دھوکہ نمبر 105
شاہ عبد العزیز محدث دہلویؒدھوکہ نمبر 105
اہل سنت کے متعلق کہتے ہیں کہ یہ گانے بجانے کو جائز کہتے ہیں،ض حالانکہ اس کی مذمت بے شمار احادیث و آثار میں بیان کی ہے۔
یہ اعتراض افتراء محض اور سراسر بہتان ہے، اس لیے کہ آلات موسیقی کے ساتھ گانا بجانا چاروں ائمہ رحمہم الله کے ماننے والے فقہا کے نزدیک بالاتفاق حرام ہے بڑے اور اونچے درجہ کے مشائخ اور بلند مرتبت صوفیائے کرام رحمہم الله نے ایسے حرام گانے نہ سنے اور نہ ان کو اس کی رغبت ہوئی۔
بلکہ سید الاولیاء الطائفہ حضرت جنید بغدادی رحمت الله علیہ فرماتے ہیں:
انه بطالة
یہ بیہودہ اور لغو چیز ہے ۔
اور شیخ برذوق فارسی رحمۃ الله عليه فرماتے ہیں:
السماع حرام كاليتتة
سماع مردار جانور کی طرح حرام ہے۔
سماع نام کی جو چیز بزرگان دین کی طرف منسوب ہے اور جس کا سماع ثابت بھی ہے اس کی کیفیت یہ ہوتی تھی، قوال مرد خوش آواز ہوتے ، نہ مرد یا عورت اجنبی جن کو دیکھ کر سفلی جذبات بھڑکیں، اور کوئی فتنہ برپا ہو، ہرگز ہرگز ان کی محفل میں بار نہ پا سکتے تھے اور آلات موسیقی میں سے کسی چیز کے ہونے کا تو ان کے ہاں سوال ہی نہیں تھا۔
پھر جو اشعار وہ سنتے تھے اکثر جنت و دوزخ کے ذکر یا طاعات کی طرف رغبت اور معاصی سے نفرت کے مضامین پر مشتمل ہوتے تھے یا پھر ان میں وصل ہجر کا بیان ہوتا تھا، جو محبت الٰہی میں مستغرق حضرات کے حسب حال ہوتا تھا۔ خلاف شرع کوئی مضمون نہ ہوتا ان کی اس پاکبازانہ مجلس میں مرد یا عورت کی شرکت تو کجا وہ کچے ذہن کے مریدوں کو بھی شریک نہ کرتے تھے۔ نہ ان کی مجلسیں آج کل کی طرح سرعام سجائی جاتی تھیں ، تخلیہ میں ان پابندیوں کے ساتھ ان بزرگان کرام کا سماع ہوتا تھا، ایسے سماع کو حرام کہنا ہی خلاف شرع ہے بلکہ خود ان شیعوں کے مذہب کے بھی خلاف ہے۔ چنانچہ ان شیخ مقتول نے کتاب الدروس میں ذکر کیا ہے:
يجوذ الغناء بشروطه في العوس
شادی کے موقع پر گانا شروط کا لحاظ رکھتے ہوئے جائز ہے۔
اور تعجب کی بات تو یہ ہے کہ ان کے ہاں گانے کے جواز کے لیے جو شرائط مقرر ہیں، فساد کی جڑ اور فاسقانہ ہے. ان يكون السمع امرأة ولا يكون رجلا ولا يكون الشعر في الهجاء
وہ گانے والی عورت ہو ،مرد نہ ہو اور نہ شعر کسی ہجو میں ہو۔
شرح القواعد میں بھی اسی طرح کا مضمون موجود ہے، اب آپ خود اندازہ لگا لیں، کہ کس صورت میں گانا سننا قبیح ہوگا۔ صوفیاء کی شرائط کے مطابق ہے یا ان طاعنوں اور معترضوں کی شرائط پر۔