رافضی کی نماز جنازہ
رافضی کی نماز جنازہ
سوال: کیا فرماتے ہیں علماء دین اس مسئلہ میں کہ شیعہ کی نمازِ جنازہ میں سنی شرکت ازروۓ شرع کیسی ہے؟ جبکہ 21 دسمبر 1973ء کو روزنامہ جنگ کراچی میں ہمارے بعض علماء کی شرکت خبر شاںٔع ہوچکی ہے۔ لہٰذا اگر شیعہ کی نمازِ جنازہ میں شرکت کرنا شرعاً جاںٔز ہے تو خیر، ورنہ ان علمائے کرام کی شرکت کیا معنیٰ ہے؟
جواب: روافض، جن کے عقائد کفر تک پہنچ چکے ہوں، آج کل اس قسم کے روافض بکثرت موجود ہیں۔ یہ لوگ معاذالله سیدنا علیؓ کی اُلوہیت کے قاںٔل ہیں، سیدہ عائشہ صدیقہؓ پر تہمت لگاتے ہیں، قرآن کریم کو محرف کہتے ہیں، سیدنا صدیقِ اکبرؓ کی صحابیت کا انکار کرتے ہیں، جبکہ قرآن کریم کے نصوصِ قطعیہ ان کے عقائد کے خلاف شاہد عدل ہیں۔ ایسے شخص کی نمازِ جنازہ پڑھنا درست نہیں۔ کیونکہ نمازِ جنازہ کے شرائط میں سے ایک شرط یہ بھی ہے کہ میت مسلمان ہوں،
علاؤہ ازیں نمازِ جنازہ دعا ہے، اور کافر کیلئے دعا کرنا بنص قرآنی حرام ہے۔ علمائے امت نے اہلِ ہوا کی نمازِ جنازہ پڑھنے کو صراحۃً منع فرمایا ہے۔
امام العصر حضرت مولانا علامہ انور شاہ کشمیریؒ نے اپنی کتاب اکفار الملحدین میں سیدنا عبداللہ بن عمرؓ، سیدنا جابر بن عبداللہؓ، سیدنا ابوہریرہؓ، سیدنا ابنِ عباسؓ، سیدنا انس بن مالکؓ، سیدنا عبداللہ بن ابی اوفیؓ، سیدنا عقبہ بن عامر الجہنیؓ کا فتویٰ قدریہ کے بارے میں یہ نقل فرمایا ہے کہ قدریوں کو نہ سلام کرے، نہ ان کی نمازِ جنازہ پڑھی جائے، نہ ان کے بیماروں کی عیادت کی جائے۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا یہ فتویٰ حضور اکرمﷺ کی حدیث کے عین مطابق ہیں:
سیدنا ابنِ عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا منکرینِ تقدیر اس اُمت کے مجوسی ہیں، وہ بیمار پڑیں تو ان کی عیادت نہ کرو، اور وہ مریں تو ان کے جنازوں میں شرکت نہ کرو۔
لہٰذا روافض، قدریہ سے کم نہیں، بلکہ اپنے کفریہ عقائد اور خبث باطنی میں قدریہ سے کہیں زیادہ ہیں، امام دارالہجرۃ سیدنا مالک بن انسؓ نے ان کے حق میں فرمایا کہ روافض اس امت کے مجوسی ہیں۔ اسی طرح ایک موقع پر فرمایا گمراہ فرقوں میں روافض سب سے زیادہ جھوٹے ہیں۔
اگر کسی رافضی کے مندرجہ بالا کفریہ عقائد نہ بھی ہوں تب بھی علماء دین کیلئے ان کی نمازِ جنازہ پڑھنا مداہنت ہے اور قطعاً جائز نہیں۔
رافضی دو قسم کے ہیں۔ ایک وہ جن کے عقائد حدِ کفر تک پہنچ گئے ہوں، ایسے شخص کی نمازِ جنازہ کی نماز اصلاً درست نہیں، کیونکہ نمازِ جنازہ کی شرائط میں میت کا مسلمان ہونا بھی شرط، اور دوسرا وہ جس کے عقائد سے حدِ بدعت تک ہوں، اس کا حکم یہ ہے کہ اگر اس کے جنازہ کی نماز کسی نے نہ پڑھی ہو تب تو پڑھ لینا چاہئے، کیونکہ جنازہ مسلم کی نماز فرض علی الکفایہ ہے، اور کسی نے پڑھ لی ہو مثلاً اس کے ہم مذہب لوگ موجود ہیں اور وہ پڑھ لیں گے تو اس صورت میں اہلِ سنت ہرگز نہ پڑھیں۔
(فتاویٰ بینات جلد 2، صفحہ 417)