Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام
زبان تبدیل کریں:

دھوکہ نمبر 99

  شاہ عبد العزیز محدث دہلویؒ

دھوکہ نمبر 99

ایک طعن یہ کرتے ہیں کہ اہل سنت کی صحاح میں یہ روایت ہے کہ

ان الشيطان يفر من ظل عمر

(شیطان حضرت عمرؓ کے سایہ سے بھی بھاگتا ہے)

حالانکہ اس سے حضرت عمرؓ کی فضیلت انبیاء کرام علیہ السلام پر ظاہر ہوتی ہے، اس لیے کہ انبیاء تو نصوص قرآنیہ کے بموجب شیطان سے محفوظ نہ رہ سکے چنانچہ حضرت آدم علیہ السلام کے متعلق فرمایا گیا:

فوسوس اليه الشيطان

(شیطان نے ان کے دل میں وسوسہ ڈالا)

حضرت موسی علیہ السلام کے متعلق فرمایا:

هذا من عمل الشيطان

(یہ شیطان کا کام ہے)

حضرت ایوب علیہ السلام کے بارے میں فرمایا گیا:

اني مسني الشيطان بنصب و عذاب

( بے شک چھوا مجھے شیطان نے دشمنی اور تکلیف کے ساتھ )

پھر تمام رسولوں اور نبیوں کی شان میں ارشاد ہوا ہے :

وما أرسلنا من قبلك من رسول ولا نبي الا اذا تمنى القى الشيطان في امتيته

( آپ سے پہلے ہم نے کوئی رسول اور نبی نہیں بھیجا مگر یہ کہ ان کی تمنا میں شیطان نے گڑبڑ نہ کی ہو)

اسی طرح کی اور بھی بہت سی آیات و احادیث ہیں اب جب کہ شیطان حضرت عمرؓ سے کیا بلکہ ان کے سائے سے بھی بھاگتا ہے اور انبیاء و رسل کو خاطر میں نہیں لاتا بلکہ ان کے دلوں پر قبضہ پاکر ان میں وسوسہ ڈالتا ہے تو لامحالہ حضرت عمر انبیاء سے افضل ہوئے اور یہ بات بالاجماع غلط اور باطل ہے۔

ان کے ہاں یہ الزام بڑا معرکہ آرا سمجھا جاتا ہے اور ان کے ہاں اہل علم اس شبہ کو بیان کر کے بڑی خوشی اور فخر کا اظہار کرتے ہیں۔

اہل سنت کی طرف سے اس الزام کے کا جواب کئی انداز اور وجوہ سے دیا جاتا ہے ،اول ہم خود ان شیعوں سے پوچھتے ہیں کہ تم ان تمام آیات مذکورہ یا ان جیسی دوسری آیات کی روشنی میں انبیاء پر شیطان کا عمل دخل مانتے ہو یا نہیں اگر مانتے ہوں تو انبیاء و آئمہ کرام کی عصمت کا عقیدہ تمہارے ہاتھ سے نکلا جاتا ہے۔ اور نہ ماننے کی صورت میں ان آیات کی تاویل مکر کے انبیاء کرام کی عصمت شیطان سے محفوظ و برقرار رکھو گے تاکہ ان کی ذات پر کوئی الزام نہ آئے ،اس صورت میں زیادہ سے زیادہ یہ ہوگا کہ حضرت عمرؓ اس صفت میں انبیاء کرام کے شریک ہوجائیں گے اور اس میں کوئی حرج بھی نہیں ہے کیونکہ بعض اولیا انبیاء کے ساتھ بعض صفات میں شریک ہو جاتے ہیں، البتہ ان میں فرق یہ ہے کہ انبیاء کرام پر شیطان کا تسلط اور غلبہ ناممکن ہے اور ان کے اسی مرتبہ کا نام عصمت ہے اور اولیاء پر شیطان کا غلبہ ممکن ہے، اور ان کے اس مرتبہ کا نام محفوظیت ہے ، شیطان کا غلبہ ممکن ہے اور ان کے اس مرتبے کا پتہ بعض قرانی ایات سے بھی چلتا ہے کہ خدا کے بعض بندے بھی شیطان کے تسل سے مامون ہے یہ خاصہ صرف انبیاء کرام علیہ السلام کے ساتھ مخصوص نہیں چنانچہ ارشاد ہے۔۔۔

