مسلم بن عقیل کو کوفہ بھیجنا اور ان کا قتل
حامد محمد خلیفہ عماناہل کوفہ کے متواتر خطوط کو دیکھتے ہوئے، سیدنا حسین بن علی رضی اللہ عنہما نے اپنے چچا زاد مسلم بن عقیلؒ کو حالات معلوم کرنے کے لیے کوفہ روانہ کیا تاکہ اہل کوفہ کے خطوط اور ان کے بیعت کے ارادوں کی حقیقت کا پتا چلے۔ مسلمؒ نے کوفہ جا کر دیکھا کہ لوگ سیدنا حسین بن علی رضی اللہ عنہما کی بیعت کرنے کے لیے بالکل تیار ہیں۔ چنانچہ انہوں نے لوگوں سے حضرت حسین بن علی رضی اللہ عنہما کی بیعت لینا شروع کر دی۔ بیعت لینے کا یہ عمل ہانی بن عروہ مرادی کے گھر میں پایۂ تکمیل کو پہنچایا گیا۔ یزید کو جب شام میں اہل کوفہ کی اس بیعت کا علم ہوا، تو اس نے والی بصرہ عبیداللہ بن زیاد کو حکم دیا کہ وہ اس معاملہ کو سنبھالے اور اہل کوفہ کو سیدنا حسین بن علی رضی اللہ عنہما کی بیعت کرنے سے روکے۔ البتہ اتنی بات ضرور ہے کہ کسی تاریخی روایت سے یہ امر ثابت نہیں کہ یزید نے عبیداللہ کو اس بات کا بھی حکم دیا ہو کہ وہ سیدنا حسین بن علی رضی اللہ عنہما کو قتل کر دے۔ (تاریخ دمشق: جلد، 14 صفحہ 313 ابن صلاح سے جب یزید کے بارے میں پوچھا گیا، تو انہوں نے یہ کہا: ’’ہمارے نزدیک یہ بات صحیح اور ثابت نہیں کہ اس نے قتل حسین کا حکم دیا ہو۔ محفوظ یہ ہے کہ یہ ناپاک حکم عبیداللہ بن زیاد نے دیا تھا، جو عراق کا والی تھا۔ رہا یزید کو گالیاں دینا یا اس پر لعن طعن کرنا تو یہ کام مومنوں کو زیبا نہیں۔ چاہے یہ ثابت بھی ہو جائے کہ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کو یزید نے ہی قتل کیا تھا یا ان کے قتل کا حکم دیا تھا۔ قاتل حسین قتل حسین رضی اللہ عنہ کے ارتکاب کی بنا پر کافر نہ کہلائے گا۔ البتہ ایسا شخص گناہ گار ضرور ہے۔ قتل کرنے سے کافر وہی بنتا ہے جو رب کے کسی پیغمبر کو قتل کرے۔ (الصواعق المحرقۃ: جلد، 2 صفحہ 439) نبی کریمﷺ کا ارشاد ہے: ’’مومن کو لعنت کرنے والا اس کے قتل کرنے والے کی طرح اور جو کسی مومن کو کافر کہے وہ اس کے قاتل کی طرح ہے۔‘‘ (السنن لترمذی، رقم الحدیث: 2636) یہ حدیث صحیح ہے)
یزید کا حکم ملتے ہی ابن زیاد کوفہ آ دھمکا اور مسلم بن عقیلؒ کی تلاش میں لگ گیا۔ بالآخر اسے معلوم ہو گیا کہ ہانی بن عروہ کا گھر مسلم کا ٹھکانا ہے اور اہل کوفہ نے اسی گھر میں مسلم بن عقیلؒ کے ہاتھ پر آل بیت رسولﷺ کی بیعت کی ہے۔ لیکن ابن زیاد کو زیادہ پریشان ہونے کی ضرورت نہیں تھی، کیونکہ اہل کوفہ غدر و خیانت کے خمیر میں گندھے ہوئے تھے، انہی لوگوں نے بعد میں غداری کی اور مسلم بن عقیلؒ کو قتل کروا دیا اور وہ ایساکیوں نہ کرتے، ان کی رگ رگ میں اہل بیت نبوت اور ان کی پاکیزہ اولاد کی نفرت پیوست تھی۔
مسلم بن عقیلؒ کے ہاتھ پر اٹھارہ ہزار کوفیوں نے جب بیعت کر لی، تو انہوں نے عابس بن ابی شبیب شاکری کے ہاتھ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کو یہ خط لکھا:
’’اما بعد! بے شک قافلہ کا رہنما قافلہ والوں سے جھوٹ نہیں بولا کرتا۔ جان لیجیے کہ اٹھارہ ہزار کوفیوں نے میرے ہاتھ پر بیعت کی ہے۔ میرا خط ملتے ہی جلدی آ جائیے، سب لوگ آپ کے ساتھ ہیں۔‘‘ (تاریخ الطبری: جلد، 3 صفحہ 290)
سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کے پاس جیسے ہی خط پہنچا انہوں نے کوفہ روانگی کی تیاریاں شروع کر دیں۔اس روایت کو پڑھ کر دو باتوں کا پتا چلتا ہے۔ یا تو یہ روایت جھوٹی ہے کہ اتنے لوگوں نے بیعت نہ کی تھی اور اتنی تعداد دراصل سبائی کوفیوں کی اس مکارانہ سازش کا نتیجہ تھی تاکہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو مکہ سے نکال کر دشمنوں کے حوالے کیا جا سکے۔ یا پھر یہ تعداد صحیح ہے۔ لیکن اس حقیقت سے انکار بھی ممکن نہیں کہ ان کوفیوں کے دل سیدنا حسین بن علی الہاشمی رضی اللہ عنہما کی محبت سے خالی تھے۔ دراصل یہ لوگ فتنہ بھڑکانا چاہتے تھے اور امت کی وحدت کو پارہ پارہ کرنے کے لیے وہ کسی بھی حد تک جانے کے لیے تیار تھے۔ انہیں سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کے صحیح عقیدہ اور تمسک بالدین سے کوئی غرض نہ تھی وہ اسی دین ہی کو تو برباد کرنا چاہتے تھے۔
روایات میں آتا ہے کہ مسلم بن عقیلؒ نے خروج کر کے ابن زیاد کے قصر ولایت کا محاصرہ کر لیا۔ لیکن جیسے ہی اہل کوفہ کو اس بات کا علم ہوا کہ ابن زیاد نے ہانی بن عروہ کو گرفتار کر لیا ہے اور وہ انہیں شامی لشکروں سے خوف زدہ کر رہا ہے، تو ایک ایک کر کے کوفی مسلم بن عقیل کے پاس سے تتر بتر ہونے لگے اور ابھی آفتاب غروب بھی نہ ہوا تھا کہ مسلم بن عقیلؒ تنہا رہ گئے۔ موقعہ کو غنیمت جانتے ہوئے ابن زیاد نے انہیں گرفتار کر کے قتل کر دینے کا حکم دے دیا۔ مسلم بن عقیلؒ کا قتل اگر ایک طرف ابن زیاد کی حکومت کے استحکام اور کوفہ کے امن کے لیے ضروری تھا، جو اس قتل کا مثبت پہلو ہے تاکہ لوگ اس قدر مرعوب ہو جائیں کہ کسی کو پھر خروج کی ہمت نہ ہو۔ جبکہ دوسری طرف یہی قتل ابن عقیلؒ اور ان کو بھیجنے والے کے مقام و مرتبہ سے شدید ترین بے اعتنائی اور غفلت کا باعث تھا ابن زیاد جیسے احمق اور پرلے درجے کے بد باطن حکمت و مصلحت پر نظر نہ رکھ سکے اور انہیں قتل مسلم بن عقیل کے عواقب کا ذرا ادراک نہ ہو سکا۔ ابن زیاد اور اس کے کوفی مشیرِ کار گہری دینی بصیرت اور آل بیت کے احترام اور عقیدت کی فقہ سے یکسر محروم تھے۔ ابن زیادہ حماقت کے خچر پر سوار اور غرور و نخوت کی تلوار سونتے ہوئے تھا۔ حق پژوہی سے بے بہرہ اس شخص نے اقتدار کے نشے میں ابن عقیلؒ کے خون سے ہاتھ رنگنے کا حکم دے دیا۔ ابن زیاد اجڈ کوفیوں جیسا نکلا جیسے کوئی جفا کار ڈاکو جو قافلہ لوٹتے وقت مسافرانِ طریق کی بے بسی و بے سروسامانی کا مطلق خیال نہیں کرتا۔
