دھوکہ نمبر 100
شاہ عبد العزیز محدث دہلویؒدھوکہ نمبر 100
یہ کہتے ہیں کہ کتب صحاح میں یہ آیا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے بہشت میں حضرت بلالؓ کو اپنے آگے آگے دیکھا اور ان کی جوتی کی آواز آپ کی سماعت میں آئی، اعتراض ان کا یہ ہے کہ اس روایت سے حضرت ابوبکرؓ کے غلام کی حضور ﷺ پر فضیلت لازم آتی ہے ،اور یہ بڑی نازیبا بات ہے۔
اس اعتراض میں بڑے ظلم اور تعصب سے کام لیا گیا ہے، اس لئے کہ حضرت بلال حبشیؓ کا بہشت میں آگے چلنا بالکل ایسا ہی ہے جیسے زمین پر تھا کہ حضور ﷺ کہ وہ آگے آگے ہی چلتے تھے تاکہ راہ کے موانعات اور تکلیف دینے والی چیز کو ہٹا دے رحمالتہ الحطب کی طرح بہتر ہے آپ کے دشمن تھے آپ کی ایذا رسانی کے لئے کچھ بھی آپ کے راستے میں ڈال سکتے تھے۔ یہ بھی نہ ہو تو راستہ میں اینٹ پتھر اور روڑے تو ہوتے ہی ہیں( نعمانی) اور وہ اینٹ پتھر جو بھی ہوتا اٹھاتے اور آپ کے لیے راستہ صاف کرتے تھے، عام طور پر خدام اسی لئے رکھے جاتے تھے اگر ان کو اس کام کے لیے خاص طور پر نہ بھی رکھا جاتا تو خدام از خود اسے اپنا فرض قرار دے لیتے کہ کوئی ایسی بات نہ ہو کہ آقا کو کلفت اور بے آراسی ہو۔
اور اس وقت یہ رسم غایت ادب کی علامت اور نشانی تھی۔ اور خدام کا یہ عام معمول تھا کہ اپنے آقا و مخدوم کے آگے آگے چلیں، اور اس کا مشاہدہ آج بھی برأس العین کیا جا سکتا ہے۔ سلاطین زمانہ اور احکام وقت کے باڈی گارڈ کہاں چلتے ہیں ،پیچھے ہاتھ باندھے یا آگے دندناتے ہوئے، دنیا میں اعتراض کرنے والی یہی ایسی عجیب الخلقت مخلوق ہے جس کو عین ادب بے ادبی نظر آتا ہے نعمانی۔
اس ادب کے مقابلہ میں یہ بات ہو، ادب ہے کہ مخدوم اپنے راستے کے موانعات خود اپنے ہاتھ سے ہٹائے راستہ صاف کرنے اور خدام دست بستہ تماش بین بنے پیچھے ہوں۔ یہی وجہ ہے کہ تمام امراء ،اغنیاء اور بادشاہوں اور ذی اقتدار لوگوں میں ادب کی یہی صورت ہمیشہ رائج رہی ہے اور تو اور عرب کے جاہل اکھڑ ناک پر مکھی نہ بیٹھنے والے ذی حشم لوگ بھی اسی کو شائستہ ادب مانتے تھے۔ چنانچہ مثال کے طور پر ان کے ہاں یہ مشہور ہے:
ثلث يتقدم فيها الاصاغر على الأكابر اذا سارو كيلا أو خامنوا سبيلاً أو صارفوا خيلاً
(تین مواقع پر چھوٹے بڑوں کے آگے رہتے ہیں جب رات کو کہیں جائیں یا پانی میں گھسیں یا لشکر لے کر چلیں)
اور اس قسم کا تقدم نہ جنت میں پہلے داخل ہونے کا متقاضی ہو ہے، اور نہ ہی مرتبے اور درجہ کی بلندی کا ۔جس سے کوئی یہ نتیجہ نکالے کہ وہ آنحضرت ﷺ سے افضل ہیں ،اور فرض کر لیں کہ وہ جنت میں پہلے ہی داخل ہوئے تھے تو بھی جنت میں داخلہ اس وقت بزرگی و فضیلت کا باعث ہوتا ہے ۔جبکہ ثواب اور اجراعمال بھی اس سے زائد ہوں ورنہ یوں تو فرشتے بھی انبیاء سے پہلے جنت میں چلے جاتے ہیں اور حضرت ادریس علیہ السلام ہمارے حضور ﷺ سے پہلے جنت میں چلے گئے بلکہ جنت میں تو ابلیس حضرت ادم علیہ السلام سے پیشتر چلا جاتا تھا۔
پھر بڑی فضیلت اور برتری تو یہ ہے کہ جیتے جاگتے اس گوشت پوست کے جسم کے ساتھ بہشت میں داخلہ ہو، جیسا کہ ہمارے پیغمبر ﷺ کو نصیب ہوا نہ یہ کہ خواب یا استغراق میں صرف روح جنت میں جائے اور خود کو پتہ تک نہ چلے۔