بے شک میرے خاص بندوں پر تجھ کو غلبہ حاصل نہیں ہوگا

نیز فرمایا۔۔۔

مگر ان میں سے تیرے باز مخلص بندے تو اگر حضرت عمرؓ کاشمار بھی ایسے بندوں میں ہو جائے تو اس میں کون سے شرعی یا عقلی خرابی کا لازم آتی ہے،

اب رہے یہ الفاظ کے خلاف فلاں کے سایہ سے بھاگتا ہے تو یہ محض ایک مثال ہے یہ کیا ضروری ہے کہ ان الفاظوں کی معنے پر محمول کر کے دو راز عقل معنی پیدا کریں مقصد صرف اتنا ہے کہ شیطان ان کو بہکانے میں بے بس ہے مثلا اللہ تعالی کے اس فرمان۔۔۔

(کہیے کہ جس موت سے تم بھاگتے ہو) مراد بچتے ہو یا یہ فرمایا۔۔۔

وہ دیوار جو ٹوٹا ہی چاہتی تھی اس میں گراہی چاہتی تھی مراد ہے،

دوسرے شیطان کا حضرت عمرؓ سے ڈر کر بھاگنا اور انبیاء و رسل سے نہ ڈرنا اس بات سے بھی حضرت عمرؓ کی فضیلت انبیاء کرام پر ثابت نہیں کی جا سکتی اس لیے کہ چور کوتوال اور پہرے دار سے اور راہزن فوجدار سے جتنا ڈرتے اور کانپتے ہیں اتنا بادشاہ ہے وقت سے نہیں کیونکہ کوتوال اور فوجدار کی تو ڈیوٹی اف فرض ہی یہ ہے کہ مفسدوں چوروں اور ڈاکو سے ملک و شہر کو پاک کریں اس لیے یہ مفسدوں اور چوروں کے مکروہ و فریب اور ہتھکنڈوں کو بادشاہ کی نسبت زیادہ جانتے اور پہچانتے ہیں بادشاہ کو ملکی مہمات اور معاملات میں الجھ کر یہ موقع کہا کہ وہ چوروں کی نفسیات اور ان کی وارداتوں کی ٹوہ لگائیں حضرت عمرؓ چونکہ عہدہ احتساب سے سرفراز سے اس لیے بد کرداروں اور بد افعال اشخاص جو در پردہ شیطانی گھر کے تھے ان سے لرزہ و ترساں رہتے تھے بلکہ ان کے احتساب کو تو دریائے نیل بھی مانتا تھا کہ ان کے حکم پر جاری ہوا۔

خلاصہ کلام یہ ہے کہ شیطان کو کسی چیز یا شحض سے ڈرنا اس شخص یا چیز کی اصلیت کو اس شخصیت نے اس چیز پہ ثابت نہیں کرتا جس کی فضیلت قطعی الثبوت ہے۔

مثلا اذان کے بارے میں فریقین کے ہاں جو ایت مروی ہے کہ اذان سن کے شیطان گوز کرتا ہوا بھاگتا ہے اور پھر نماز میں ا موجود ہوتا ہے اور وسوسے ڈالتا ہے حالانکہ یہ بات بلا جمع ثابت ہے کہ نماز تمام عبادت پہ افضل ہے چہ جائیکہ اذان کہ وہ تو وسیلہ نماز ہے اور نہ اصل عبادت نہ فرض اور نماز سے اس کے برابری کا سوال ہی نہیں اس صورت میں حضرت عمر اور انبیاء کرام علیہ السلام کے معاملے کو قیاس کرنا چاہیے۔

تیسرے یہ کہ انبیاء علیہ السلام کو شیطان مکروہ فریب اجمال طور پر بیان کر کے اس کے راستے بند فرماتے ہیں اور حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ اس کے مکروہ فریب کا پوسٹ مارٹم کر کے اس کے سارے انجر پنجر کو جانچتے پر رکھتے ہیں۔