یہ تھا ابن زیاد کی اندھی اور دین و عقل اور حکمت و بصیرت سے خالی سیاست کا منتہائے نظر، جس نے مارقانِ دین کو کاروانِ اسلام لوٹنے کا ایک اور موقع فراہم کیا، جنہوں نے دین و عقیدہ اور آل بیت نبوت کے دفاع کے نام پر امت مسلمہ کے امن اور اس کے عقیدۂ وحدت کو پراگندہ کر کے رکھ دیا۔
عصر حاضر میں ان کوفیوں کے جدید ایڈیشن کے طرزِ عمل سے اس بات کا مشاہدہ آفتابِ نیم روز کی روشنی میں کیا جا سکتا ہے کہ جھنڈے تو اٹھائے جاتے ہیں آل بیت کی نصرت کے جبکہ یہی لوگ ہر اس شخص کے درپے رہتے ہیں، جنہوں نے رب تعالیٰ کی کتاب اور سیّد آل بیت حضرت رسالت مآبﷺ کی سنت کو داڑھوں کے ساتھ مضبوطی سے تھام رکھا ہوتا ہے۔
اگر بات صرف اسی حد تک موقوف تھی کہ کوفہ کی فضا کو فتنہ و بغاوت کی شورا شوری سے پاک کیا جائے تو اس مقصد کے حصول کے لیے ابن عقیلؒ کی گرفتاری اور انہیں قید و بند میں ڈال دینا ہی کافی تھا۔ لیکن ابن زیاد کے فعل نے جس فکر کی غمازی کی، وہ کوفیوں کی اس کج فطرت کو کچلنے کے لیے فوجی طاقت کا استعمال تھا، جس کو امیر المومنین علی رضی اللہ عنہ بھی اپنے دَورِ خلافت میں تلوار کے زور پر کچل نہ سکے تھے۔ لیکن افسوس کہ ابن زیاد اس موقع پر طاقت کے استعمال میں حد سے تجاوز کر گیا اور اس فعل کا ارتکاب کر گیا، جس کا کوفیوں کی کج فطرت کو کچلنے کے ہدف سے ادنیٰ سا بھی تعلق نہ تھا اور وہ مسلم بن عقیل کا قتل تھا۔
لیکن سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے بعد جب سیّدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے حلم کے ساتھ سیدنا حسن رضی اللہ عنہ کا جود و کرم مل گیا تو اس بیماری کو کاٹ کر رکھ دیا گیا، فتنہ کی تلوار نیاموں میں ڈال دی گئی اور امت کی وحدت و یگانگت اور الفت و مودت دوبارہ لوٹ آئی۔ رافضی سبائیت کا سخت گھیراؤ کیا گیا اور اب وہ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے حلم و بردباری کے حصار میں بری طرح ذلیل و رسوا کی گئی۔ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کی بے پناہ ذہانت و ذکاوت اور حزم و احتیاط کے آگے سبائیت دم سادھ کر رہ گئی۔ لیکن سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے اس دنیا سے پردہ کرتے ہی سبائیت نے امت مسلمہ کی پیٹھ میں ایک بار پھر اپنے زہریلے دانت گاڑنے شروع کر دئیے اور حقد و کینہ، کھوٹ اور مکر کے وہی فتنے کھڑے کرنے لگے، جو سیدنا عثمان شہید اور سیدنا علی شہید رضی اللہ عنہما کی زندگیوں میں کھڑے کیے تھے۔ فتنوں کی اس آگ نے سیدنا حسین بن علی رضی اللہ عنہما کی حیات طیبہ کو گھیرے میں لے لیا اور بالآخر انہیں شہید کر کے چھوڑا۔ یاد رہے کہ بعد میں اسی آگ میں ابن زیاد اور اس کے اعوان و انصار بھی جل کر خاکستر ہو گئے تھے۔
