Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام
زبان تبدیل کریں:

دھوکہ نمبر 96

  شاہ عبد العزیز محدث دہلویؒ

دھوکہ نمبر 96

ان کا ایک طنز اہل سنت پر بصورت الزام یہ ہے کہ انہوں نے اپنی صحاح میں یہ قصہ بیان کیا ہے کہ ملک الموت موسیٰ علیہ السلام کے پاس قبض روح کے لیے آئے تو آپ نے ان کے منہ میں ایسا طمانچہ مارا کہ ملک الموت کی ایک آنکھ جاتی رہی حالانکہ اس واقعے میں کئی قابل اعتراض باتیں ہیں اول یہ کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام خدائی فیصلہ پر راضی نہ ہوئے دوسرے یہ کہ موسیٰ علیہ السلام نے اللّٰه تعالیٰ کی ملاقات کو نا پسند کیا۔

حالانکہ اہل سنت نے یہ روایت بھی بیان کی ہے مَنْ كَرِهَ لَقَاءَ اللّٰهِ كَرِهَ اللّٰهُ لِقَاءَهٗ جو اللّٰه کی ملاقات کو ناپسند کرے اللّٰه تعالیٰ بھی اس سے ملاقات پسند نہیں فرماتا۔

تیسرے یہ کہ ملک الموت اتنے کمزور عاجز اور بے اختیار ہو گئے تھے کہ تھپڑ کھایا آنکھ گنوائی مگر اتنا نہ ہو سکا کہ روح قبض کر لیتے آخر ناکام ہو کر واپس ہوئے خالق الموت والحیات کے دربار میں شکایت کی یہ ساری خرابیاں اصولِ شریعت کے خلاف ہیں۔

اس طنز کا جواب یہ ہے کہ روح قبض کا عمل دو طریقوں پر ہوتا ہے پہلا طریقہ تو یہ ہے کہ جو ملک الموت عام مخلوق کے ساتھ برتتے ہیں کہ اس کو بغیر کوئی اختیار دیئے اور یہ پوچھے اور بتائے بغیر کہ می ملک الموت ہوں اگر اجازت ہو تو ایسا کروں اور اس کی روح قبض کر لیتے ہیں، دوسرا طریقہ وہ ہے کہ جو پیغمبروں کے ساتھ اختیار کرتے ہیں کہ اول تو اپنا تعارف کراتے ہیں کہ ملک الموت ہوں پھر چلنے اور رہنے کا اختیار دیتے ہیں اور یہ پیغام دیتے ہیں إرجعى إلى ربك (اپنے رب کی طرف لوٹ چلیے) چونکہ انبیاء کرام علیہم السلام لقاء رب کے انتہائی شائق ہوتے اور موت کو زندگی پر ترجیح دیتے ہیں اس لیے ان سے قبض روح کی اجازت طلب کرتے ہیں جب اجازت لے چکتے ہیں تو اپنا کام انجام دیتے ہیں۔

پس موسیٰ علیہ السلام کے پاس پہلی مرتبہ اسی عام طریقہ سے آئے نہ اپنا تعارف کرایا نہ ہی شکل و صورت فرشتے کی سی تھی اس لیے موسیٰ علیہ السلام نہ سمجھ سکے کہ کون ہیں اور کیوں آئے ہیں بلکہ انسانی شکل میں ہونے کے اسباب یہ سمجھے کہ کوئی دشمن ہے جو قتل کرنے کے لیے آیا ہے جیسا کہ حضرت داؤد علیہ السلام نے ان دو فرشتوں کو جو محراب کی دیوار پھاند کر اندر آگئے اور آپس میں جھگڑنے لگے اپنا دشمن خیال کیا اور چلا اٹھے قرآن مجید میں بھی اس کا قصہ ہے اور اسی طرح حضور اکرم ﷺ نے بھی حضرت جبرائیل علیہ السلام کو اعرابی سائل کی شکل میں دیکھ کر نہ پہچانا حالانکہ جبرائیل علیہ السلام سے آپ کو اتنا لگاؤ اور اتنی زیادہ مجالست رہی تھی کہ موسیٰ علیہ السلام کو اس کا دسواں حصہ بھی میسر نہ تھا اور دشمن سے ہر ممکنہ طریقہ پر دفاع ضروری اور لازمی ہے اس لیے انہوں نے ملک الموت کے ساتھ یہ برتاؤ کیا دشمن سمجھ کر کیا اور ملک الموت نے خصوصی طریقہ اختیار نہیں کیا تھا پھر ان کے مرتبے نبوت اور اس کو قرب جو ذات باری سے ان کو تھا، واقف تھے اس لیے مار کھا کر بھی ان کے سامنے جھک گئے اور کوئی حرکت نہ کی اور آخر تک اپنی حیثیت ظاہر نہ کی پھر دربار الہی میں حاضر ہو کر روداد بیان کی اور جو واقعہ گزرا تھا عرض کیا پھر دوسری مرتبہ اسی اصول و امتیاز کے ساتھ جو انبیاء کرام کے لیے مخصوص تھا ملک الموت کو بھیجا گیا تب انہوں نے اپنا تعارف کرایا اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کو چلنے یا رہنے کے متعلق اختیار دیا تو آپ نے چلنے پر آمادگی ظاہر فرمائی اور اتنی مہلت مانگی کہ زمین مقدس کے نزدیک پہنچ جاؤں تو اپنا کام کر گزرنا۔

