Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کے فضائل و مناقب اور بعض مشارکات

  حامد محمد خلیفہ عمان

یوں تو سیّدنا حسین بن علی رضی اللہ عنہما کے بے شمار اور متنوع فضائل و مناقب ہیں لیکن آپ کے فخر کے لیے ایک یہی بات کافی ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ اپنے نانا حضرت رسالت مآبﷺ کے محبوب تھے اور آپ نے اپنے بچپن کا زمانہ جناب رسول اللہﷺ کے سایۂ تربیت و عاطفت میں گزارا اور آپ کو آنحضرتﷺ کی بے پناہ توجہ، رعایت اور عنایت نصیب ہوئی۔ ذیل میں سیّدنا حسین بن علی رضی اللہ عنہما کے مناقب سے متعلقہ چند احادیث درج کی جاتی ہیں:

نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا:

’’حسن اور حسین جنت کے نوجوانوں کے سردار ہیں، سوائے دو خالہ زاد بھائیوں عیسیٰ بن مریم علیہما السلام اور یحییٰ بن زکریا علیہما السلام کے۔‘‘ (سنن النسائی: 8169)

اس حدیث میں متعدد اشارات و بشارات ہیں، جو سیّدنا حسین بن علی رضی اللہ عنہما کے فضائل کو مؤکد کرتے ہیں ۔ نبی کریمﷺ کو حضرت حسین بن علی رضی اللہ عنہما سے کس قدر محبت تھی اس کو بیان کرتے ہوئے حضرت یعلی عامری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

’’لوگوں نے جناب رسول اللہﷺ کو ایک دعوتِ طعام میں شرکت کی دعوت دی۔ میں آپ کے ساتھ اس دعوت میں شریک ہونے نکلا۔ نبی کریمﷺ لوگوں کے آگے آگے تھے جبکہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ بچوں کے ساتھ رہے تھے۔ نبی کریمﷺ نے (فرطِ محبت میں ) انہیں پکڑنا چاہا تو وہ ادھر ادھر بھاگنے لگے، نبی کریمﷺ ان کے ساتھ ہنسی کھیل کرنے لگے یہاں تک کہ آپﷺ نے انہیں پکڑ لیا اور اپنا ایک ہاتھ ان کی گدی کے اور دوسرا ہاتھ ان کی ٹھوڑی کے نیچے رکھا اور ان کے منہ کو اپنے منہ پر رکھ کر انہیں بوسہ دیا اور فرمایا: ’’حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے ہوں۔ اللہ اس سے محبت کرے جو حسین سے محبت کرتا ہے، حسین (میرے) نواسوں میں سے ایک نواسہ ہے۔‘‘ (المستدرک للحاکم: 4820 یہ حدیث صحیح ہے۔ ذہبی نے ’’التلخیص‘‘ میں اسے صحیح کہا ہے۔ رہی یہ حدیث کہ ’’جس نے ان دونوں سے بغض کیا، اس نے مجھ سے بغض کیا اور جس نے مجھ سے بغض کیا، وہ اللہ کو مبغوض ہے اور جس سے اللہ نے بغض رکھا اللہ اسے دوزخ میں ڈالے گا۔‘‘ (المستدرک: 4776) حاکم کہتے ہیں: یہ حدیث شیخین کی شرط پر ہے۔ ذہبیؒ اس حدیث کے بارے میں ’’التلخیص‘‘ میں کہتے ہیں: یہ حدیث منکر ہے)

ایک روایت میں ہے کہ نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا:

’’حسن مجھ سے ہے اور حسین علی سے ہے۔‘‘ (المعجم الکبیر: 635 مسند الشامیین: 1126 سیر اعلام النبلاء: جلد، 4 صفحہ 335 ذہبیؒ کہتے ہیں: اس کی اسناد قوی ہے)

حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اپنے بعض اصحاب کو بیان کرتے ہوئے فرمایا:

’’میں اور حسین کہ ہم تم لوگوں سے ہیں اور تم لوگ ہم میں سے ہو۔‘‘ (تاریخ الاسلام للذہبی: جلد، 2 صفحہ 83)

حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

’’ایک مرتبہ نبی کریمﷺ نماز ادا فرما رہے تھے۔ پس جب آپﷺ سجدے میں گئے، تو سیدنا حسن اور حسین رضی اللہ عنہما آپﷺ کی پیٹھ پر چڑھ گئے۔ جب گھر والوں نے انہیں ایسا کرنے سے منع کرنا چاہا، تو آپﷺ نے انہیں اشارہ سے فرما دیا کہ ’’انہیں رہنے دو۔‘‘ نماز سے فارغ ہونے کے بعد آپﷺ نے ان دونوں کو اپنی گود میں بٹھایا پھر ارشاد فرمایا: ’’جسے مجھ سے محبت ہے تو اسے چاہیے کہ وہ ان دونوں سے محبت کرے۔‘‘

(سنن النسائی: 8170)

