دھوکہ نمبر 98
شاہ عبد العزیز محدث دہلویؒدھوکہ نمبر 98
کہتے ہیں کہ اہل سنت نے یہ روایت کی ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے تین جھوٹ بولے ہیں حالانکہ انبیاء کرام کا جھوٹ سے پاک ہونا بالاتفاق واجب ہے ورنہ پھر ان کی تبلیغ پر سے اعتماد اٹھ جائے اور بعثت کی غرض مقصود ہو جائے گی۔اس کا جواب یہ ہے کہ اس روایت میں جھوٹ سے مراد تعریض ہے جو صورۃً تو جھوٹ دکھائی دیتا ہے، مگر در حقیقت سچ ہے ، چنانچہ حضور اکرم ﷺ کے مزاحات میں منقول ہے کہ اپ نے فرمایا:
الهاهز لا تدخل الجنه
بوڑھی عورتیں جنت میں داخل نہیں ہوں گی۔
یا فرمایا:
اني حاملك على ولد ناقة
میں تجھے اونٹنی کے بچہ پر سوار کراؤں گا۔
ان في عين زوجك بياضاً
تیرے شوہر کی انکھ میں سفیدی ہے۔
اسی قسم کی اور مثالیں ملتی ہیں اسی طرح حضرت علیؓ سے اس قسم کی بہت سی تعریضات مروی ہیں چنانچہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے یہ تین جھوٹ بھی اسی نوعیت کے تھے اس لیے کہ انہوں نے اپنی زوجہ کو تشدد کے خوف سے بہن بنایا اور اس سے مراد اسلامی اخوت تھی اور انی سقیم فرمایا تو اس سے غرض روحانی کدورت اور پثر مردگی تھی جو جسمانی مرض سے زیادہ سخت چیز ہے اور فعله کبیر ھم کفار کو الزام دیتے ہوئے بطور قرض فرمایا۔ تو ان باتوں کو جھوٹ کہنا محض جھوٹ سے مشابہت رکھنے اور ہم شکل ہونے کی وجہ سے ہے اور یہ بھی ایک ضروری مصلحت کی بنا پر تھا کیونکہ کسی ظالم کو اپنے مال، جان اور آبرو سے باز رکھنے میں اگر صاف جھوٹ بولنا پڑ جائے تو اس کے بھی شرعاً اجازت ہے تعریفیں تو جھوٹ ہے ہی نہیں، بہرحال ان صحیح المعنی روایات کو مورد الزام ٹھہرانا اور اپنی ان روایات کو بھول جانا یا پس پشت ڈال دینا جو انبیاء کرام علیہ السلام کے پاک دامن پر برائی اور الزام کا دھبہ لگاتی ہیں انتہائی ڈھیٹ پن اور حد درجہ بے شرمی ہے۔
آگے چل کر باب نبوت میں ان شاءالله آپ دیکھیں گے کہ بعض انبیاء کو تو یہ وحی سے بھی منکر مانتے ہیں۔ بعض پر حسد بغض پر عناد کا اتہام لگاتے ہیں اور بعض کو گناہ کبیرہ کا مرتکب ٹھہراتے ہیں ان کے ہاں تو بطور اعتقاد یہ تک ملتا ہے کہ انبیاء پر کفر کا اظہار بطور تقیہ واجب ہے۔
اہل سنت کو الزام دینے سے پہلے ان کو چاہیے کہ اپنے عقائد اور ان روایات کا مقابلہ و موازنہ ان تعریضات سے کریں، پھر زبان کھولیں۔