مفتی اعظم حضرت مولانا مفتی ولی حسن ٹونکیؒ کا فتویٰ: مسلمان کے خلاف شیعہ کی گواہی کا حکم
مفتی اعظم حضرت مولانا مفتی ولی حسن ٹونکیؒ کا فتویٰ:
مسلمان کے خلاف شیعہ کی گواہی کا حکم
سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ ایک شیعہ اثناء عشری کسی سنی مسلمان کے خلاف دعویٰ کرتا ہے کہ سنی مسلمان نے شیعہ اثناء عشری کی دکان جلائی ہے اور دکان کا مال لوٹا ہے۔ سنی مسلمان ان تمام باتوں سے انکاری ہے۔ سنی مسلمان کا کہنا ہے کہ مجھے مذکورہ باتوں میں سے کسی ایک بات کی خبر نہیں ہے، اس پر گواہ پیش نہیں کیا جا سکتا بلکہ میرے خلاف جھوٹا الزام ہے۔ لیکن شیعہ اثناء عشری معاملہ عدالت میں پیش کرتا ہے اور گواہی کے لئے چار شیعہ اثناء عشریوں کو پیش کرنا چاہتا ہے۔سنی مسلمان کو بلا وجہ پریشان کئے جانے کا قوی اندیشہ ہے۔ سنی مسلمان نے ایک وکیل سے مشورہ کیا ہے، وکیل نے کہا کہ علماء شیعہ اثناء عشری کو مسلمان نہیں سمجھتے اگر یہ فتویٰ مل جائے کہ شیعہ اثناء عشری مسلمان نہیں ہے پھر ان کی گواہی پر فیصلہ نہیں ہو سکے گا، کیونکہ اسلام میں کافروں کی گواہی مسلمان کے خلاف معتبر نہیں ہوتی، پھر وکیل نے مزید کہا کہ اگر شیعہ اور روافض کی گواہی معتبر نہ ہونے پر تاریخ اسلام کے قاضیوں کا فیصلہ یا مثال مل جائے تو بہت بہتر ہو گا۔ لہٰذا بندہ ناچیز جناب عالی سے درخواست کرتا ہے کہ آپ اس بارے میں ہماری شرعی رہنمائی فرمائیں۔
جواب: صورتِ مسئولہ میں اسلامی قانون کی شہادت کی رو سے کسی مسلمان کے معاملہ میں اس کے خلاف کسی غیر مسلم کافر کی شہادت قبول نہیں ہوتی۔
شیعہ اثناء عشری اپنے عقائدِ باطلہ و فاسدہ کی بناء پر کافر اور دائرہ اسلام سے خارج ہیں، اس لئے اُن کی شہادت مسلمان کے خلاف معتبر نہ ہو گی۔
ویسے تو شیعوں کے عقائدِ باطلہ کئی ہے۔ مثلاً
(1) قرآن کے محرف ہونے کا عقیدہ۔
(2) امامت ائمہ اثناء عشریہ کا جز و ایمان ہونے کا عقیدہ۔
(3) بارہ اماموں کے من جانب اللہ نامزد ہونے کا عقیدہ (4) بارہ اماموں کا تمام انبیاء سابقین علیہم السلام اور رسولوں سے افضل ہونے کا عقیدہ۔
(5) بارہ اماموں کو حلال کو حرام اور حرام کو حلال قرار دینے کے اختیار کا عقیدہ۔
(6) شیخینؓ سیدنا صدیقِ اکبرؓ و سیدنا فاروقِ اعظمؓ کے کافر و مرتد اور منافق قرار دینے کا عقیدہ وغیرہ وغیرہ، لیکن یہاں پر صرف تحریفِ قرآن کے عقیدہ کے ثبوت میں چند حوالے پیش کئے جاتے ہیں۔
شیعوں کی مستند تفسیر صافی میں امام باقر سے روایت ہے اگر قرآن میں کمی یا زیادتی نہ کی گئی ہوتی تو کسی عقل رکھنے والے پر ہم بارہ اماموں کا حق پوشیدہ نہیں رہتا۔ یعنی قرآن کریم میں کمی واقع ہوئی اور زیادتی بھی ہوئی، اس وجہ سے ہمارے اماموں کے حقوق ذکر نہیں ہے۔