یہ نص اس بات کی تاکید بیان کرتی ہے کہ حضرات حسنین کریمین رضی اللہ عنہما سے محبت جناب رسول اللہﷺ کے ارشاد کی تعمیل ہے، جو کبھی اپنے منہ سے خواہش نفس سے بات نہیں نکالتے اور جناب رسول اللہﷺ کا ان سے محبت فرمانا، اس بات کو فرض کر دیتا ہے کہ ان دونوں حضرات سے بھی محبت کرے اور نبی کریمﷺ کے ان آلِ بیت ذریت اور ازواج سے بھی محبت کرے، جن سے نبی کریمﷺ کو محبت تھی۔ لہٰذا جو ان لوگوں میں سے کسی ایک سے بھی بغض رکھے گا جن سے نبی کریمﷺ کو محبت تھی، وہ اپنے دعوائے محبت میں جھوٹا ہے۔

بھلا ایسا شخص اپنے دعوائے محبت میں سچا ہو بھی کیسے سکتا ہے، جو اس ذات گرامی سے بغض رکھے جس سے نبی کریمﷺ کو سب لوگوں سے زیادہ محبت تھی، اور وہ ام المومنین زوجہ رسول سیّدہ عائشہ صدیقہ بنت صدیق اکبر رضی اللہ عنہما ہیں۔

جو نبی کریمﷺ کے پھول سیّدنا حسین بن علی رضی اللہ عنہما کے پاک خون سے اپنے ناپاک ہاتھ رنگنے کی جرأتِ صد خسران کرے، وہ اہل بیت سے محبت کے دعوے میں صادق ہو سکتا ہے؟؟

یہی وہ دقیق پیمانہ ہے جو نبی کریمﷺ کے ساتھ شرعی محبت کو واضح کرتا ہے، جو آل بیت کی محبت اور ذریت و ازواج سے ولاء و عقیدت کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے، جس کا پرتو حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور کتاب و سنت سے محبت پر نظر آتا ہے، جس میں ان سب مسلمات میں کوئی تفریق نظر نہیں آتی۔

حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم جانتے تھے کہ حسنین کریمین رضی اللہ عنہما کا جناب رسول اللہﷺ کے نزدیک کیا رتبہ و مرتبہ تھا اور نبی کریمﷺ کو ان دونوں سے کس قدر تعلق اور قربت تھی۔ جس کی بنا پر حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بھی حضرات حسنین کریمین رضی اللہ عنہما کی بے حد تعظیم و تکریم کرتے تھے۔ اس تعلق کو حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی زبانی سنیے، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :

’’میں نے نبی کریمﷺ کو دیکھا جبکہ آپﷺ نے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو اٹھایا ہوا تھا اور آپﷺ یہ فرما رہے تھے: ’’اے اللہ! میں اس سے محبت کرتا ہوں، تو بھی اس سے محبت کر۔‘‘ (المستدرک للحاکم: 4821 یہ حدیث صحیح ہے۔ ایسی ہی روایت حضرت حسن رضی اللہ عنہ کے بارے میں بھی مروی ہے اور یہ دونوں روایات محفوظ ہیں۔ ذہبیؒ ’’التلخیص‘‘ میں کہتے ہیں: یہ روایت صحیح ہے)

حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

’’جس کو اس بات سے خوشی ہو کہ ایک جنتی آدمی دیکھے تو وہ حسین بن علی رضی اللہ عنہما کو دیکھ لے کہ میں نے نبی کریمﷺ کو انہیں جنتی کہتے سنا ہے۔‘‘ (صحیح ابن حبان: 6966)

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

’’میں نے جب بھی حضرت حسین بن علی رضی اللہ عنہما کو دیکھا، تو میری آنکھیں آنسوؤ ں سے بھر گئیں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک دن نبی کریمﷺ باہر تشریف لائے، آپ ﷺ نے مجھے مسجد میں پایا۔ آپﷺ نے میرا ہاتھ تھاما اور مجھ پر سہارا لیا۔ پس میں آپﷺ کے ساتھ چل پڑا، یہاں تک کہ بنو قینقاع کا بازار آ گیا۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: آپﷺ نے میرے ساتھ کوئی بات نہ کی۔ آپﷺ نے بازار کا ایک چکر لگایا، (بازار کو) دیکھا پھر لوٹ آئے اور میں بھی آپﷺ کے ساتھ لوٹ آیا۔ آپﷺ مسجد میں تشریف فرما ہوئے اور حبوہ باندھ کر بیٹھ گئے، پھر فرمایا: ’’ذرا منے کو میرے پاس بلانا۔‘‘ پس حضرت حسین رضی اللہ عنہ دوڑے ہوئے آئے اور آپﷺ کی گود میں گر گئے۔ پھر انہوں نے آپﷺ کی داڑھی میں ہاتھ ڈال کر کھیلنا شروع کر دیا۔ نبی کریمﷺ سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ کے منہ کو کھولتے اور اس میں اپنا منہ داخل کر کے فرماتے: ’’اے اللہ! مجھے اس سے محبت ہے، تو بھی اس سے محبت کر۔‘‘ (المستدرک: 4823 یہ حدیث صحیح ہے۔ ذہبیؒ نے ’’التلخیص‘‘ میں اس کو صحیح کہا ہے)