اور بہکانے گمراہ کرنے کے ذرائع اور وسائل اور اوزاروں کی تفصیلی جانچ پڑتال کرتے اور ان کا توڑ تلاش پھر تمام رسولوں اور نبیوں کی شان میں ارشاد ہوا ہے۔ (اپ سے پہلے ہم نے کوئی رسول اور نبی نہیں بھیجا مگر یہ کہ ان کی تمنا میں شیطان نے گڑبڑ نہ کی ہو اسی طرح کی اور بھی بہت سی آیات اور احادیث میں ہیں) اب جب کے شیطان حضرت عمرؓ سے کیا بلکہ ان کے سائے سے بھی بھاگتا ہے اور انبیاء وارسول کو خاطر میں نہیں لاتا بلکہ ان کے دلوں پر قبضہ پا کر ان میں وسوسہ ڈالتا ہے تو لامحالہ حضرت عمر انبیاء سے افضل ہوئے اور یہ بات بالاجماع غلط و باطل ہے،

ان کہ ہاں یہ الزام بڑا معرکہ سمجھا جاتا ہے اور ان کے ہاں کے اہل علم اس شبہ کو بیان کر کے بڑی خوشی اور فخر کا اظہار کرتے ہیں۔

اہل سنت کی طرف سے اس الزام کا جواب کئی انداز اور وجوہ سے دیا جاتا ہے اول ہم ہد ان شیعوں سے پوچھتے ہیں کہ تم ان ایات کا مذکورہ یا ان جیسی دوسری ایات کی روش میں انبیاء پر شیطان کا عمل دخل مانتے ہو یا نہیں اگر مانتے ہو تو انبیاء و آئمہ کرام کی عظمت کا عقیدہ تمہارے ہاتھ سے نکلا جاتا ہے اور نہ ماننے کی صورت میں ان ایات کی تاویل کر کے انبیاء کرام کی عصمت شیطان سے محفوظ برقرار رکھو گے تاکہ ان کی ذات پر کوئی الزام نہ آئے اس صورت میں زیادہ سے زیادہ یہ ہوگا کہ حضرت عمرؓ اس صفت میں انبیاء کرام کے شریک ہو جائیں گے اس میں کوئی حرج بھی نہیں ہے کیونکہ بعض اولیا انبیاء کے ساتھ بعض صفات میں شریک ہو جاتے ہیں البتہ ان میں فرق یہ ہے کہ انبیاء کرام پر شیطان کا تسلط اور غلبہ ناممکن ہے اور ان کے اسی مرتبہ کا نام عصمت ہے اور اولیاء پر شیطان کا غلبہ ممکن ہے اور ان کے اس مرتبہ کا نام محفوظیت ہے شیطان کا غلبہ ممکن ہے اور ان کے اس مرتبہ کا پتہ بعض قرآنی آیات سے بھی چلتا ہے کہ خدا کے بعض بندے بھی شیطان کے تسلط سے مامون ہیں یہ خاصہ صرف انبیاء کرام علیہ السلام کے ساتھ مخصوص نہیں چنانچہ ارشاد ہے :

ان عبادي ليس لك عليهم سلطان

(بے شک میرے خاص بندوں پر تجھ کو غلبہ حاصل نہیں ہوگا)

نیز فرمایا :

الا عبادك منهم المخلصين

(مگر ان میں سے تیرے بعض بندے)

تو اگر حضرت عمر رضی الله عنہ کا شمار بھی ایسے بندوں میں ہو جائے تو اس میں کون سی شرعی یا عقلی خرابی لازم آتی ہے،

اب رہے یہ الفاظ کے فلاں فلاں کے سایہ سے بھاگتا ہے۔ تو یہ محض ایک مثال ہے یہ کیا ضروری ہے کہ ان الفاظ کو حقیقی معنی پر محمول کر کے دوراز عقل معنے پیدا کریں۔ مقصد صرف اتنا ہے کہ شیطان ان کو بہکانے میں بے بس ہے۔ مثلاً الله تعالی کے اس فرمان :

قل ان الموت الذي تفرون منه

(کہیے کہ جس موت سے تم بھاگتے ہو) میں مراد بچتے ہو۔

یا فرمایا :

جدارا يريد ان ينفض

(وہ دیوار جو ٹوٹا ہے چاہتی تھی اس میں گرا ہی چاہتی تھی مراد ہے)