ابن زیاد کوفہ کے معاشرتی، سیاسی اور فکری مکاتب فکر کا ایک طالب علم اور فارغ التحصیل تھا، جہاں کی بنیادی تعلیم فتنہ پروری، جعل سازی اور انارکی پھیلانا تھی۔ افسوس کہ ابن زیاد نے کوفہ کے ’’نصاب تعلیم‘‘ سے تو خوب فائدہ اٹھایا لیکن ان جلیل القدر علماء و فضلاء کے علم و عمل سے استفادہ کرنے سے محروم رہا جنہوں نے اس کی تعلیم و تربیت میں بڑی جانکاہ کاوشیں کی تھیں، جن میں ایک عظیم نام ابو الاسود الدؤلی ( ان کو الدیلی بھی کہا جاتا ہے۔ بصرہ کے قاضی تھے۔ نام ظالم بن عمرو تھا۔ یہی مشہور روایت ہے۔ حضرت عمر، حضرت علی، حضرت ابی بن کعب، حضرت ابن مسعود، حضرت ابو ذر اور حضرت زبیر بن عوام رضی اللہ عنہم سے حدیث کی روایت کی۔ سیدنا عثمان اور سیدنا علی رضی اللہ عنہما سے قرآن پڑھا۔ جبکہ خود ان کے بیٹے ابو حرب اور نصر بن عاصم، حمران بن اعین اور یحییٰ بن یعمر نے ان سے قرآن پڑھا۔ ان سے روایت کرنے والوں میں یحییٰ بن یعمر، عبداللہ بن بریدہ، عمر مولیٰ غفرہ اور ان کے اپنے بیٹے ابو حرب کا نام آتا ہے۔ احمد عجلی کہتے ہیں: ابو الاسود ثقہ ہیں۔ علم نحو میں سب سے پہلے کلام انہوں نے ہی کیا تھا۔ واقدی کہتے ہیں نبی کریمﷺ کی حیات مبارکہ میں مشرف بہ اسلام ہو گئے تھے۔ ایک قول یہ ہے کہ جنگ جمل کے دن جناب علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ قتال کر رہے تھے۔ ابو الاسود کا شمار سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے ان خواص میں ہوتا تھا، جو عقل و رائے میں کمال کی انتہا کو پہنچے ہوئے تھے۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے انہیں علم نحو کے بنیادی قواعد کو وضع کرنے کا حکم دیا۔ جب ابو الاسود نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو لکھے قواعد دکھائے، تو انہوں نے فرمایا: اے ابو الاسود! تم نے کس قدر عمدہ قواعد وضع کیے ہیں اور ان قواعد کو ’’نحو‘‘ کا نام دیا۔ ایک قول یہ ہے کہ ’’ابو الاسود نے عبداللہ کو تعلیم دی۔‘‘ بیان کیا جاتا ہے کہ ابو الاسود جب سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس وفد بن کر حاضر ہوئے، تو انہوں نے ابو الاسود کو اپنے قریب کیا اور انہیں عظیم تحائف سے نوازا۔ ان کا مشہور شعر یہ ہے: و ما طلب المعیشۃ بالتمنی و لکن الق دلوک فی الدلاء تجیء بمثلہا طورا و طورا و تجیء بحمأۃ و قلیل ماء ’’روزی تمنا سے نہیں ملتی۔ البتہ تو بھی دوسرے ڈولوں کے ساتھ اپنا ڈول ڈال دے۔ اکثر تو وہ ایک جیسا نکلے گا (کہ دوسروں کی طرح پانی بھر کر ہی لائے گا) اور کبھی گارے اور تھوڑے پانی کے ساتھ آئے گا۔‘‘ (تاریخ الاسلام للذہبی: جلد، 2 صفحہ 122)) کا بھی آتا ہے، جو کبار تابعین میں سے تھے۔