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ کے قدموں سے گرد جھاڑ دیا کرتے تھے۔ ( تاریخ الاسلام للذہبی: جلد، 2 صفحہ 83) ایسا وہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ سے محبت اور نبی کریمﷺ کی قرابت کی تعظیم کی بنا پر کرتے تھے۔

کسی عراقی نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے اس مُحرِم کے بارے میں سوال کیا، جس نے حالت احرام میں مکھی مار دی تھی، تو حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا:

’’یہ عراقی مکھی کے بارے میں پوچھتے ہیں، حالانکہ انہوں نے نبی کریمﷺ کے نواسہ کو مار ڈالا (اور پروا تک نہ کی) جبکہ نبی کریمﷺ م نے (ان کے بارے میں یہ) فرمایا تھا: ’’یہ دونوں (یعنی حضرات حسنین کریمین رضی اللہ عنہما ) میرے دنیا کے دو پھول ہیں۔‘‘ ( صحیح البخاری: ۳۵۴۳۔ اس حدیث کی شرح میں علماء نے یہ لکھا ہے کہ ریحانہ ایک خوشبو دار پودا ہوتا ہے جسے گل نازبو کہتے ہیں، حضرات حسنین رضی اللہ عنہما کو ریحانہ کہنے کی وجہ تشبیہ یہ ہے کہ جس طرح پھول کو بھی سونگھا اور اس سے مسرور ہوا جاتا ہے، اسی طرح اولاد کو بھی سونگھا اور اس سے مسرور ہوا جاتا ہے)

نبی کریمﷺ کو حضرات حسنین کریمین رضی اللہ عنہما سے جس قدر محبت تھی، اتنی کسی ماں باپ کو اپنی اولاد سے نہیں ہو سکتی۔ چنانچہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں:

’’نبی کریمﷺ حضرات کریمین رضی اللہ عنہما کے لیے تعوذ پڑھا کرتے تھے۔ آپﷺ فرماتے: ’’میں تم دونوں کو اللہ کے کامل کلمات کی پناہ میں دیتا ہوں، ہر شیطان اور مہلک چیز سے اور ہر نظر بد سے۔‘‘ (المستدرک: 4781 یہ روایت بخاری اور مسلم کی شرط پر ہے۔ ذہبیؒ ’’التلخیص‘‘ میں لکھتے ہیں: یہ حدیث بخاری اور مسلم کی شرط پر ہے)

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

’’نبی کریمﷺ باہر تشریف لائے، آپﷺ نے ایک کندھے پر سیدنا حسین رضی اللہ عنہ اور دوسرے کندھے پر سیدنا حسن رضی اللہ عنہ کو اٹھایا ہوا تھا۔ کبھی آپﷺ اِن کو بوسہ دیتے اور کبھی اُن کو، یہاں تک کہ ہمارے پاس آ پہنچے۔ ایک آدمی نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! کیا آپ کو ان سے محبت ہے؟ نبی کریمﷺ نے فرمایا: ’’ہاں ! (اور سنو) جس نے ان دونوں سے محبت کی اس نے مجھ سے محبت کی اور جس نے ان دونوں سے بغض رکھا تو اس نے مجھ سے بغض رکھا۔‘‘ (المستدرک: 4777 یہ حدیث صحیح ہے اور ذہبی نے بھی ’’التلخیص‘‘ میں اس حدیث کو صحیح کہا ہے)

حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم حسنین کریمین رضی اللہ عنہما سے اس لیے بے پناہ محبت کرتے تھے، کیونکہ نبی کریمﷺ کو ان دونوں سے محبت تھی۔ چنانچہ حضرات حسنین کریمین رضی اللہ عنہما کی محبت سنت اور ان دونوں کا بغض بدعت و ردّت قرار دیا گیا۔ لہٰذا جو حضرات حسنین کریمین رضی اللہ عنہما کے نانا حضرت رسالت مآبﷺ کی سنت کا مخالف ہے اور اسے انصار و مہاجرین سے بغض ہے اور اسے امت کے اسلاف و ائمہ سے کینہ ہے وہ کبھی حضرات حسنین کریمین رضی اللہ عنہما سے محبت کرنے والا نہیں کہلا سکتا۔

جب نبی کریمﷺ کا قرب ایک انسان میں علم و حلم اور جود و کرم جیسے اخلاق فاضلہ اور مکارم عالیہ پیدا کرتا ہے تو ضروری تھا کہ سیّدنا حسین بن علی رضی اللہ عنہما بھی ’’خلق عظیم‘‘ کے اس منبع و سرچشمہ سے زبردست سیراب ہوتے اور جناب رسولﷺ کی تربیت و عنایت آپ میں صبر و احتساب اور جرأت و شجاعت جیسی بلند صفات پیدا کرتی۔ پھر ایسا ہی ہوا۔ نبی کریمﷺ کی خصوصی پرورش نے سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ کی روح میں کتاب و سنت سے تمسک و اعتصام کو جاگزیں کر دیا، آپ کتاب و سنت پر عمل کرنے کے بے حد حریص تھے۔ سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ کی کتابِ زندگی کا ایک ایک ورق اس بات کی شہادت دیتا ہے اور یہ ایمان افروز داستان سناتا ہے کہ آپ نے کتاب و سنت کی سربلندی اور دوسرے اجتہادات و احکامات پر کتاب و سنت کی برتری کے لیے ناقابل فراموش قربانیاں دیں جن کو گردشِ لیل و نہار، مرورِ زمان اور صدیوں کی مسافت کبھی مٹا نہیں سکتی۔