دوسرے شیطان کا حضرت عمرؓ سے ڈر کر بھاگنا اور انبیاء و رسل سے نہ ڈرنا، اس بات سے بھی حضرت عمرؓ کی فضیلت انبیاء کرام پر ثابت نہیں کی جا سکتی اس لیے کہ چور کوتوال، اور پہرے دار سے اور راہزن فوجدار سے جتنا ڈرتے اور کانپتے ہیں اتنا بادشاہ وقت سے نہیں کیوں کہ کوتوال اور فوجدار کی تو ڈیوٹی اور فرض ہی یہ ہے کہ مفسدوں ،چوروں اور ڈاکوؤں سے ملک و شہر کو پاک کریں اسی لیے یہ مفسدوں اور چوروں کے مکر و فریب اور ہتھکنڈوں کو بادشاہ کی نسبت زیادہ جانتے اور پہچانتے ہیں بادشاہ کو ملکی مہمات اور معاملات میں الجھ کر یہ موقع کہاں کہ وہ چوروں کی نفسیات اور ان کی وارداتوں کی ٹوہ لگاۓ۔ حضرت عمرؓ چونکہ عہدہ احتساب سے سرفراز تھے اس لیے بد کردار اور بد افعال اشخاص جو در پردہ شیطانی گر گے تھے ان سے لرزاں و ترساں رہتے تھے۔ بلکہ ان کے احتساب کو تو دریائے نیل بھی مانتا تھا۔ کہ ان کے حکم پر جاری ہوا۔

خلاصہ کلام یہ ہے کہ شیطان کا کسی شخص یا چیز سے ڈرنا اس شخص یا چیز کی اصلیت کو اس شخص یا چیز پر ثابت نہیں کرتا جس کی افضیلت قطعی الثبوت ہے۔

مثلاً اذان کے بارے میں فریقین کہ ہاں بروایت صحیحہ مروی ہے کہ اذان سن کے شیطان گوز کرتا ہوا بھاگتا ہے اور پھر نماز میں آ موجود ہوتا ہے اور وسوسے ڈالتا ہے ۔حالانکہ یہ بات بالاجماع ثابت ہے کہ نماز تمام اصلی عبادت میں افضل ہے چہ جائیکہ اذان کے وہ تو وسیلہ نماز ہے نہ اصل عبادت ہے، نہ فرض۔ اور نماز سے اس کی برابری کا سوال ہی نہیں اسی صورت پر حضرت عمرؓ انبیاء کرام علیہ السلام کے معاملہ کو قیاس کرنا چاہیے۔

تیسرے یہ کہ انبیاء علیہ السلام تو شیطانی مکر و فریب اجمالی طور پر بیان کر کے اس کے راستے بند فرماتے ہیں اور حضرت عمرؓ اس کے مکروہ فریب کا پوسٹ مارٹم کر کے اس کے سارے انجر پنجر اور جانچتے اور پرکھتے ہیں۔

اور بہکانے ، گمراہ کرنے کے ذرائع وسائل اور اوزاروں کی تفصیلی جانچ پڑتال کرتے اور ان کا توڑ تلاش کرتے ہیں۔

اور چونکہ عقل مدرک میں (سمجھنے والی) احکام کلیات کی ہے اور وہم جزوی احکام کا مدرک ہے اور وہم ہی قویٰ کیا پورے وجود انسانی پر حکمرانی کرتا ہے اور اکثر لوگوں میں اکثر اوقات عقل پر غالب رہتا ہے اور عقل کے خوف و ڈر کو خاطر میں نہیں لاتا اس کے خوف سے اپنی مملکت اعضائے انسانی میں من مانے احکام صادر کرنے سے باز رہتا ہے نہ عاجز ہوتا ہے جب تک وہ خود ہی کسی بات یا چیز سے خائف نہ ہو جائے شیطان بھی جب تک اس کی مدد اور موافقت نہ حاصل کر لے کوئی کام انجام نہیں دیتا۔ وہم شیطان کا اتنا بڑا ہتھیار ہے کہ وہ ساتھ نہ دے تو شیطان مفلوج ہو کر رہ جائے۔

لہذا ان وجوہ سے شیطان حضرت عمرؓ سے خائف ہوگا انبیاء کرامؑ سے نہیں اور یہ بات حضرت عمرؓ یا ان جیسی ہستیوں کی فضیلت کی نہیں بلکہ یہ چیز ان کی جزئی کاریگری اور باریک بینی سے حاصل ہوئی ہے جیسے فراست مومنانہ بھی کہا جا سکتا ہے، جو انبیاء کرام علیہ السلام ہی سے ماخوذ اور ان کے انوار و تجلیات کا پر تو ہے یہ زیر کی ودانائی اوژرف نگاہی نور نبوت ہی کا فیضان ہے۔

