حضرت عمررضی اللہ عنہ ابوقتادہ انصاری رضی اللہ عنہ اور دیگر صحابہ رضی اللہ عنہم جنگ حنین میں بھاگ کھڑے ہوئے (بخاری)*
زینب بخاریحضرت عمرؓ ابوقتادہ انصاریؓ اور دیگر صحابہؓ جنگ حنین میں بھاگ کھڑے ہوئے (بخاری)*
الجواب اہلسنّت
1: بخاری شریف کے مذکورہ عکسی صفحہ سے جو غزوہ حنین کا نقشہ رافضی دماغ کی سکرین پیش کر رہی ہے وہ خالص دھوکہ اور روایتی فراڈ بازی ہے۔ صورت حال کچھ یوں ہے کہ ابو قتادہ انصاریؓ نے ایک کافر کو قتل کیا، لڑائی کے بعد ابھی قتل کر کے فارغ ہی ہوئے کہ مسلمانوں کو پسپائی ہوگئی اس صورت حال سے حضرت عمرؓ پریشان تھے ابوقتادہؓ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عمرؓ سے پوچھا کہ یہ مسلمانوں پر کیا حالت گزر گئی حضرت عمرؓ نے فرمایا اللہ کا فیصلہ ایسے ہی تھا فرماتے ہیں کہ ہم اس وقت حضور اکرمﷺ کے قریب ہی تھے حضور اکرمﷺ تشریف فرما ہوئے اور فرمایا جس مسلمان نے جس کافر کو قتل کیا اس کا سامان قاتل کو ملے گا ابو قتادہؓ فرماتے ہیں سیدنا ابوبکرؓ کی گواہی سے میرے ہاتھوں مقتول کافر کا سامان وغیرہ مجھے مل گیا جس کو فروخت کر کے میں نے باغ خریدا۔(از بخاری عکسی صفحہ )
اس صفحہ پر نہ تو حضرت عمرؓ کا فرار ہونا معلوم ہوتا ہے اور نہ ہی ابو قتادہؓ کا بلکہ ان حضرات کا آنحضرتﷺ کے پاس ہونا معلوم ہوتا ہے۔ مگر ناس ہو حسد کا جو حق بات کو قبول کرنے کی بجائے اُلٹے راستے سجھاتا ہے۔ ملاحظہ فرمائیں حضرت عمرؓ اور ابو قتادہ اظہار افسوس فرما رہے ہیں اور ”ثم تراجع الناس" کہ پھر پسپا ہونے والے حضرات لوٹ آتے ہیں یہ لفظ صاف صاف شیعہ جھوٹ کے منہ پر طمانچہ رسید کر رہا ہے کہ یہ دونوں حضرات تو حضور اکرمﷺ کے پاس ہی موجود تھے البتہ کچھ لوگ پسپا ہو گئے تھے جو دوبارہ لوٹ آئے۔
2: یہاں بھی روایتی دجل سے کام چلاتے ہوئے شیعہ فریب کاروں کے نمبردار نے انہزام کا معنی انفرار سے کیا ہے۔ حالانکہ ہزم کا معنی فزیفر ہرگز نہیں بلکہ ان دونوں معنوں میں بڑا فرق ہے ہم قاموس الوحید کے حوالے سے الہزیمۃ کا معنی بوضاحت لکھ چکے ہیں کہ اس کا معنی فرار ہونا یا بھاگ جانا نہیں جیسا کہ شیعہ مکاروں نے عامتہ الناس کو ورغلایا ہے بلکہ مطلب یہ ہے جو ہم عرض کر چکے ہیں کہ بعض حضرات کو ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا ہے پھر پسپائی کے بعد دوباره صحابہ کرامؓ جمع ہوئے اور ان کفار پر حملہ کر کے ان کی اصل ان کو یاد دلا ڈالی۔