سیّدنا حسین بن علی رضی اللہ عنہما کی ایک عظیم منقبت حدیث کساء کا قصہ ہے کہ نبی کریمﷺ نے جب اپنے اہل بیت کو ایک چادر میں لے کر ان کے لیے دعا کی تھی، تو ان میں سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ بھی شامل تھے۔ سیّدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا یہ واقعہ سناتے ہوئے بیان کرتی ہیں :

’’ایک صبح نبی کریمﷺ باہر تشریف لائے آپﷺ جسم مبارک پر سیاہ دھاگوں سے بنی کجاووں جیسے نقش کی چادر تھی۔ اتنے میں حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنہما آئے، تو آپﷺ نے انہیں اس چادر میں لے لیا۔ پھر سیدنا حسین رضی اللہ عنہ آئے تو آپﷺ نے انہیں حضرت حسن رضی اللہ عنہ کے ساتھ (چادر میں) داخل کر لیا۔ پھر سیدنا فاطمہ رضی اللہ عنہا آئیں، تو انہیں (بھی چادر میں) داخل کر لیا۔ پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ آئے، تو انہیں (بھی اس چادر میں) داخل کر لیا، پھر قرآن کریم کی یہ آیت تلاوت کی:

اِنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰہُ لِیُذْہِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ اَہْلَ الْبَیْتِ وَیُطَہِّرَکُمْ تَطْہِیْرًاo (سورت الاحزاب: آیت 33)

’’اللہ تو یہی چاہتا ہے کہ تم سے گندگی دور کر دے اے گھر والو! اور تمھیں پاک کر دے، خوب پاک کرنا۔‘‘ (صحیح مسلم: 2424 رجس کی تفسیر میں ایک قول یہ ہے کہ اس سے مراد شک ہے۔ ایک قول ’’عذاب‘‘ کا ہے۔ جبکہ ایک قول ’’اثم‘‘ یعنی گناہ کا ہے۔ ازہری کہتے ہیں : ’’رجس ہر ناپسندیدہ اور برے عمل کو کہتے ہیں۔‘‘)

بلاشبہ یہ ایک عظیم فضیلت و منقبت ہے، جو اسی ’’مبارک کنبہ‘‘ کے ساتھ خاص ہے۔ نبی کریمﷺ نے اس خاندان کے لیے جو دعائیں مانگیں جناب حضرت حسین بن علی رضی اللہ عنہما ان سب دعاؤ ں میں شریک ہیں۔ ان دعاؤ ں میں ظاہر و باطن کی طہارت، عقیدہ و عمل کی پاکیزگی، قرآن و سنت سے تمسک و اعتصام اور دین متین پر عمل سب شامل ہیں۔ یہ بات بھی معلوم ہے کہ یہ آیت ازواجِ مطہرات کے بارے میں نازل ہوئی تھی، کیونکہ اس آیت میں از اوّل تا آخر خطاب ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن کو ہے۔ چنانچہ ارشاد ہے:

یٰنِسَآئَ النَّبِیِّ لَسْتُنَّ کَاَحَدٍ مِّنَ النِّسَآئِ اِنِ اتَّقَیْتُنَّ فَلَا تَخْضَعْنَ بِالْقَوْلِ فَیَطْمَعَ الَّذِیْ فِیْ قَلْبِہٖ مَرَضٌ وَّ قُلْنَ قَوْلًا مَّعْرُوْفًاo وَ قَرْنَ فِیْ بُیُوْتِکُنَّ وَ لَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاہِلِیَّۃِ الْاُوْلٰی وَ اَقِمْنَ الصَّلٰوۃَ وَ اٰتِیْنَ الزَّکٰوۃَ وَ اَطِعْنَ اللّٰہَ وَ رَسُوْلَہٗ اِنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰہُ لِیُذْہِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ اَہْلَ الْبَیْتِ وَیُطَہِّرَکُمْ تَطْہِیْرًاo وَاذْکُرْنَ مَا یُتْلٰی فِیْ بُیُوْتِکُنَّ مِنْ اٰیٰتِ اللّٰہِ وَ الْحِکْمَۃِ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ لَطِیْفًا خَبِیْرًا (الاحزاب: 32-34)  