چوتھے یہ کہ انبیاء کرام کو جنت کی نعمتوں کی امید دلا کر، اور دوزخ کے شدائد اور ہولناکیوں سے ڈر کر، اطاعت کی طرف راغب اور معاصی سے نفور و خائف کرتے ہیں، اول تو یہ باتیں نظر سے غائب ہیں، اور بہت سے لوگوں کی عقل میں بھی نہیں آتیں۔ دوسرے یہ صرف وعدہ وعید ہے اور وہ بھی حشر کے دن کا: اور ایسے آدمی کو شاذ و نادر ہی ملیں گے۔ جو ان وعدوں پر ایسا ایمان رکھتے ہوں جیسا کہ آنکھوں دیکھی چیز پر اور جن کو انبیاء کرام علیہ السلام کے وعدوں پر اعتماد کلی ہو۔

اور حضرت عمرؓ یا ان جیسی ہستیاں دنیاوی نعائم کے ساتھ رغبت دلا کر یا ڈنڈے کی زور سے اطاعت کی طرف راغب کرتی اور برائیوں سے باز رکھتی ہیں۔ پھر دنیا کے اکثر لوگ تو ترت فائدے اور نفع ہی کو قابل توجہ سمجھتے اور یہیں کے مکافات عمل سے ڈرتے اور خوفزدہ ہوتے ہیں، اس لیے لامحالہ شیطانی فوج اور اس کے گرگے ،عمری دبدبہ و قہر سے زیادہ خائف اور ان کے نام سے لرزہ براندام تھے، نہ کہ انبیاء سے چنانچہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا ارشاد ہے:

السلطان يزع اكثر مما يزع القرآن

(قرانی بندوبست سے زیادہ سلطانی بندوبست سخت ہوتا ہے)

اردو میں بھی ایک مثل مشہور ہے کہ (مار کے آگے بھوت بھی بھاگتا ہے) جو جن بھوت تعویز گنڈوں سے نا بھاگے اس کی اگر پٹائی کر دی جائے تو فوراً دفع ہو جاتا ہے پانچویں یہ روایت بھی اس طعن کہ بخئے ادھیڑتی ہے جو شیعوں اور سنیوں دونوں کی کتب میں موجود ہے کہ حضرت علیؓ سے آپ کے احباب اور دوستوں کے مراتب دریافت کیے گئے تو اپ نے فرداً فرداً بیان فرمائے اور حضرت عمارؓ کے فضائل میں یہ الفاظ فرمائے:

ذالك الذي إجارة الله عن الشيطان على لسان نبيكم

(یہ وہ ہستی ہے جس کے شیطان سے پناہ میں رہنے کی اطلاع الله تعالی نے تمہارے نبی ﷺ کی زبان مبارک سے دلوائی) اس روایت سے حضرت عمارؓ کا شیطان سے محفوظ ہونا ثابت ہوتا ہے، تو چاہیئے انہیں بھی انبیاء کرام علیہ السلام پر فضیلت ہو ،(اور کسی کے نزدیک بھی ایسا نہیں ہے) بہرحال عمر ہوں یا عمار مادہ دونوں کا مشترک ہے فرق صرف اتنا ہے کہ عمار خود شیطان سے محفوظ ہیں اور حضرت عمرؓ خود محفوظ ہونے کے ساتھ شیطان کے لئے ہوّا بھی ہیں ،کہ ان کے سایہ تک سے لرزتا ہے اور میدان چھوڑ بھاگتا ہے، اب اگر طعن کرنے والوں کی منطق کو تسلیم کر لیا جائے تو بد یہی نتیجہ نکلے گا کہ انبیاء کرام علیہ السلام تو( نعوذ بالله )شیطان سے محفوظ نہ رہ سکے اور حضرت عمار کی محفوظیت کی لسان نبی ﷺ کے ذریعہ الله تعالی نے خبر دیدی تو گویا یہ بھی انبیاء علیہم السلام سے افضل ہوئے۔

الجھا ہے پاؤں یار کا زلف دراز میں

لو آپ اپنے دام میں صیاد آگیا ۔