دوسری جگہ لکھتے ہیں اگر قرآن اس طرح پڑھا جاتا جس طرح نازل ہوا تھا تو تم اس میں ہم ائمہ کا تذکرہ نام بنام پاتے۔ یعنی چونکہ قرآن کریم میں کمی اور زیادتی کے ساتھ تحریف ہوئی ہے اس لئے ہمارے ائمہ کا تذکرہ موجودہ قرآن میں نہیں ہے۔
شیعوں نے اپنی کتابوں میں تحریفِ قرآن پر بڑی نظائر اور مثالیں پیش کی ہیں، ان میں سے بطور نمونہ چند یہاں لکھی جاتی ہیں۔
(1) سورۃ بقرہ کی آیت نمبر 23 کے اندر وَاِنۡ کُنۡتُمۡ فِىۡ رَيۡبٍ مِّمَّا نَزَّلۡنَا عَلٰى عَبۡدِنَا فَاۡتُوۡا بِسُوۡرَةٍ مِّنۡ مِّثۡلِهٖ الخ کے بارے میں شیعہ کی اصح الکتب اصول کافی میں امام باقر کی روایت ہے کہ آیت مذکورہ میں فی علیؓ کا اضافہ تھا، جس کو آپﷺ کے بعد قرآن جمع کرانے اور مرتب کرنے والوں یعنی ابوبکرؓ، عمرؓ، عثمانؓ نے نکال دیا ہے۔
(2) سورۃ طٰہ کی آیت نمبر 115 کے اندر وَلَـقَدۡ عَهِدۡنَاۤ اِلٰٓى اٰدَمَ مِنۡ قَبۡلُ فَنَسِىَ کے بارے میں شیعہ اثناء عشریہ کے چھٹے امام، سیدنا جعفر صادقؒ سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ اصل آیت اس طرح ہے ولقد عھدنا الی آدم من قبل کلمات فی محمد و علی و فاطمة والحسن والحسین والاںٔمة من ذریتھم فنسی، ھکذا واللّٰه نزلت علی محمدﷺ:
جس کا مطلب یہ ہے کہ اصل آیت اس طرح تھی، لیکن قرآن مرتب کرنے والوں، سیدنا ابوبکرؓ، سیدنا عمرؓ، سیدنا عثمانؓ نے درمیان سے عبارت نکال دیا ہے۔
(3) سورۃ احزاب کے آخری رکوع میں آیت وَمَنۡ يُّطِعِ اللّٰهَ وَرَسُوۡلَهٗ فَقَدۡ فَازَ فَوۡزًا عَظِيۡمًا: ہے اس کے متعلق: اصول کافی میں سیدنا جعفرؓ سے روایت نقل کرتے ہیں اور لکھتے ہیں کہ اصل آیت اس طرح ہے ومن یطع اللّٰه ورسوله فی ولایة علی والحسن والحسین والاںٔمة من بعدہ فقد فاز فوزا عظیما۔
جس کا مطلب یہ ہوا کہ قرآن سے فی ولایة علیؓ سے لے کر والاںٔمة من بعدہ تک کی عبارت حذف کر دی گئی اسے نکال دیا گیا ہے، اور یہ کام قرآن جمع کرنے والوں نے یعنی سیدنا ابوبکرؓ، سیدنا عمرؓ سیدنا عثمانؓ نے کیا ہے۔
اس طرح کی بےشمار نظائر ہیں، جس سے شیعہ اثناء عشریہ کے ائمہ نے ثابت کیا ہے کہ قرآن میں ہر قسم کی تحریف ہوئی ہے۔ لہٰذا ان کے نزدیک موجودہ قرآن محرف ہے، یہ پورا قرآن نہیں ہے جبکہ عہد صحابہؓ سے لے کر تاحال پوری کی پوری اُمت مسلمہ کا عقیدہ یہ ہے کہ موجودہ قرآن وہی قرآن ہے جس کو حضرت جبرائیلؑ آنحضرتﷺ کے پاس لے کر آئے تھے، اور یہ قرآن تاحال بلا تحریف و تبدیل جوں کا توں موجود ہے۔
تحریف کا عقیدہ قرآن کا انکار ہے، اور قرآن کا انکار صریح کفر ہے۔ اس لئے شیعہ اثناء عشریہ تحریفِ قرآن کا عقیدہ رکھنے کی بناء پر کافر اور دائرہ اسلام سے خارج ہیں جبکہ ان کے اندر دوسرے باطل و فاسد عقائد بہت ہیں۔ اور کافروں کی شہادت مسلمان کے خلاف قابلِ اعتبار نہیں ہے۔