’’اے نبی کی بیویو! تم عورتوں میں سے کسی ایک جیسی نہیں ہو، اگر تقویٰ اختیار کرو، تو بات کرنے میں نرمی نہ کرو کہ جس کے دل میں بیماری ہے، طمع کر بیٹھے اور وہ بات کہو جو اچھی ہو اور اپنے گھروں میں ٹکی رہو اور پہلی جاہلیت کے زینت ظاہر کرنے کی طرح زینت ظاہر نہ کرو اور نماز قائم کرو اور زکوٰۃ دو اور اللہ اور اس کے رسول کا حکم مانو۔ اللہ تو یہی چاہتا ہے کہ تم سے گندگی دور کر دے، اے گھر والو! اور تمھیں پاک کر دے، خوب پاک کرنا اور تمھارے گھروں میں اللہ کی جن آیات اور دانائی کی باتوں کی تلاوت کی جاتی ہے انھیں یاد کرو۔ بے شک اللہ ہمیشہ سے نہایت باریک بین، پوری خبر رکھنے والا ہے۔‘‘

ان آیات میں ان دشمنانِ صحابہ کا قطعی ردّ ہے جن کے دل حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن کے فضائل و مناقب سے جل بھن جاتے ہیں۔ پھر اس حدیث میں سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کے کنبہ اور ازواجِ مطہرات رضی اللہ عنہن کے درمیان گہرے تعلق کا بھی شافی بیان ہے۔ بالخصوص سیّدہ صدیقہ طاہرہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ گہرے تعلق کا علم ہوتا ہے، جو خود سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کے کنبہ کی اس فضیلت و منقبت کی ایک راویہ اور اس کو بیان کرنے اور امت مسلمہ میں منتشر کرنے والی ہیں۔ یقینا یہ بات حضرت رسالت مآبﷺ کی سنت کو مضبوطی سے تھامنے والوں کے لیے تو باعث صد مسرت ہے، جبکہ حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور آل بیت سے بغض و نفرت رکھنے والوں کے لیے اس روایت میں خسران و حرمان اور غیظ و غضب کا بے پناہ سامان ہے۔

بخاری شریف کی یہ روایت ان اعدائے صحابہ کے گھناؤ نے اور تیرہ و تاریک باطن اور ان کی اباطیل کو رسوا کرنے کے لیے شاہد ناطق اور بس ہے جن کا کام حب آل بیت کی آڑ میں امت مسلمہ کی پیٹھ میں خنجر گھونپنا اور ان کی حزم و احتیاط اور تقویٰ و ورع کی روح کو بے موت مارنا ہے۔ چنانچہ امام بخاری رحمۃ اللہ خاص ام المومنین سیّدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی شان بیان کرتے ہوئے سورۂ آل عمران کی اس آیت کی تفسیر یوں بیان کرتے ہیں:

ارشاد باری تعالیٰ ہے:

وَاِذْ غَدَوْتَ مِنْ اَہْلِکَ تُبَوِّیُٔ الْمُؤْمِنِیْنَ مَقَاعِدَ لِلْقِتَالِ وَاللّٰہُ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌo (سورت آل عمران: آیت 121)

’’اور جب تو صبح سویرے اپنے گھر والوں کے پاس سے نکلا، مومنوں کو لڑائی کے لیے مختلف ٹھکانوں پر مقرر کرتا تھا اور اللہ سب کچھ سننے والا، سب کچھ جاننے والا ہے۔‘‘

امام بخاری رحمۃ اللہ اس آیت کی تفسیر بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

غَدَوْتَ: یعنی آپﷺ دن کے شروع میں نکلے۔

مِنْ اَہْلِکَ: یعنی اپنی زوجہ مطہرہ سیّدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے حجرہ سے۔

تُبَوِّیُٔ: یعنی آپﷺ مومنوں کو قتال کے لیے ان کے مورچوں پر متعین فرما رہے تھے۔ چنانچہ آپﷺ نے انہیں دائیں بائیں مقرر فرمایا اور ان کے لیے مورچوں اور لڑنے کی جگہوں کی تحدید و تعیین فرمائی۔ (صحیح البخاری، باب غزوۃ احد: جلد، 4 صفحہ 1484)

رب تعالیٰ کی کتاب پکار پکار کر یہ کہہ رہی ہے کہ سیّدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نبی کریمﷺ کی اہل ہیں۔ جس سے سیّدہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی تشریف و فضیلت اور ایک خاص فضیلت عیاں ہوتی ہے، جس کو نبی کریمﷺ لوگوں کے سامنے ان الفاظ کے ساتھ بیان فرمایا کرتے تھے کہ آپﷺ کی اہلیہ سیّدہ طاہرہ عائشہ رضی اللہ عنہا آپﷺ کو سب انسانوں سے زیادہ محبوب ہیں۔ جبکہ منافقین آج تک جناب رسول اللہﷺ کو آپ کی اس بات میں جھٹلاتے آ رہے ہیں اور ہماری طاہرہ، صادقہ اور عفیفہ ماں سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا پر وہ تہمت لگاتے ہیں، جو کتاب اللہ اور سنت مطہرہ کے صریح مناقض و متضاد ہے۔ لیکن افسوس اس ناسمجھ اُمت پر جو ان کے شور و غوغا پر کان بھی دھرتے ہیں اور ان منافقین سے محبت و تولی کا اظہار کرتے ہیں، جو اللہ اور اس کے رسول کے کھلے دشمن ہیں۔ یوں یہ عوام صحیح کو غلط اور باطل کو حق کہہ بیٹھتے ہیں۔ اے مسلمانو! بتلاؤ! یہ عالم برگشتگی کب تک جاری رہے گا؟ کب تک تم لوگ یوں اندھیروں میں بھٹکتے اور ٹامک ٹوئیاں مارتے رہو گے؟!!

