Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کی طرف کوفیوں کے خطوط

  حامد محمد خلیفہ عمان

اہل کوفہ نے سیدنا حسین بن علی رضی اللہ عنہما کو لگاتار متعدد خطوط لکھے، جن میں جلد از جلد کوفہ چلے آنے کی پرزور دعوت اور بیعت کرنے کے عزم کا اظہار کیا گیا تھا، لیکن اہل کوفہ کا اس سے بڑھ کر جرم اور کیا ہو گا کہ پہلے انہوں نے خود خط لکھے اور کوفہ بلوایا پھر بیعت کی، لیکن بعد میں آپ کا ساتھ چھوڑ دیا جس کا نتیجہ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کی مصیبت عظمیٰ کی صورت میں نکلا۔

پھر ان کوفیوں میں سے بھی سب سے زیادہ مجرمانہ رویہ ان کے امیر عبیداللہ بن زیاد الاحمق کا تھا۔ یہ احمق بعض صحابہ رضی اللہ عنہم پر بے حد بدزبانی اور غرور و تکبر کرتا تھا۔ (چنانچہ جب حضرت عائذ بن عمرو رضی اللہ عنہ اس احمق کے پاس گئے اور اسے نصیحت کرتے ہوئے یہ فرمایا: ’’اے میرے بیٹے! میں نے نبی کریمﷺ کو یہ ارشاد فرماتے سنا ہے: ’’بدترین چرواہے وہ ہیں، جو بے حد بے درد اور ظالم ہوں (یعنی بدترین حکمران وہ ہیں، جو بے رحم اور سنگ دل ہوں ) تم ان جیسا بننے سے بچنا۔‘‘ اس کے جواب میں اس احمق نے یہ کہا: بیٹھ جائیے! آپ تو اصحاب محمدﷺ کی بھوسی (یعنی چھانن) ہیں۔ حضرت عائذ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ’’کیا ان کی بھوسی بھی تھی؟ بھوسی تو ان کے بعد کے لوگ ہیں اور جو غیر صحابی ہیں۔‘‘ اس احمق کی مراد یہ تھی کہ آپ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے علماء و فضلاء اور اہل مراتب میں سے نہیں، بلکہ آپ ان سے کم درجہ کے ہیں ۔ جس کے جواب میں حضرت عائذ رضی اللہ عنہ نے یہ فرمایا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سب کے سب ابرار و اخیار اور امت کے سادات تھے اور اپنے بعد کے سب لوگوں سے افضل تھے۔ یہ روایت ’’صحیح مسلم، رقم الحدیث: 1839‘‘ میں مروی ہے۔ یاد رہے کہ جو بھی حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی مقدس ہستیوں پر طعن کرتا ہے، وہ عبیداللہ بن زیاد جیسا احمق اور مغرور ہے جس کو اپنے کسی قول و فعل کی ذرا پروا نہ ہو) یہی وہ احمق مغرور ہے، جس کو اعدائے صحابہ رضی اللہ عنہم نے اپنے مکر و فریب کو عملی جامہ پہنانے کا ذریعہ بنایا۔ چنانچہ اس نے پرلے درجے کی بلادت و غباوت اور بے مثل حماقت و سفاہت کا ثبوت دیتے ہوئے سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کے شہید کر دینے پر اصرار کیا اور سیدنا حسین بن علی رضی اللہ عنہما کے امر میں اپنے سے بڑے کسی کی رائے لیے بغیر ہی صلح و مفاہمت کی ہر پیش کش کو پائے حقارت سے ٹھکرا دیا۔ پھر بالآخر سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کا حادثۂ فاجعہ پیش آ گیا، جس کے آثار آج تک امت کی وحدت اور امن پر اثر انداز ہوتے چلے آ رہے ہیں، حتیٰ کہ امت کے عقائد بھی اس دل خراش واقعہ سے شدید متاثر ہیں۔ چنانچہ سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ اور سنت نبویہ کے دشمنوں نے پہلے آپ کو دھوکہ سے امن کی جگہ سے نکالا۔ پھر آپ کو بے یار و مددگار چھوڑا تاکہ آپ کو شہادت کی طرف لے چلیں، ان لوگوں نے یہ جگر پاش فعل صرف اور صرف امت میں فتنہ برپا کرنے، اس کی وحدت کو پارہ پارہ کرنے اور اس کے عقیدۂ توحید کو مٹانے کی ناپاک خواہش کے حصول کے لیے کیا تھا۔ اعدائے صحابہ نے اس حادثہ فاجعہ کا بھرپور فائدہ اٹھایا، آج یہ لوگ آل بیت سے جھوٹی محبت کے اظہار کی آڑ میں اور آل بیت پر مگرمچھ کے آنسو بہا کر امت مسلمہ کے ساتھ مکر کرتے ہیں اور سنت نبویہ کو مسخ کرتے ہیں ۔ بے شک امت مسلمہ کو اس کی بھاری قیمت چکانی پڑی اور آج تک چکا رہی ہے اور چکاتی رہے گی۔ الا ان یشاء اللّٰہ!!!

