Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام
زبان تبدیل کریں:

دھوکہ نمبر 103

  شاہ عبد العزیز محدث دہلویؒ

دھوکہ نمبر 103

ایک الزام یہ لگاتے ہیں کہ اہل سنت کنے کی کھال پر نماز پڑھنے کو جائز کہتے ہیں۔

اس کا جواب یہ ہے کہ بے شک احناف کے ہاں کنے کی ایسی رنگین ہوئی کھال پر جس کی رطوبت مصالحوں اور کیمیکلز کے استعمال سے جاتی رہی ہو، نماز پڑھنا جائز ہے اور یہ جواز اس حدیث کی روشنی میں ہے جو فریقین کے نزدیک صحیح ہے، كہ دباغ الجلد طهوره

کھال کا رنگنا ہی اس کی پاکی ہے۔ نیز یوں بھی ارشاد فرمایا گیا ہے۔۔۔

جو کھال رنگ کی جائے پس وہ پاک ہو جاتی ہے،

پھر یہ بات عقلی طور پر بھی سمجھ میں آتی ہے کہ مثلاً حرام جانور، شیر، بھیڑیا ، بلی وغیرہ پر ان کی زندگی میں اگر کوئی ان پر ہاتھ پھیر لے تو وہ ہاتھ ناپاک نہیں ہوتا بشرطیکہ پسینہ وغیرہ کی تری نہ ہو اس لئے کہ حضور ﷺ اور ائمہ کرام سے اس قسم کے جانوروں پر ہاتھ پھیرنا ثابت ہے اور گدھوں، خچروں پر سواری تواتر مروی ہے ،

ان جانوروں کے مرنے کے بعد ان کی کھالوں کی حرمت کا حکم صرف اس لیے لگایا جانا ہے کہ اس وقت رطوبت خون چربی اور گوشت کے ساتھ مل کر یکجان ہو جاتی ہے۔ جب وہ رطوبت مصالحوں اور کیمیکلز کے ذریعہ کھال سے نکال کر اسے صاف و خشک کر لیا جائے تو کھال پھر اپنی اصل پاکی کی حالت پر لوٹ آتی ہے اور اس کا حکم بدل جاتا ہے ،اور یہ بالکل ایسا ہی ہے کہ کوئی نجاست کپڑے پر لگ جائے اور دھو کر صاف کر لیا جائے تو کپڑا پاک ہو جاتا ہے، البتہ خنزیر کی کھال اس اصول کل سے خارج ہے کہ کیونکہ قران مجید میں اس کو مجسمہ ناپاکی فرمایا گیا ہے انه رجس

وہ بالکل نجس ہے۔

اسی لیے اس کی کھال ، بال اور ہڈی تک سب ناپاک ہیں اور اس سلسلہ میں کہ کتا بھی خنزیر کی مانند ہے، کوئی شرعی وہیں موجود نہیں بلکہ قرآن مجید میں کتے کے شکار کو حلال فرمایا گیا ہے ۔

اور ایسے شکار کو سنی اور شیعہ دونوں کھاتے ہیں، حالانکہ شکار کے وقت اس کا لعاب دہن شکار کو لگ جانا ہے ایسی صورت میں کھال اور دوسرے اعضاء بال و ہڈی نیز کیوں ناپاک ہوں گے اگر کتا بھی خنزیر جیسا ہوتا تو اس کاشکار حلال کیوں ہوتا،

اس کلام سے واضح ہو گیا کہ اس مسئلہ میں اہل سنت پر اعتراض نہ قران کی رو سے درست ہے نہ حدیث کی رو سے اور ان معترضین امامیہ کی اپنی حالت یہ ہے کہ ان کے نزدیک جہاں انسان کا بول و براز پھیلا ہوا ہو اس جگہ نماز پڑھنا جائز ہے ۔حالانکہ انسانی براز بالا جماع نجس العین ہے جو کسی طرح بھی پاک نہیں ہو سکتا، چنانچہ شیخ علی نے کتاب ارشاد میں ابو القاسم نے کتاب شرائع میں اور ابو جعفر طوسی نے اس مسئلہ کو بالتصریح بیان کیا ہے غرض جملہ امامیہ کا اس مسئلہ میں اتفاق ہے۔ اب آپ انسانی گندگی اور کتے کی کھال میں خود ہی موازنہ کر کے معترضین کی دماغی ساخت کے متعلق غور فرما لیجئے۔