حضرات حسنین کریمین رضی اللہ عنہما سب سے اعلیٰ حسب و نسب اور سب سے بہتر سیرت و اخلاق کے مالک تھے، متعدد نصوص اس کو واضح کرتی ہیں، چنانچہ:

٭ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہا فرماتے ہیں:

’’ایک دفعہ نبی کریمﷺ نماز عصر ادا فرما رہے تھے۔ جب آپﷺ چوتھی رکعت میں پہنچے، تو سیّدنا حسن اور حضرت حسین رضی اللہ عنہما ادھر آ نکلے اور نبی کریمﷺ کی پیٹھ پر سوار ہو گئے۔ پس (نماز کے بعد) آپﷺ نے ان دونوں کو اپنے سامنے بٹھایا پھر ایک کندھے پر سیدنا حسن رضی اللہ عنہ کو اور دوسرے کندھے پر سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کو سوار کیا، پھر ارشاد فرمایا: ’’اے لوگو! کیا میں تم لوگوں کو نہ بتاؤں کہ سب سے بہتر نانا اور نانی والا کون ہے؟ کیا میں تم لوگوں کو نہ بتاؤں کہ سب سے بہتر چچا اور پھوپھی والا کون ہے؟ کیا میں تم لوگوں کو نہ بتاؤں کہ سب سے بہتر ماموں اور خالہ والا کون ہے؟ کیا میں تم لوگوں کو نہ بتاؤں کہ سب سے بہتر ماں اور باپ والا کون ہے؟ تو سنو! وہ دونوں حسن اور حسین ہیں، جن کے نانا اللہ کے رسولﷺ اور نانی خدیجہ بنت خویلد رضی اللہ عنہا ہے۔ جن کی ماں فاطمہ رضی اللہ عنہا بنت رسول اللہﷺ ہے اور جن کا باپ علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ ہے۔ جن کا چچا جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہ اور پھوپھی ام ہانی بنت ابی طالب رضی اللہ عنہا ہے۔ جن کا ماموں قاسم بن رسول اللہﷺ ہے اور جن کی خالہ زینب، رقیہ اور ام کلثوم رضی اللہ عنہن ہیں، جو رسول اللہﷺ کی بیٹیاں ہیں اور (سن لو کہ) ان دونوں کا نانا جنت میں ہے، ان دونوں کا باپ جنت میں ہے، ان دونوں کی نانی جنت میں ہے، ان دونوں کی ماں، چچا اور پھوپھی جنت میں ہے اور ان دونوں کی خالائیں جنت میں ہیں اور ان دونوں کا ماموں جنت میں ہے، اور یہ دونوں (خود بھی) جنت میں ہیں اور ان کی بہن جنت میں ہے۔‘‘ (المعجم الاوسط للطبرانی: 6464 اس حدیث کو عبدالرزاق سے صرف احمد بن محمد بن عمرو بن یونس یمامی نے روایت کیا ہے)

اگرچہ اس اثر کی سند میں قدرے ضعف ہے لیکن اس کے معانی معلوم و مشہور ہیں، اس پاکیزہ خاندان کے ایسے فضائل و مناقب دوسری صحیح روایات سے ثابت ہیں کہ یہ خاندان عزت و شرافت اور بزرگی و نجابت کی کان اور جود و کرم کا منبع و سرچشمہ ہے جس کا حسب و نسب ستھرا، نتھرا، پاکیزہ، عمدہ، اعلیٰ، بزرگ و برتر اور شریف و نجیب ہے۔ جس نے سیادت و قیادت کی چوٹیوں کو جا چھوا اور اس سے کم رتبہ پر کبھی راضی نہ ہوا۔

حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور صنادید عرب آل بیت اطہار کی اس بزرگی و برتری سے واقف بھی تھے اور اس کے معترف بھی تھے چنانچہ’’ایک دن حضرت معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہما نے اپنے ہم مجلسوں سے دریافت فرمایا: ماں، باپ، نانا نانی، چچا پھوپھی اور خالہ ماموں کے اعتبار سے سب سے زیادہ بزرگ کون ہے؟ لوگوں نے عرض کیا: امیر المومنین! (اس بات کو) آپ (ہم سے) زیادہ جانتے ہیں۔ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے سیّدنا حسن بن علی رضی اللہ عنہما کا (جو اس وقت مجلس میں موجود تھے) ہاتھ پکڑ کر ارشاد فرمایا: ’’یہ ہیں۔‘‘ (الکامل لابن اثیر فی التاریخ: جلد، 3 صفحہ 262 العقد الفرید: جلد، 4 صفحہ 337 الانصاف للخلیفۃ: صفحہ 535)