ابو الاسود سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے مشیرانِ خاص میں سے تھے۔ چونکہ ابن زیاد کے والد سیدنا امیر المومنین علی رضی اللہ عنہ کے اعوان و انصار میں سے تھے اس لیے ابو الاسود نے ابن زیاد کی تعلیم و تربیت پر خصوصی توجہ دی۔ ابوالاسود اخیر وقت تک سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کے وفادار رہے۔ البتہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد جناب امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے حلم و کرم نے انہیں راضی کر دیا اور وہ امت کی وحدت و شیرازہ بندی کے لیے سرگرم عمل ہو گئے اور اس کا لازمی نتیجہ ان عناصر سے شدید عداوت کی صورت میں نکلا، جو امت مسلمہ کی صفوں کو منتشر کرنا چاہتے تھے۔ جن میں سرفہرست رافضی سبائیوں کا نام آتا ہے۔ چنانچہ ابو الاسود سبائیوں کے ازحد دشمن تھے۔ ہمارا یہ مختصر رسالہ ان تفاصیل کا نہ تو متحمل ہے اور نہ ان تفاصیل کا یہ موقعہ ہی ہے۔ البتہ اتنی بات ضرور ہے کہ جن لوگوں نے سیدنا عثمان و علی رضی اللہ عنہما کے پاکیزہ خونوں سے اپنے ہاتھوں کو رنگتے ہوئے مطلق دریغ نہ کیا، ان کے بعد ان کے لیے کسی کے بھی خون سے ہاتھ رنگنا کوئی مشکل کام نہ تھا اور ایسا ہی ہوا۔ چنانچہ ان کوفی رافضیوں نے بلاتردد آل بیت رسول کے متعدد چراغ ایک ہی دن میں گل کر دئیے۔ اس لیے امت مسلمہ کو تاریخ سے سبق سیکھنا چاہیے کہ شاید اس سے ہم اپنا حال درست کر سکیں ۔ لیکن آج ہے کوئی جو صحیح تاریخ سے سب سیکھے۔
سیدنا حسین رضی اللہ عنہ ترویہ کے دن مکہ سے روانہ ہوئے۔ بے شمار صحابہ رضی اللہ عنہم نے آپ کو روکنے اور سمجھانے کی کوشش کی۔ جن میں سیّدنا ابن عمر، سیّدنا ابن عباس، سیدنا ابن زبیر، سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہم جیسے رفیع الشان اور جلیل القدر صحابہ کرام کے اسمائے گرامی آتے ہیں۔ جبکہ خود آپ کے بھائی محمد بن حنفیہ نے بھی روکنے اور سمجھانے کی بے حد کوشش کی۔ لیکن سیدنا حسین بن علی رضی اللہ عنہما خروج کا عزمِ مصمم کر چکے تھے، اسی لیے آپ نے کسی کی بھی بات کو نہ مانا۔
گزشتہ صفحات میں ذکر کیا جا چکا ہے کہ مسلم بن عقیلؒ نے سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کو خط لکھ کر مطلع کیا کہ کوفہ میں آپ کے بے شمار مؤیدین ہیں اور ساتھ ہی اس بات کی ترغیب بھی دی کہ بس اب جلدی سے چلے آئیے۔ چنانچہ خط ملتے ہی سیدنا حسین بن علی رضی اللہ عنہما نے چلنے کی تیاریاں شروع کر دی تھیں۔ لیکن ابھی آپ کوفہ نہ پہنچے تھے کہ اثنائے طریق میں آپ کو مسلم بن عقیلؒ کا دوسرا خط ملا، جس میں صاف لکھا تھا کہ کوفہ مت آئیے اور جدھر سے آئے ہیں، ادھر ہی کو لوٹ جائیے۔ اس خط کا مضمون یہ تھا:
’’اپنے اہل بیت کو لے کر لوٹ جائیے تاکہ یہ کوفی آپ کو دھوکہ نہ دے سکیں۔ یہ آپ کے والد ماجد کے وہی ساتھی ہیں، جن کے بارے میں ان کی شدید تمنا تھی کہ موت یا شہادت آ کر انہیں ان لوگوں سے جدا کر دے۔ اہل کوفہ نے میرے اور آپ دونوں کے ساتھ دروغ بیانی سے کام لیا ہے اور دروغ گو کی کوئی رائے نہیں ہوا کرتی۔‘‘ (البدایۃ و النہایۃ: جلد، 8 صفحہ 171 تاریخ الطبری: جلد، 3 صفحہ 290)
