دھوکہ نمبر 102
شاہ عبد العزیز محدث دہلویؒدھوکہ نمبر 102
اہل سنت پر ان کا ایک اعتراض یہ ہے کہ انہوں نے اپنی روایت میں ایک رکیک اور نازیبا بات کی نسبت نبی کریم ﷺ کی طرف کی ہے ان کا اشارہ حضرت حذیفہؓ کی اس حدیث کی طرف ہے :
انه صلى الله عليه وسلم اتٰى سباطة قوم خبال قاهما
"حضورﷺ کا گزر ایک کوڑی پر ہوا وہاں آپ نے کھڑے ہو کر پیشاب فرمایا"۔
اہل سنت کی طرف سے اس اعتراض کا جواب یہ ہے کہ اہل سنت کے ہاں تو حضرت عائشہؓ کی صحیح سند کے ساتھ یہ روایت بھی درج ہے کہ:
من حدتكم ان النبي صلى الله عليه وسلم كان يبول قائما فلا تصدقوه ما كان يبول الا قاعداً
"جو تم سے یہ بات کہے کہ حضور ﷺ کھڑے ہو کر پیشاب فرمایا کرتے تھے تو اس کو باور نہ کرو کیوں کہ آپ بیٹھ کر ہی پیشاب فرماتے تھے"۔
اس روایت سے معلوم ہوا کہ آپ کی عادت شریفہ یہی تھی اگر ایسا نہ ہوتا تو ازواج مطہرات اور اہل بیت اس سے ضرور واقف ہوتیں کہ اکثر اس کی نوبت اندرون خانہ بھی پیش آتی تھی۔ لہذا جب دوسرے صحابہ کی روایات کی طرف رجوع کیا گیا تو اس سلسلہ میں حضرت ابو ہریرہؓ کی مفصل روایت ملی جس میں اس کی پوری تشریح موجود ہے اور اس سے ہر قسم کا شک و شبہ دور ہو جاتا ہے چنانچہ حضرت امام حاکم بہیقیؒ نے حضرت ابو ہریرہؓ سے بایں الفاظ روایت نقل کی ہے کہ:
انما بال قائما لجرح كان في مابضه
آپ نے رگ مالبن میں زخم کی وجہ سے کھڑے ہو کر پیشاپ فرمایا۔ مابض زانو تلے کی ایک رگ کا نام ہے۔
اسے معلوم ہو گیا کہ کھڑے ہو کر پیشاب کی وجہ کیا تھی اور تندرستی اور بیماری کی حالت کے فرق کو جو زمین و آسمان کا فرق ہے، کون بےوقوف نہیں جانتا یا نہیں مانتا۔
جو بات صحت وتندرستی کی حالت میں نازیبا اور خلاف مروت سمجھی جاتی ہے وہ بیماری کی حالت میں بری نہیں ہوتی اور نہ کوئی خلاف مروت کہتا ہے۔ قرآن مجید میں ارشاد ہے:
ليس على المريض حرج
"مریض پر کوئی پابندی یا بندش نہیں"۔
اس فرقے کے اندھے تعصب پر حیرت و تعجب ہوتا ہے کہ اہل سنت کی روایات کی صحیح توجیہہ ہوتے ہوئے جن کو خود اہل سنت نے بڑی وضاحت اور صراحت کے ساتھ بیان کیا ہے اعتراض کرتے ہیں حالانکہ کا سید مرتضیٰ اور دوسرے امامی علماء نے خود یہ اصول اور قاعدہ مقرر کیا ہے:
ان الخبر متى وجد له محل صحيح فلا يرد
جب حدیث کا صحیح معنوں پر عمل ہو کے تو اسے رد نہیں کرتے مان لیتے ہیں ۔اور خود امام صادق رحم الله علیہ اور دوسرے ائمہ سے خدمة جوارينا لنا و فرد جهن لكم جیسی روایات نقل کرنے پر ان شیعوں کو شرم نہیں آتی اور اس کو کسی ایسے صحیح معنے پر عمل کیوں نہیں کرتے جو غیرت و مروت کے خلاف نہ ہو۔ بلکہ یہ تو دانستہ ڈھٹائی اور بے شرمی کے ساتھ انبیاء کرام اور ائمہ پر جھوٹ کا الزام اس لیے لگاتے ہیں کہ ان بزرگوں اور قابل تقلید ہستیوں کے اقوال و افعال پر سے لوگوں کا اعتماد اٹھ جائے۔