دھوکہ نمبر 101
شاہ عبد العزیز محدث دہلویؒدھوکہ نمبر 101
اعتراض یہ ہے کہ اہل سنت کی کتابوں میں ذکر ہے کہ آنحضرات ﷺ نے فرمایا:
ان الله تعالى نظر عشية يوم عرفة الى عباده فباها بالناس عامة و بعمر خاصة
اللہ تعالی نے یوم عرفہ کی شام اپنے بندوں پر نظر ڈالی تو سب پر عموماً اور عمر پر خصوصاً فخر کیا۔
یہ روایت حضرت عمر کی فضیلت پیغمبر علیہ السلام پر اور جناب پیغمبر علیہ السلام کی تحقیر ثابت کرتی ہے کہ اس میں آنحضرت ﷺ کو عام لوگوں میں شمار کیا ہے اور حضرت عمرؓ کو خاص ہیں۔
اس اعتراض میں ظلم و نا انصافی تعصب و دشمنی حد سے بڑھ گئی اور کلام کو بالکل غیر محل پر استعمال کیا ہے ۔اول تو اس میں حضور ﷺ کو عام لوگوں میں شمار کرنے کی کوئی دلیل اور ثبوت نہیں کیونکہ ناس سے مراد وہ تمام حجاج ہیں جو میدان عرفات میں حاضر تھے اصولی کا قاعدہ ہی یہ ہے کہ متکلم عموم کلام سے خارج ہوتا ہے۔ (یہاں متکلم خود حضور ﷺ ہیں تو ان کا عام میں شمار نہیں) دوسرے معترض نے عموم و خصوص کے وہ معنی سمجھے جو آج کل لوگوں میں مشہور و معروف ہیں، کہ کہتے ہیں کہ فلاں شخص عام لوگوں میں سے ہے اور فلاں خواص میں سے ۔یہ معنی عربیت کے بالکل مناسب نہیں اور جس نے ایسا سمجھا اس کے کلام عرب سے اپنے کو ناآشنا ثابت کیا۔ اس کے معنی تو یہ ہیں کہ الله تعالی نے اس روز فرشتوں پر حاجیوں کی فضیلت بالعموم اور حضرت عمر کی بالخصوص بیان فرمائی بس اس حدیث میں حجۃ الوداع کے سارے ہی حاجیوں کی فضیلت فرشتوں پر مقصود ہے۔
ہاں حضرت رضی اللہ عنہ کو ان کے شرف کے اظہار کے لیے فخر سے مخصوص فرمایا کیونکہ ملاء اعلیٰ میں آپ کی فضیلت شہرت پا چکی تھی اور سب فرشتے آپ کی بزرگی کے معتقد ہو چکے تھے اور اس وقت بھی ان کو حضرت عمر کے حال سے باخبر یہ بتانے کے لیے کیا کہ میرے محبوب ﷺ کہ دوستوں میں سے ایک یہ بھی ہیں جو اس بلند مرتبہ سے شرفیاب ہوئے۔ یہ فخر تو درحقیقت حضور ﷺ کی عظمت و بزرگی پر ہے کہ آپ کے دوست اور ساتھی ایسے مرتبوں اور عزت کے مالک ہیں۔