شیعوں کے پیچھے نماز پڑھنے، ان کی نمازِ جنازہ میں شرکت کرنے، ان کے لئے دعائے مغفرت کرنے، ان کے قبرستان میں جانے، ان سے کسی مسلمان مرد یا عورت کے نکاح کرنے اور ان کے ذبیحہ کا حکم
شیعوں کے پیچھے نماز پڑھنے، ان کی نمازِ جنازہ میں شرکت کرنے، ان کے لئے دعائے مغفرت کرنے، ان کے قبرستان میں جانے، ان سے کسی مسلمان مرد یا عورت کے نکاح کرنے اور ان کے ذبیحہ کا حکم
سوال: کیا شیعہ عالم کی امامت میں اہلِ سنّت نماز پڑھ سکتے ہیں اور ان کی نمازِ جنازہ میں شرکت اور تعزیت کر سکتے ہیں، اور شیعہ کے قبرستان میں دعا کر سکتے ہیں اور ان کا ذبیحہ حلال ہے یا نہیں؟ اسکردو میں سب قصاب شیعہ ہیں، انہی کا ذبیحہ گوشت اہلِ سنّت والجماعت کے گھروں میں پکتا ہے، لہٰذا اس کی وضاحت فرمائیں۔
جواب: پہلے اصولی طور پر یہ سمجھ لیجئے کہ دین کی جو بات قرآن حکیم یا احادیثِ متواترہ سے قطعی طور پر ثابت ہو، جو شخص ایسی بات کا منکر ہو، وہ کافر ہے، ایسے شخص کی نہ نمازِ جنازہ میں اِقتداء جائز ہے، نہ اس کی نمازِ جنازہ میں شرکت اور نہ اس کے لئے دعائے استغفار۔
اور جو شیعہ ایسی بات کا منکر نہ ہو، وہ مسلمان ہے، اگرچہ بدعت اور دوسرے گناہوں میں مبتلا ہو، پس جو شیعہ سیدنا عائشہؓ پر جو بہتان لگایا گیا تھا اسے صحیح سمجھتے ہیں یا سیدنا علیؓ کو معبود مانتے ہیں یا سیدنا ابوبکرؓ کے صحابی ہونے کے منکر ہیں یا یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ جبرائیلؑ سے وحی پہنچانے میں غلطی ہوئی ہے یا قرآن شریف کو تحریف شدہ یا غیر معتبر کہتے ہیں، وہ کافر ہیں۔ کیونکہ یہ عقیدہ قرآن حکیم اور تواتر کے خلاف ہیں۔ ایسے شیعوں کے پیچھے نہ نماز جائز ہے، نہ ان کی نمازِ جنازہ میں شرکت، نہ ان کے لئے دعائے مغفرت جائز ہے، نہ ان کے قبرستان میں جانا چاہئے نہ تعزیت کے لئے، ان کا ذبیحہ بھی حلال نہیں ہے، ان سے کسی مسلمان مرد یا عورت کا نکاح بھی نہیں ہو سکتا۔
اور جو شیعہ مذکورہ بالا عقائد میں سے تو کسی چیز کے قائل نہیں مگر شیخینؓ سیدنا ابوبکرؓ اور سیدنا عمرؓ کو گالیاں دیتے اور تبرا کرتے ہیں، ان کے کافر ہونے میں اختلاف ہے، مگر احتیاط اس میں ہے کہ جس کو شامی نے اختیار کیا ہے کہ تکفیر نہ کی جائے، لیکن اس میں شبہ نہیں کہ وہ فاسق ہیں۔
اور جو شیعہ تبرا بھی نہیں کرتے مگر سیدنا علیؓ کو باقی خلفائے ثلاثہؓ سے افضل سمجھتے ہیں وہ بالاتفاق کافر نہیں مگر اہلِ بدعت اور فاسق ہیں، اہلِ سنّت والجماعت سے خارج ہیں۔
آخری دو قسموں کے شیعوں کے پیچھے نماز مکروہ تحریمی ہے اور اگر وہ اس طرح نماز پڑھاتے ہیں کہ نماز کا کوئی رکن یا شرط فوت ہو جاتی ہے تو ان کے پیچھے کسی سنّی مسلمان کی نماز ادا نہ ہو گی، فرض ہی ادا نہ ہو گا، اگر نماز کا کوئی واجب ترک کرتے ہیں تو ان کے پیچھے نماز واجب ادا نہ ہو گی، اگرچہ فرضیت ادا ہو جائے گی، ان کے جنازہ اور نمازِ جنازہ میں شرکت کی بھی گنجائش ہے اور تعزیت و دعائے مغفرت بھی کی جا سکتی ہے، مگر مشہور علمائے کرام اور دینی پیشواؤں کو علی الا علان ایسا کرنے سے پرہیز کرنا چاہئے۔ الا لحاجۃ شرعیۃ ان کے قبرستان میں دعا کر سکتے ہیں، ان کا ذبیحہ بھی حلال ہے۔
(فتاویٰ دارالعلوم کراچی جلد 6، صفحہ 395)