یہ سیّدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کا حد درجہ انصاف ہے کہ وہ کس فراخ دلی، صدق و اخلاص اور یقین و اذعان کے ساتھ آل بیت رسولﷺ کے اس چشم و چراغ کی ایسی بے نظیر فضیلت و منقبت کا اظہار اور اقرار فرما رہے ہیں۔ جناب رسول اللہﷺ کے اہل بیت، ذریت و ازواج اور موالی کے ساتھ اہل ایمان و اسلام ہمیشہ تعظیم و اجلال کا سلوک کرتے رہے، چنانچہ جناب ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ارشاد فرماتے ہیں: ’’جناب رسول اللہ حضرت محمدﷺ کے اہل بیت میں آپﷺ کا خیال رکھو۔‘‘(صحیح البخاری: 3541)

یعنی جسے نبی کریمﷺ سے محبت ہے وہ آپﷺ کے آل بیت سے محبت کرے اور جو دنیا و آخرت میں جناب رسول اللہﷺ کا تقرب چاہتا ہے وہ آپﷺ کے اہل، ذریت اور ازواج رضی اللہ عنہن کا اکرام و اجلال کرے، ان کی خیر خیریت معلوم کرے، انہیں راضی اور خوش کرنے میں جتن کرے، ان سے تعاون کرے، ان کے حقوق ادا کرے اور ان کے اُن اعلیٰ اخلاق کو اپنائے جو ان کی سیرت و کردار کا جزو لاینفک تھے، جیسے علم و حلم، وفا و صفا، جود و کرم، جہد و تضحیہ، کتاب و سنت اور ان کی زبان سے تمسک، جو نبی کریمﷺ سیّدنا علی، سیّدہ فاطمہ، حضرات حسنین کریمین رضی اللہ عنہم اور ان کے سچے جاں نثاروں کی زبان ہے جو نبی کریمﷺ کی سنت، سیرت، منہج اور تعلیمات کے سچے پیروکار تھے۔

سیّدنا حسین بن علی رضی اللہ عنہما کی نبی کریمﷺ کی صورت و سیرت کے ساتھ 

مشابہت اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے آپ سے محبت کرنے کا بیان

٭ امیر المومنین حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

’’جو سر سے لے کر گردن تک نبی کریمﷺ کے چہرہ کو دیکھنا چاہے وہ حسن کو دیکھ لے اور جو گردن سے لے کر پیروں تک نبی کریمﷺ کو دیکھنا چاہے، وہ حسین کو دیکھ لے۔ یہ دونوں نبی کریمﷺ سے مشابہ ہیں۔‘‘ (المعجم الکبیر للطبرانی: 2769)

٭ امیر المومنین حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

’’جس کو اس بات سے خوشی ہو کہ وہ گردن سے چہرے تک نبی کریمﷺ کے سب سے زیادہ مشابہ انسان کو دیکھے تو وہ حسن بن علی کو دیکھ لے اور جسے اس بات سے خوشی ہو کہ وہ گردن سے ٹخنوں تک خلقت اور رنگت کے اعتبار سے نبی کریمﷺ کے سب سے زیادہ مشابہ انسان کو دیکھے تو وہ حسین بن علی کو دیکھ لے۔‘‘ (المعجم الکبیر: 2768)

٭ حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

’’اولاد علی رضی اللہ عنہ میں سے حسن رضی اللہ عنہ سے زیادہ نبی کریمﷺ کے مشابہ کوئی نہ تھا۔‘‘ (المستدرک: 4787 ذہبیؒ نے ’’التلخیص‘‘ میں اس روایت کو صحیح کہا ہے)

سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کے وقت کی جن روایات میں یہ ذکر آتا ہے کہ وہ نبی کریمﷺ کے سب سے زیادہ مشابہ تھے، تو اس سے مراد یہ ہے کہ سیّدنا حسن رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد نبی کریمﷺ کے سب سے زیادہ مشابہ جناب حسین بن علی رضی اللہ عنہما تھے۔

٭ ایاس اپنے والد سے روایت کرتے ہیں، وہ فرماتے ہیں:

’’میں نبی کریمﷺ اور حضرت حسن و حسین رضی اللہ عنہما کو آپﷺ کے خچر شہباء کی نکیل پکڑ کر (آگے آگے) چلا، حتیٰ کہ انہیں نبی کریمﷺ کے حجرہ میں داخل کر دیا کہ یہ نبی کریمﷺ کے آگے اور وہ نبی کریمﷺ کے پیچھے تھے۔‘‘ (صحیح مسلم: 2423)

بہرحال عقیدت و محبت اور وفا و ولا کی یہ داستان بے حد طویل ہے۔ حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو حضرات حسنین کریمین رضی اللہ عنہما سے جس قدر محبت تھی اس کو کہاں تک بیان کیجیے اور کیا بتائیے اور کیا چھوڑیے کہ