جب مسلم بن عقیلؒ گرفتار کر لیے گئے اور ان کے قتل کر دئیے جانے کا فیصلہ کر لیا گیا، تو انہوں نے عمر بن سعد سے اس بات کی درخواست کی کہ وہ ایک وفد بھیج کر سیدنا حسین بن علی رضی اللہ عنہما کو اپنے ساتھ بیتنے والے جملہ واقعات کی خبر دے دیں۔ چنانچہ مسلم بن عقیلؒ نے ابن زیاد سے یہ کہا: ’’مجھے وصیت کرنے دیجیے۔‘‘
ابن زیاد نے کہا ٹھیک ہے، مسلمؒ نے عمر بن سعد بن ابی وقاص کی طرف نگاہ اٹھا کر دیکھا اور یہ کہا:
’’مجھے تم سے ایک کام ہے، تیرے اور میرے درمیان قرابت داری ہے۔‘‘
پھر عمر بن سعد کے پاس جا کر کہا: ’’اے صاحب! یہاں تمہارے اور میرے سوا تیسرا کوئی قریشی نہیں اور حسین (رضی اللہ عنہ) تم لوگوں کے پاس پہنچنے والے ہیں۔ ان کی طرف پیغام بھیج دو کہ وہ لوٹ جائیں کہ کوفیوں نے ان کے ساتھ دروغ بیانی اور مکر و فریب سے کام لیا ہے اور ہاں مجھ پر قرض بھی ہے۔ میری طرف سے اسے تم ادا کر دینا اور میری لاش کو ابن زیاد سے لے کر دفن کر دینا (تاکہ وہ اسے سولی پر نہ لٹکائے رکھے)۔‘‘
جب ابن زیاد نے عمر بن سعد سے پوچھا کہ مسلمؒ نے کیا کہا ہے اور عمر نے سب بتلا دیا، تو ابن زیاد کہنے لگا:
’’مسلمؒ کا مال تیرا ہے، ہمیں اس سے کوئی غرض نہیں۔ رہے حسین، تو اگر انہیں اب چھوڑ دیا، تو دوبارہ کبھی ان پر قابو نہ پا سکیں گے۔ اور رہی مسلمؒ کی لاش، تو جب انہیں قتل کر دیا جائے گا، تو ہمیں ان کی لاش سے کوئی واسطہ نہیں (جو چاہے کر لینا۔ یعنی تمہیں مسلم کی لاش دفن کر دینے کی اجازت ہے)۔‘‘
رب تعالیٰ مسلمؒ پر رحم فرمائے، پھر انہیں قتل کر دیا گیا۔ عمر بن سعد نے انہیں کفنایا بھی اور دفنایا بھی اور ان کا قرض بھی چکا دیا اور ایک اونٹنی سوار کو سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کی طرف مسلمؒ کے قتل کی خبر دے کر بھیجا۔ وہ کوفہ سے چار مراحل کے فاصلہ پر سیدنا حسین بن علی رضی اللہ عنہما سے جا ملا۔
(تاریخ الاسلام: جلد، 1 صفحہ 524)
سیدنا حسین رضی اللہ عنہ ان متضاد و مخالف خبروں کے پہنچنے پر بے حد متذبذب اور پریشان ہو گئے۔ یہ آپ کی زندگی کا سب سے زیادہ مشکل مرحلہ تھا۔ لیکن یہ کوئی نئی بات نہ تھی، ان کوفیوں کی یہ قدیم روش تھی، اس سے قبل انہی لوگوں نے سیدنا عثمان اور سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے بارے میں افواہوں کا طومار باندھا تھا۔ انہی لوگوں نے سیدنا علی، سیدنا طلحہ و سیدنا زبیر رضی اللہ عنہم کے درمیان متضاد خبریں پھیلا کر غلط فہمیاں پیدا کی تھیں۔