یہ امر اس وقت امت مسلمہ کے غموں کو اور زیادہ کر دیتا ہے اور اس کے زخموں پر نمک پاشی کا کام دیتا ہے جب ہم دیکھتے ہیں، عام لوگوں کو اس بات کا ادراک تک نہیں کہ ان رسوم کے پس پردہ روافض کے گھناؤ نے مقاصد کیا ہیں اور صدیوں سے چلی آتی، ان رسموں کی بابت انہیں یہ تک معلوم نہیں کہ یہ سب خرافات خود سیدنا حسین بن علی رضی اللہ عنہما کے عقیدہ اور آپ کے نانا سید اہل بیت رسول اللہﷺ کے دین کے سخت خلاف ہیں اور مصیبت بالائے مصیبت یہ ہے کہ بعض ان قاتلین حضرت حسین رضی اللہ عنہ سے حسن ظن بھی رکھتے ہیں، بے شک ایسے لوگ امت مسلمہ کے لیے ان قاتلوں سے بھی زیادہ خطرناک ہیں۔ سیدنا حسین بن علی رضی اللہ عنہما کتاب و سنت کو مضبوطی سے تھامنے والے تھے، انہوں نے جو کچھ بھی کیا نیک نیتی کے ساتھ اور اپنے علم و اجتہاد کے مطابق کیا۔ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے:

’’جس نے دنیا کے لیے ہم سے محبت کی، تو دنیا والوں سے نیک و بد ہر قسم کے لوگ محبت کیا ہی کرتے ہیں اور جس نے اللہ کے لیے ہم سے محبت کی، تو وہ اور ہم قیامت کے دن یوں ہوں گے۔‘‘ پھر آپ نے اپنی شہادت کی اور درمیان انگلی کو ملا کر دکھایا۔ (المعجم الکبیر للطبرانی: 2880)

خود سیدنا حسین بن علی رضی اللہ عنہما کے بیان کردہ قاعدے سے یہ معلوم ہو گیا کہ آل بیت رسولﷺ سے محبت کی علامت کتاب و سنت کو مضبوطی سے تھامنا اور آل بیت رسولﷺ اور بالخصوص حضرات حسنین کریمین رضی اللہ عنہما سے محبت کرنا ہے اور آل بیت رسولﷺ سے اور بالخصوص حضرات حسنین کریمین رضی اللہ عنہما سے بغض کی علامت ان باتوں سے بغض رکھنا ہے، جن کی خاطر ان مقدس ہستیوں نے اپنا سب کچھ داؤ پر لگا دیا۔

جی ہاں! وہ کتاب و سنت کا منہاج اور خلفائے راشدین اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی سیرت پر چلنا ہے۔

یحییٰ بن سعید کہتے ہیں:

’’ہم علی بن حسین (رضی اللہ عنہما) کی خدمت میں بیٹھے تھے، اتنے میں اہل کوفہ کے چند لوگ آئے اور علی بن حسین (رضی اللہ عنہما) نے ان سے یہ ارشاد فرمایا: ’’اے اہل عراق! ہم سے وہ محبت کرو، جو اسلام کا مقتضا ہے، میں نے اپنے والد ماجد کو یہ کہتے سنا ہے کہ نبی کریمﷺ کا ارشاد ہے: ’’اے لوگو! مجھے میرے مرتبہ سے زیادہ مت بڑھاؤ، بے شک رب تعالیٰ نے پیغمبر بنانے سے پہلے مجھے (اپنا) بندہ بنایا ہے۔‘‘ (المستدرک: 4825 حاکمؒ کہتے ہیں: اس حدیث کی اسناد صحیح ہے۔ امام ذہبیؒ نے ’’التلخیص‘‘ میں اس حدیث کو صحیح کہا ہے)

یحییٰ کہتے ہیں: ’’میں نے یہ بات سعید بن مسیب کے سامنے ذکر کی، تو وہ کہنے لگے: اور پیغمبر بنانے کے بعد بھی، یعنی آپﷺ نبوت سے قبل بھی اللہ کے بندے تھے اور نبوت کے بعد بھی۔‘‘

غرض جن لوگوں نے سیدنا حسین بن علی رضی اللہ عنہما کو خطوط لکھے، کوفہ بلوا کر آپ کی بیعت کی، پھر غداری کا ارتکاب کرتے ہوئے آپ کو قتل کر دیا، یہی وہ لوگ ہیں جو آج ایک مرتبہ پھر سیدنا حسین بن علی رضی اللہ عنہما سے محبت کے دعویٰ کی آڑ میں اس سنت کو مٹا دینے کے درپے ہیں، جس کی خاطر آپ نے جان دے دی۔ حضرت حسین بن علی رضی اللہ عنہما کی شہادت میں بے شمار نصیحتیں اور عبرتیں ہیں جو آل بیت، ازواج مطہرات، صحابہ کرام اور بالخصوص حضرات حسنین کریمین رضی اللہ عنہم سے بغض رکھنے والوں سے بچنے کی تاکید کرتی ہیں۔ بالخصوص اہل کوفہ سے جنہوں نے سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو پریشانی میں مبتلا کر رکھا تھا۔ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

’’اہل کوفہ نے مجھے پریشانی میں ڈال رکھا ہے۔ نہ تو کوئی امیر ان کے لیے قابل قبول ہے اور نہ کوئی امیر ان کو پسند ہی کرتا ہے۔‘‘ (المعرفۃ و التاریخ للفسوی: جلد، 1 صفحہ 361)

اپنے والیوں کی مخالفت ان کی تہذیب ہے، باطل پھیلانا ان کا شیوہ ہے، شرارت ان کی فطرت ہے، ایک فتنہ کی آگ بجھتی نہیں کہ دوسرا فتنہ بھڑکا دیتے ہیں ۔ ان کی مسخ فطرت یہاں تک جا پہنچی کہ آل بیت کے برگزیدہ افراد کے خلاف قتل کی جرأت کی، امیر المومنین علی رضی اللہ عنہ کو دھوکے سے قتل کیا، سیدنا حسن رضی اللہ عنہ کو کدال مار کر گہرا زخم لگایا اور اخیر میں سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کو دھوکے سے قتل کر دیا۔ اس کے بعد انہوں نے نہ تو کسی عہد کا خیال رکھا، نہ کسی خون کی حرمت کی پروا ہی کی۔

ایسا ہونا کوئی بعید نہیں! بھلا جس نے ان ہلاکت آفرین سیاہ کاریوں کا ارتکاب کر ڈالا، اس کے نزدیک دوسرے چھوٹے چھوٹے گناہوں کی کیا حیثیت ہے؟!!