اب ذرا اس پر انصاف کی نظر ڈال کر دیکھ لیجیے اس میں اعتراض کی کیا بات ہے اور کون سی خرابی لازم آتی ہے اور موسیٰ علیہ السلام کی زندگی کی آخری گھڑی یہی مقرر تھی اس لیے اس میں موت کے ٹل جانے کا سوال ہی کہاں پیدا ہوتا ہے۔

اور ملک الموت فرشتگانہ طاقت و قوت کے مالک ہوتے ہوئے بھی بہت سی جگہ پر انداز ہو جاتے ہیں ان میں مرتبہ شناسی ہوتی ہے حفظ مراتب کا خیال اور تعظیم کا لحاظ رکھتے ہوئے اجازت طلب ہوتے ہیں جیسا کہ آنحضرت ﷺ کے وصال کا واقعہ جو امام جعفر سے شیعہ سنی دونوں کے ہاں منقول ہے۔

اور جب موسیٰ علیہ السلام کو یہ معلوم ہی نہ ہو سکا کہ یہ ملک الموت ہیں اور بحکم الہٰی روح قبض کرنے کے لیے آئے ہیں تو اس میں قضائے الہٰی سے ناخوشی اور لقاء رب سے ناپسندیدگی کا سوال ہی کہاں سے نکل آیا۔

اب ہم اسی بات کو لیتے ہیں کہ اللّٰه تعالیٰ نے ملک الموت کو پہلی دفعہ ہی اس ہیئت اور شکل میں کیوں نہ بھیجا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو پہچان کر مقصد آمد جان جاتے تب نہ حیل و حجت کا موقع آتا نہ مار پیٹ کی نوبت آتی تو اللّٰه تعالیٰ کے معاملات اور طریقے اپنے مخصوص بندوں کے ساتھ جس تنوع کے ہیں ان کی حکمتوں مصلحتوں اور اسرار و رموز تک جو بہت نازک باریک اور گہرے اور پوشیدہ ہیں ہر ذہن کی رسائی نہیں ہوتی اگر کوئی اپنے مذاق و مشرب کے مطابق حکمت کلام تصوف اور فقہ سے اخذ کر کے یا سنی شیعہ معتزلہ کے مذاہب کے اصول کی بنا پر لب کشائی کرے اور کوئی ایک آدھ گھنٹہ بیان کر دے تو اس نکتہ کی حقیقت اور واقع سے اتنی سی نسبت ہوتی ہے جیسے قطرہ کی دریا سے یا ذرہ کی صحرا سے اس لیے اہل تحقیق نے ان اسرار و رموز کے علم کو اللّٰه کے حوالے کیا اور خود ہر بلب ہو رہے ہیں اور عقل اجمالی طور پر اتنا جانتی ہے کہ اللّٰه تعالیٰ کا بعض معاملات میں بعض بندوں کو مخصوص کر لینا کئی اسباب پہلے ہوتا ہے کبھی درجات قرب کے لحاظ سے کبھی لطائف روحیہ کے درجات کے مطابق اور کبھی ان اسماء و صفات الٰہی کے باعث جو اس بندہ کے مربی ہوتے ہیں انہیں اسباب پر مبنی ہوتا ہے بعض بندوں کا مقصود کر لینا بعض رنگوں اور شکلوں کے ساتھ رزق کی فراخی اور تنگی کے ساتھ عمر کی درازی یا کوتاہی کے ساتھ۔

چنانچہ بعض اسباب کا اہل طبائع یا اطبا کی نظر سراغ لگا لیتی ہے تو بعض تک اہل نجوم و احکام کے غور و فکر پہنچ جاتی ہے۔

غرض کارخانہ خداوندی کا احاطہ اس کی ذات کے سوا کسی کے لیے ممکن نہیں اس وقت اگر ہم اس معاملے کے کہ جس کو علم تاویل الاحادیث کہتے ہیں جو باریک بھی اور باریک اصولوں پر مبنی بھی اسباب کو حل کرنے بیٹھیں تو موضوع اور مزاج کتاب سے بہت دور جا پڑیں گے اور پھر وہ سامع کے اکتا جانے اور گھبرانے کا باعث بھی ہو گا۔