ان ہی لوگوں نے اہل مصر کی طرف وہ سوار روانہ کیا تھا، جو کبھی چھپتا تو کبھی سامنے آتا تھا۔ کبھی قریب ہو کر ان کی باتیں سنتا تو کبھی انہیں دل آزار باتیں کرتا۔ بالآخر جب اسے پکڑ کر اس کی تلاشی لی گئی، تو اس کے پاس سے وہ رسوائے زمانہ خط نکلا، جس میں سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے عفیف دامن پر زمین و آسمان کو ڈھا دینے والی تہمت کا ذکر تھا کہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے اہل مصر کے قتل کر دینے کا حکم دیا ہے۔ اہل مصر نے یہیں سے ایک نئے فتنہ کی بنیاد رکھ دی اور اس بات کی تصدیق تک نہ کی کہ یہ خط سچا ہے یا جھوٹا اور مدینہ پر چڑھ دوڑے۔ اس کی وجہ اس کے سوا اور کچھ نہ تھی کہ ایک تو اس میں خود ان کی فتنہ کی خوگر فطرت کی تسلی کا سامان تھا، دوسرے ان اہل مصر میں سے بے شمار لوگ ابن سبا کی باطنی دعوت کے علم بردار بھی تھے۔ ان کی حماقت و سفاہت پر اور کیا کہیے کہ انہوں نے خلیفہ راشد عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کو تو جھٹلایا اور اسلام کے دعوے دار ایک سابقہ یہودی کی بات کو من و عن تسلیم کر لیا اور ان لفنگوں کی ہاں میں ہاں ملائی جو عقل اور دین و دیانت سب سے بے بہرہ تھے۔
جن لوگوں نے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے دامن عفت پر تہمت کے چھینٹے اڑانے سے گریز نہ کیا تھا، ان کےلیے مسلم بن عقیلؒ پر کسی تہمت کا لگا دینا کوئی بڑا کام نہ تھا، تاکہ سیدنا حسین بن علی رضی اللہ عنہما کو شہید کر کے ان مقاصد کو پایۂ تکمیل تک پہنچایا جائے جن کے حصول کی پہلی کوشش سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کو شہید کر نے کی تھی۔ چنانچہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی طرح آج وہ سیدنا حسین بن علی رضی اللہ عنہما کو بھی دھوکہ سے شہید کرنا چاہتے تھے تاکہ خلافت کا صحیح حق دار اپنے حق تک نہ پہنچ سکے۔ اسی ایک مذموم مقصد نے اعدائے صحابہ بالخصوص کوفی سبائیوں کی نظروں میں اس قدر قیمتی خون کو ارزاں کر دیا جو اپنی باطنیت کو مکر و فریب کے ساتھ امت کی جڑوں میں جاگزیں کرنا چاہتے تھے۔ پھر بات صرف سیّدنا حسین اور آل بیت اطہار رضی اللہ عنہم کے خون ناحق تک محدود نہ رہی، بلکہ امت مسلمہ کی صفوں میں صراع و نزاع اور قتل و جدال تک جا پہنچی اور امت جملہ بلند ترین مقاصد میں لگنے کے بجائے باہم دیگر دست و گریبان ہو گئی۔ اس کے بعد ان سبائیوں نے اسلامی معاشرے کی فضا کو شک و ارتیاب، سب و شتم، ابرار اخیار پر لعن طعن، مسلمات کے انکار اور حقد و کینہ کے زہریلے اثرات سے مسموم کر کے رکھ دیا۔ کوفی سبائیوں نے جس فتنہ کی پہلی اینٹ رکھی، امت مسلمہ آج تک اس کی لپٹوں سے جھلستی اور جلتی آ رہی ہے اور دن بدن ان کا سنت سے تمسک کمزور سے کمزور تر ہوتا چلا جا رہا ہے اور بجائے اس کے کہ امت کو قاتلانِ حسین رضی اللہ عنہ سے بغض و عداوت ہو اور وہ ان سے دُور و نفور ہو، الٹا ان سے محبت و مودت کے پرچار میں لگ گئی ہے۔ جبکہ دوسری طرف یہ سبائی کوفی اخوت مواسات کی آڑ میں فاسد وسائل اور دجالانہ ذرائع کے ذریعے مسلمانوں پر کتاب و سنت کو اور زیادہ ملتبس و مشتبہ کرتے چلے جا رہے ہیں۔ و العیاذ باللّٰہ۔