اور جھرکوں میں بٹھا کر فوجی مشقوں، جانوروں کی لڑائیوں یا مردوں کے دوسرے کھیل تماشے دکھاتے ہیں جنگلوں باغات اور دریاؤں سمندروں کی سیر کراتے ہیں البتہ اس کا ضرور خیال اور اہتمام کرتے ہیں کہ غیر مردوں کی نظر ان پر نہ پڑے۔

علاوہ ازیں عورتوں کا اجنبی مردوں کو ایسی حالت میں دیکھنا کہ ان کا ستر کھلا ہوا نہ ہو یا بالا جماع حرام نہیں ہے بلکہ یہ اختلافی مسئلہ ہے بعض حضرات کا کہنا ہے کہ اجنبی مرد کو دیکھنا عورت کے لیے اسی طرح حرام ہے جس طرح اجنبی عورت کو کسی مرد کا دیکھنا حرام ہے اور اکثر شرعی دلائل اور قرون سابقہ خلفائے عباسیہ کے عہد تک کے حالات اسی اغیر قول کے موئد ہیں۔

پس ایسے فعل کو بری نظر سے دیکھنا یا اس پر اظہار تعجب کرنا جس کے جائز و حرام ہونے میں اختلاف موجود ہو جائے خود عمل نظر ہے اور بالفرض اس کو حرام بھی مان لیں تو وہ واقعہ اس وقت کا ہے جب آیت حجاب و تحریم نازل نہیں ہوئی تھی۔

اور پھر بات کیوں فراموش کر دی جاتی ہے اور حضور ﷺ کے شارع ہونے کو کیوں نظر انداز کیا جاتا ہے اور ان امور میں طرز گفتگو اور اعتراض کا لہجہ ایسا کیوں اختیار کیا جاتا ہے جیسا عام آدمی کے متعلق ہوتا ہے نبوت کے بعد حضور اکرم ﷺ کا ہر قول ہر فعل ہر حکم اور سکوت بجائے خود شریعت ہے چاہے اس کے متعلق کوئی حکم نازل ہوا ہو یا نہ ہوا ہو اور یہ کس کو معلوم نہیں کہ آیت تحریم کے بعد بھی حضور اکرم ﷺ کی زندگی میں ہی کم از کم مستورات نمازوں کے لیے تو مسجد نبوی میں آتی ہی رہی ہیں کیا وہ آنکھوں پر پٹی باندھ کے تشریف لاتی تھیں کہ کسی مرد پر نظر نہ پڑ جائے۔

آیت تحریم کے بعد بھی حضور ﷺ کا صحابیات کو مسجد میں آنے سے نہ روکنے کا صاف مطلب یہ ہے کہ عورتوں کا اجنبی مردوں کو دیکھ لینا حرام نہیں (نعمانی) اور پھر وہ کھیل لہو و لعب کے قماش کا نہیں تھا فنون سپہ گری کا مظاہرہ تھا دیکھنے والیاں بھی ان کرتبوں کو دیکھنا چاہتی تھیں مردوں کو تاک جھانک تو ان کے حاشیہ خیال میں تک نہ تھی۔

اس میں نہ کوئی اعتراض کی بات ہے نہ تعجب کی، تعجب اور ماتم تو ان لوگوں پر کرنا چاہیے جنہوں نے چھوکریوں کی شرم گاہوں کو اپنے لیے حلال جانا جس کو سبھی لوگ ننگ و عار سمجھتے اور نازیبا والا ناشائستہ حرکت خیال کرتے ہیں ان کے لیے کیسے قابل قبول اور لائق تسلیم ہو گیا۔