Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام
زبان تبدیل کریں:

دھوکہ نمبر 104

  شاہ عبد العزیز محدث دہلویؒ

دھوکہ نمبر 104

اعتراض یہ ہے کہ اہل سنت شطرنج کے کھیل کو جائز کہتے ہیں حالانکہ ازروئے شرع ہمہ قسم لہو ولعب برے ہیں۔ ان کی برائی قرآنی نصوص سے ثابت ہے، اس اعتراض کے جواب میں ہم کہتے ہیں کہ احناف مالکیہ اور حنابلہ شطرنج کی حرمت کے قائل ہیں اور اس کی حرمت میں احادیث بیان کرتے ہیں۔ البتہ شوافع کے نزدیک اس میں دو قول ہیں، اول یہ کہ مندرجہ ذیل پانچ شرائط کی رعایت کے ساتھ یہ مکروہ ہے حرام نہیں۔

1_ اس کی وجہ سے نماز وقت سے مؤخر نہ ہو، نہ اس کی وجہ سے نماز کی ادائیگی میں عجلت کرنے اور نہ آداب سنن نماز کو ترک کرے۔

2_ شرط لگا کر نہ کھیلے نہ اس میں جوئے کی کوئی اور شکل ہو۔

3_ اس کی وجہ سے کسی دوسرے واجب میں فرق نہ آنے پائے، مثلاً والدین کی ضروری خدمت ،اہل و عیال کی دیکھ بھال، عزیز و اقارب سے میل جول ، مریضوں کی عیادت اور جنازہ میں شمولیت۔

4_ کھیل کے دوران کھیل سے متعلق لڑائی جھگڑا ،جھوٹ قسم وغیرہ قسم کی باتیں پیش نہ آئیں۔

5_ اس کے مہروں پر حیوانات یا انسان کی تصاویر نہ ہوں۔

اگر پانچوں شرطوں میں سے ایک کی بھی خلاف ورزی ہوگی تو یہ کھیل حرام ہو جائے گا۔ اور ان کی پابندی نہ کرنے والا گناہ کبیرہ کا مستحق ہوگا۔ احیاء و غالباً احیاءالعلوم میں بھی اسی طرح ذکر ہے،

اور امام شافعی رحمہ الله علیہ کا دوسرا قول دیگر ائمہ ثلاثہ رحمہم الله کے موافق ہے، یعنی وہ بھی بغیر شرط مطلق حرام فرماتے ہیں، اور یہ ثابت شدہ ہے کہ امام شافعی رحمت الله علیہ نے پہلے قول سے رجوع فرما لیا ہے۔ امام غزالی رحمتہ الله علیہ نے بالتصریح اس کو رقم کیا ہے،

اور بالفرض اس کو جائز ہی مان لیں تو گھوڑ دوڑ، تیر اندازی، نیزہ بازی وغیرہ کی طرح یہ بھی ایک مباح کھیل ہوگا کیونکہ اس کھیل میں یہ فائدے ہوتے ہیں،

ذہن کو تیز کرتا ہے۔ جنگ بازی کے ہنر سکھاتا ہے، اور بتاتا ہے کہ دشمن کی چالوں سے کس طرح بچا جائے وغیرہ وغیرہ۔ برا کھیل وہ ہوتا ہے جس میں کوئی دینی فائدہ نہ ہو، وہی لہو و لعب بھی کہلاتا ہے اور ایسے کھیل کو اہل سنت جائز نہیں بتاتے۔ برخلاف امامیہ کے وہ عین حالت نماز میں جو خالق سماوات والارض کے ساتھ مناجات کا وقت ہے، اور ایک معنی کہ وہ اپنے رب کے ساتھ معراج کی حالت پر ہوتا ہے اعضائے مردانہ سے تلعب کو جائز کہتے ہیں ۔ چنانچہ ابو جعفر طوسی اور دوسروں نے تہذیب نامی کتاب اور دوسروں نے تہذیب نامی کتاب اور دوسری کتابوں میں اسے لکھا ہے، اپنے موقع پر ان شاء الله ہم بیان کریں گے۔