قرآن کریم کے اندر اللہ تعالیٰ جل شانہ کا ارشاد ہے وَاسۡتَشۡهِدُوۡا شَهِيۡدَيۡنِ مِنۡ رِّجَالِكُمۡ گواہ بنا دو تمہارے مردوں میں سے۔
تشریح: آیت میں مؤمنوں خطاب کیا گیا ہے، جس کا مطلب یہ ہوا کہ اے ایمان والو! تم اپنے مؤمنین مردوں میں سے دو گواہ بنا لو۔ جس کے مفہوم سے معلوم ہو رہا ہے کہ کافروں کی شہادت معتبر نہیں ہے، نہ ہی ان کو گواہ بنانا جائز ہے۔
امام ابوبکر حصاصؒ احکام القرآن کے اندر آیتِ مذکورہ کی تفسیر کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ جل شانہ کے قول من رجالکم کی تفسیر یوں ہے گویا اللہ تعالیٰ جل شانہ نے فرمایا من رجال المؤمنین جس کا تقاضہ یہ ہے کہ مسلمانوں کے خلاف شہادت دینے کے لئے ایمان شرط ہے۔
امام ابن الہمامؒ: فتح القدیر شرح الھدایة میں شہادت کی بحث میں رقمطراز ہیں، مسلمانوں کے خلاف کافروں کی شہادت قابلِ قبول نہیں، کیونکہ اللہ تعالیٰ جل شانہ نے فرمایا لَنۡ يَّجۡعَلَ اللّٰهُ لِلۡكٰفِرِيۡنَ عَلَى الۡمُؤۡمِنِيۡنَ سَبِيۡلًا یعنی کافروں کے لئے مسلمانوں کے خلاف کوئی راستہ اللہ تعالیٰ جل شانہ نے نہیں رکھا۔
علامہ ابن عابدین شامیؒ رد المحتار میں لکھتے ہیں پس مدعی اگر مسلمان ہے تو شاہد اور گواہ کیلئے مسلمان ہونا شرط ہے۔ اور رد المختار میں ہے کہ کسی مسلمان کے خلاف کسی کافر کی شہادت قبول نہیں کی جائے گی۔
واضح رہے کہ شیعہ روافض کی شہادت مسلمان کے خلاف ناقابلِ اعتبار ہونے پر نظائر تو بے شمار ہیں، یہاں پر صرف دو نظائر پیش کی جاتی ہیں۔
(1) صاحب: اخبار القضاۃ رقمطراز ہیں کان ابی لیلی لا یجیز شھادۃ الرافضة قاضی عبدالرحمٰن بن ابی لیلی روافض کی شہادت کو ناجائز قرار دیتے تھے۔
(2) وکان شریک لا یجیز شھادۃ الرافضة قاضی شریک روافض (شیعہ) کی شہادت کو جائز قرار نہیں دیتے تھے۔
لہٰذا مسلمانوں کے مقدمات میں معتبر اور دین دار مسلمان گواہ کا پیش کرنا ضروری ہے شیعہ اور روافض کی شہادت قابل قبول نہ ہو گی۔
علاؤہ اس کے یہ ہے کہ شہادت اس شخص کی قبول نہیں ہوتی کہ جو شخص کسی سے عداوت رکھے۔ رسول اکرمﷺ کا ارشاد گرامی ایک طویل حدیث میں ہے ولا ذی غمر لاخیه: وفی حاشیة کذا وقع والصواب ولا غمر لاخیه بالیا، وقد ذکرہ الدار قطنی وصاحب الغریبین بلفظ یدل علی صحة ھذا
ظاہر بات ہے کہ اثناء عشری شیعہ، اہلِ سنت والجماعت سے عداوت رکھتے ہیں، اس لئے ان کی شہادت قابلِ اعتبار نہیں ہے۔
کسی مسلمان کے خلاف شہادت دینے کیلئے یہ شرط ہے کہ گواہ مسلمان ہو، سچا ہو، غیرجانب دار ہو۔ اور شیعہ میں یہ تینوں شرطیں مقبول ہیں۔ لہٰذا مسلمان کے خلاف اس کی شہادت مردود ہے۔
(فتاویٰ بینات جلد 3، صفحہ 542)