جب آنحضرت ﷺ کو( معراج کی شب) آپ کی امت کے مراتب اور ان کے ثواب و درجات کی مقدار دکھائی اور بتائی جا رہی تھی تو ساتھ ساتھ صاحب درجات و مراتب کی صور مثالیہ بھی پیش کی جا رہی تھیں اور بتایا جا رہا تھا کہ آپ کی امت میں سے فلاں شخص کو فلاں عمل کے سبب یہ درجہ و مرتبہ نصیب ہوا تا کہ آپ لوگوں کو اس عمل کے خواص و فضائل سے آگاہ فرمائیں۔
اسی وجہ سے حضور ﷺ ان میں سے کسی سے فرماتے کہ میں نے تم کو اس مرتبہ و درجہ پر فائز دیکھا ہے تم ایسا کیا کام کرتے ہو جس کیے سبب اس مرتبہ کے مستحق سمجھے گئے مقصد یہ ہوتا تھا کہ وہ بھی اس عمل کی اہمیت و افادیت سے واقف ہو اور پھر کبھی وہ عمل ترک نہ کرے اور دوسرے لوگوں بھی اس کام کی طرف راغب ہوں اور ان میں بھی اس کی حرص پیدا ہو۔ حالانکہ ایسے حضرات کو ان امور کا کچھ پتہ نہ ہوتا تھا اور نہ انہوں نے اپنے آپ کو خواب میں بھی جنت میں دیکھا تھا۔ چنانچہ جناب بلال رضی اللہ عنہ کو بہشت میں اپنے آگے دیکھنے کا معاملہ بھی اسی طرح کا تھا، یہ ان کی مثالی صورت ہے جو آپ نے ملاحظہ فرمائی یا محسوس فرمائی۔ جب حضور ﷺ نے ان سے عمل کے بارے میں دریافت فرمایا تو یہ بات معلوم ہوئی کہ وہ تحیۃ الوضوء پابندی اور اہتمام سے پڑھتے تھے اور اس سے تحیۃ الوضوء کی فضیلت واضح ہو گئی۔
اسی طرح دوسرے صحابہ و صحابیات رضی اللہ عنہم کے بارے میں متعدد احادیث میں یہ آیا ہے کہ آپ نے نام لے لے کر فرمایا کہ فلاں کو ایسا دیکھا اور فلاں کو ایسا اور یہ فلاں فلاں عمل کے سبب تھے ان میں حضرت ابو طلحہؓ کی بیوی حضرت رمیضاؓ بھی ہیں اور حارثہ بن نعمان انصاریؓ بھی کہ بہشت میں آنحضرت ﷺ نے ان کی قرآت سماعت فرمائی پھر معلوم ہوا کہ ان کا یہ اعزاز اور مرتبہ ماں کی خدمت کا صلہ نتیجہ اور سبب ہے۔
طبرانی میں اسی حدیث بلال کے آخر میں فقراء اور ان کی اولاد کا ذکر ان الفاظ میں آیا ہے جس سے یہ شبہ بلکل ہی جاتا رہا ۔
هن ابي أمامة ان نبي صلى الله عليه وسلم قال دخلت الجنة فسمعت حركة امامى فنظرت فاذا بلال و نظرت إلى اعلاها فاذا فقرأء امتي و اولادهم و نظرت في اسفلها فاذاهم الأغنياء
ابی امامتہؓ راوی ہیں کہ حضور ﷺ نے فرمایا کہ میں جنت میں داخل ہوا تو اپنے آگے کچھ چاپ سنی جب میں نے ادھر نظر ڈالی تو بلال نظر آئے ،اوپر کے حصہ کی طرف نظر اٹھائی تو وہاں میری امت کے فقراء اور ان کی اولاد نظر آئی اور نیچے کے حصہ کی طرف جھانکا تو وہاں امراء اور اغنیاء نظر آئے۔
شیعوں کے اعتراض میں اگر آپ حضرت بلالؓ سے متعلق تعارفی الفاظ غلام ابوبکر پر غور کریں گے تو ان کے دلوں میں چھپا ہوا تھا تعصب اور عناد عیاں ہو کر سامنے آ جائے گا۔ یہ نام منصف متعصف اتنا نہیں سوچتے کہ اہل سنت اگر حضرت بلالؓ کے فضائل اور نیکی کا اعتقاد صرف اس بنا پر رکھتے ہیں کہ ان کی نسبت اور وابستگی حضرت ابوبکرؓ سے ہے تو ان کی جگہ محمد بن ابی بکرؓ کو جنت میں کیوں نہ دکھاتے اور ان کی تعریف کیوں نہ کرتے اس لیے کہ بیٹا بہرحال غلام ہے زیادہ قریب ہوتا ہے وہ یہ کیوں نہیں سمجھتے کہ اہل سنت کے نزدیک حضرت بلالؓ کو یہ مرتبہ حضور ﷺ کی خدمت ،ایمانی قوت صدق اخلاص اور طاعات پر مداومت کی برکت سے نصیب ہوا اس لیے یہ روایت تحیتہ الوضو کی طرف رغبت و شوق دلانے کے سلسلہ میں لائی گئی ہے نہ کہ حضرت ابوبکرؓ کے فضائل میں۔