ہر نقشہ دامن دل می کشد کہ جا ایں جا است

یہ تو تھیں حضرات حسنین کریمین رضی اللہ عنہما کی بابت اہل سنت و الجماعت کی وہ نصوص جن میں کتاب و سنت اور حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے آثار و اخبار کو معیار بنایا گیا ہے اور ان سے تمسک کیا گیا ہے۔ لیکن اعدائے صحابہ نے آل بیت اور بالخصوص سیّدنا حسین بن علی رضی اللہ عنہما کے بارے میں دجل و تلبیس اور وضع و تدلیس سے کام لیتے ہوئے، ایسی ایسی روایات گھڑی گئی ہیں، جن میں بظاہر تو آل بیت سے محبت و تعظیم کا اظہار کیا گیا ہے، لیکن درپردہ ان نصوص سے کتاب و سنت کے بیان کردہ عقائد اور نبی کریمﷺ کی سنتوں کی مخالفت کا کام لیا گیا ہے۔ اعدائے صحابہ نے حضرات اہل بیت رضی اللہ عنہم کی بابت قرآن و سنت پر مبنی عقیدہ کے ’’چشمۂ صافی‘‘ کو گدلا اور گندا کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگایا ہے۔ چنانچہ قرآن تو یہ شہادت دیتا ہے کہ آل بیت اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم باہم شیر و شکر اور ایک دوسرے کے انصار و مددگار تھے، مگر اعدائے صحابہ کی خود تراشیدہ داستانیں کچھ اور ہی قصہ سناتی ہیں۔ چنانچہ یہ وضعی روایات یہ باور کرواتی ہیں کہ صحابہ کرام اور اہل بیت رضی اللہ عنہم ایک دوسرے سے دست و گریبان رہتے تھے اور کبھی ان مقدس ہستیوں کو ایک دوسرے کے خلاف سازشوں میں مصروفِ عمل دکھایا جاتا ہے۔

ان کے منہ میں خاک!

زمین و آسمان ایک دوسرے سے مل سکتے ہیں ، گردشِ لیل و نہار رک سکتی ہے، حرکت آفتاب تھم سکتی ہے، نور مہتاب مٹ سکتا ہے، آگ اور پانی اپنی تاثیر کھو سکتے ہیں مگر!

نہیں ہو سکتا، تو یہ نہیں ہو سکتا کہ حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے دلوں میں جنابِ رسول اللہﷺ کی آل بیت اطہار اور ازواجِ مطہرات رضی اللہ عنہن کے بارے میں ذرا سا بھی میل آ جائے!حاشا و کلا!

اعدائے صحابہ رضی اللہ عنہم نے دروغ بافیوں اور جعل سازیوں کا یہ سلسلہ صرف اس نا مسعود، غیر محمود، منحوس اور خبیث مقصد کو حاصل کرنے کے لیے (اللہ انہیں کبھی کامیاب نہ کرے) جاری کیا، تاکہ امت مسلمہ میں فتنوں کو ہوا دی جا سکے اور انہیں محبت و مودت اور رحمت و تعاون کے ان رشتوں سے بے گانہ و ناآشنا بنایا جا سکے، جو اسلاف امت، حضرات صحابہ کرام اور آل بیت اطہار رضی اللہ عنہم میں قائم و استوار تھے۔

اعدائے صحابہ رضی اللہ عنہم کا یہ گھناؤ نا رویہ ہر مسلمان پر اس بات کو لازم کرتا ہے کہ وہ تاریخ کا مطالعہ ہوشیار اور بیدار ہو کر کرے اور جہاں کہیں بھی کوئی ایسی بات ملے، جو اسلاف اکابر کے بلند کردار سے ازحد گری ہوئی ہو اس کا بلا تردّد و تحقیق انکار کر دے اور جو بات بھی ان کی اخلاقیات، اخوت و ایثار، چشم پوشی، عفو و کرم اور نیکیوں میں مسابقت و تنافس کے خلاف نظر آئے اسے کبھی قبول نہ کیا جائے۔

سیّدنا حسین بن علی رضی اللہ عنہما بے حد نڈر، بے باک، دلیر، شجاع، حق گو، حق پرست، لومِ لائم سے بے پروا، رب کی رضا میں فنا اور نفاق و ریا سے بے پناہ دُور تھے۔ جب مروان بن حکم نے سیّدنا حسن رضی اللہ عنہ کے جنازہ کو کندھا دیا، تو سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ نے نہایت جرأت کے ساتھ یہ کہا:

’’آج تو ان کا جنازہ اٹھاتا ہے، اللہ کی قسم! تو انہیں غصہ کے گھونٹ پلاتا تھا۔‘‘

مروان نے بے ساختہ کہا:

’’اللہ کی قسم! میں اس ذات کے ساتھ ایسا ناروا سلوک کرتا تھا جس کی برداشت پہاڑوں کے برابر تھی۔‘‘ (سیر اعلام النبلاء: جلد، 4 صفحہ 345)

بے شک سیّدنا حسن رضی اللہ عنہ اگر حلم و بردباری میں مشہور تھے، تو سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ جرأت و شدت میں مشہور تھے۔