دھوکہ نمبر 106
شاہ عبد العزیز محدث دہلویؒدھوکہ نمبر 106
ان کے اسلاف سادہ دل بندوں اور کم عقل لوگوں کو دھوکہ اور فریب دینے کے لیے یہ حربہ استعمال کرتے ہیں کہ ائمہ اور بزرگان دین کی خدمت میں کثرت سے آمدروفت رکھتے، ان کی مجلسوں میں شرکت کرتے اور موقع بموقعہ ان کے مکانوں میں آتے جاتے ہیں تاکہ لوگ اس دھوکہ میں پڑ جائیں کہ یہ ان کے بہت چہیتے شاگرد یا بہت گہرے دوست ہیں ، اور اپنے دینی مسائل کا حل انہیں سے حاصل کرتے ہیں ،اور ان کی روایات پر اعتماد کرتے ہیں۔ جب لوگ اس قسم کی غلط فہمی کا شکار ہو جاتے ہیں تو ان کا اصل رنگ کھلتا ہے اس وقت یہ اپنی گھڑی ہوئی لغو اور گمراہ کن باتیں ان روایات میں داخل کر کے ان کو پھیلاتے اور خوب شہرت دیتے ہیں، اور یوں وہ خوش فہم لوگ ان کے دام مکر میں آکر اپنا دین و ایمان برباد کر بیٹھتے ہیں۔ اس قسم کے مکار اور غداروں کے سر گروہ ہشام بن الحکم، ہشام بن سالم، احول طاق ہیشمی، زید بن جہیم بلالی، زرارہ بن اعین ،حکم بن عتبہ اور عروہ خیمی ہیں۔ جو حضرت سجاد حضرت باقر اور حضرت صادق رحمت الله علیہم کے زمانے میں گزرے ہیں۔ یہ ان ہی امامان عالی مقام سے روایت کرنے کے مدعی ہیں، پھر ان کے بعد صدی بعد صدی بہت سے گروہ اس قماش کہ پیدا ہوتے ہیں، اور مخلوق خدا کا دین و ایمان بے باکی سے غارت کرتے رہے،
حتی کہ امام محمد بن حسن المہدی کا زمانہ آیا آپ پیدا ہوئے بچپن اور کم سنی ہی میں وصال بھی فرما گئے۔ ان کے بعد جھوٹ اور مکر کا دائرہ وسیع سے وسیع تر ہوتا گیا اصول و فروغ میں جھوٹے اقوال داخل کیے گئے۔ صحابہ، خلفاء، امہات المومنین سے متعلق رکیک،نازیبا اور سراسر جھوٹے الزامات تراشے گئے۔ شیعوں کی تعریف اور اہل سنت کی مذمت میں روایات کے انبار لگائے گئے حالانکہ ائمہ کرام نے بروقت ان کے عقیدوں کی تکذیب کی، ان کی خرافات اور جعلسازیوں سے اپنی براءت اور بیزاری کا اظہار فرمایا۔ ان کے عقیدوں کی تکذیب کی ان کی روایات کو بے اصل اور من گھڑت قرار دیا۔
اور یہ ڈھیٹ پنے سے یہی کہتے رہے کہ یہ سب ائمہ کا تقیہ اور زمانہ سازی ہے اور ظاہر داری پر مبنی ہے ، ورنہ ہم تو ان کے بڑے چہیتے ہیں ہمیں ان تو ان کی جناب میں وہ قرب و خصوصیت حاصل ہے جو دوسروں کے حاشیہ خیال میں بھی نہیں آ سکتی۔
اور اسی ذریعہ سے عام لوگوں کو خصوصاً مدینہ منورہ سے دور دراز ملک اور شہروں کے رہنے والوں مثلاً عراق، فارس قم کا شان سے خمس اور طرح طرح کے نذر و نیاز وصول کرتے رہے اس کام کے لیے جعلی مہر شدہ رقعہ جات حضرات آئمہ کی طرف سے پیش کرتے ہیں۔ غرض اسی طرح دین کو ثمن قلیل کے عوض بیچنے کا دھندا کرتے تھے اور یہ دھندا اتنا بڑھا کہ اس نے ایک مذہب کی شکل اختیار کر لی۔
اور تعجب اس پر ہے کہ کلینی اور دوسرے امامی علماء نے اپنی صحاح میں ائمہ سے ان ہی روایات کی مذمت بھی نقل کی ہے اور پھر ان ہی روایات کو اپنا قبلہ و کعبہ بھی بنایا ہے،
چنانچہ حضرت زید شہید رحمہ الله علیہ نے برملا اس گروہ کے عقائد سے انکار کیا ان کو ڈانٹا ڈپٹا یہاں تک کہ ایک روز ہشام احول سے کہا:
الا تستحي فيما تقول من ابى وهو بريء منه حتى قال الأحوال له يوما انك لست بامام انما الامام بعد ابيك اخوك محمد فقال يا احول الا تستحي فيما تقول ان إبى يعلمك مساهل الدين ولا يعلمنى وأنه كان يحبني حبا شديدا كان يبرو اللقم فيجعلها فى فىَ فكيف لا يكفي عما يدخلني النار هذا لا يكون ابد رواه الكلينى وغيره من الأمامية
تجھے میرے باپ پر جھوٹا الزام لگاتے شرم نہیں آئی حالانکہ وہ اس الزام سے پاک ہیں۔ تو ایک روز احول نے ان سے کہا اپنے باپ کے بعد آپ امام ہی کہاں ہیں، امام تو آپ کے بھائی محمد ہیں آپ نے فرمایا تجھے یہ کہتے ہوئے بھی حیا نہیں آتی کہ میرے والد تجھے تو دین کے مسائل سکھاتے تھے مگر مجھے نہیں حالانکہ ان کو مجھ سے بہت محبت تھی وہ لقمہ کو تو ٹھنڈا کر کے میرے منہ میں دیتے تھے تو یہ کیسے ہو سکتا ہے وہ مجھے ایسی بات سے آگاہ نہ فرماتے جو مجھے آگ میں لے جانے کا باعث ہو ایسا ہرگز کبھی نہیں ہو سکتا اس کی روایت کلینی اور دوسرے امامیوں نے کی ہے۔
پھر امامیہ مذہب کے داعیوں میں سے ایک اور شخص اسحاق بن ابراہیم نامی، جس کا لقب دیک الجن تھا اور وہ شاعر بھی تھا۔ خلیفہ ہارون رشید کے زمانہ میں گزرا ہے وہ خود کو حضرت موسی کاظم رحمت الله علیہ سے منسوب کرتا تھا مگر درحقیقت پرلے درجے کا پلید اور زندیقی تھا۔ صانع اور نبوت کا منکر تھا آخرت کو بھی نہیں مانتا تھا، اس کے عیوب کا شمارہ تاریخ کی کتابوں میں بکھرا پڑا ہے۔ اور اس معاملہ میں وہ کافی شہرت یافتہ ملزم ہے۔
اس کے باوجود امامیہ کے شیخ الطائفہ محمد بن نعمان نے جو شیخ مفید کے لقب سے مشہور ہے۔ جو محمد بن بابو قمی کا شاگرد اور سید مرتضیٰ اور ابو جعفر طوسی کا استاد ہے۔ اپنی کتاب المثالب والمناقب میں اس زندیق پلید کو اپنے فقہاء اور پیشواؤں میں شمار کیا ہے، قیاس کن زگلستان من بہار مرا۔
ان لوگوں میں سے بعض نے جعلی نسخے جھوٹی اور کتابیں مرتب کر لی ہیں اور ان کی نسبت حضرت باقر ، حضرت صادق اور دوسرے ائمہ کی طرف کر دی ہے، اور اسی کے ساتھ یہ شوشہ بھی چھوڑا ہے کہ ان ائمہ نے اپنی زندگی میں بطور تقیہ ان کو چھپائے رکھا اور ہم کو وصیت کی کہ وقت آنے پر ان روایات کو یاد کر کے ان کو پھیلائیں اور شائع کریں،
جب یہ کتابیں شیعوں کے ہاتھ لگیں تو انہوں نے چوم چاٹ کر سر پر رکھا اور بے دھڑک آزادی سے نقلی روایات کا کاروبار جاری ہو گیا اور جعلی ٹکسال کے سکوں کی خوب قدر و منزلت ہوئی، جیسا کہ کلینی نے ابو خالد شنبولہ سے روایت کی ہے ۔
اسی طرح ان میں سے ایک جماعت نے ایک کتاب ائمہ کے کسی رشتہ دار کی طرف منسوب کر دی جیسے کتاب "قرب الاسناد امامیہ"
پھر ان کے اسلاف میں بعض نصرانی بھی ہوئے ہیں کہ اہل بیت کی محبت کے مدعی بن کر خود کو شیعوں میں داخل کیا اور کہہ دیا کہ ہم فلاں امام کے ساتھی ہیں، حالانکہ اپنی قوم و قبیلہ میں اپنا اسلام تک ظاہر نہیں کیا نماز ،روزہ، عبادات ،غور و طریق اور رسوم میں ان کے ساتھ رہے. اور ان ہی میں گھلے ملے رہے ساری عمر کھانا، پینا اور دوسرے معاملات نصرانیوں کی طرح کرتے رہے اور ادھر شیعہ ان کو اپنے میں شمار کر کے دین و ایمان و عقائد سے متعلق ان کی روایات بے دھڑک قبول کرتے رہے، چنانچہ زکریا بن ابراہیم نصرانی اس قماش کا شخص ہے جس سے ابو جعفر طوسی نے بھی تہذیب (کتاب) میں روایت کی ہے اور اسی طرح دوسرے بھی کرتے رہے۔