Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام
زبان تبدیل کریں:

اسلام اور ملت اسلامیہ کے دشمنوں کا نمازِ جنازہ پڑھنے، اور اُن کو مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کرنے اور اُن سے تعلقات رکھنے کا حکم


اسلام اور ملت اسلامیہ کے دشمنوں کا نمازِ جنازہ پڑھنے، اور اُن کو مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کرنے اور اُن سے تعلقات رکھنے کا حکم

اسلام کی غیرت ایک لمحہ کے لئے یہ برداشت نہیں کرتی کہ اسلام اور ملت اسلامیہ کے دشمنوں سے کسی نوعیت کا تعلق اور رابطہ رکھا جائے۔ قرآن کریم میں ایسے لوگوں کے ساتھ کلیتاً قطع تعلق کا حکم دیا گیا ہے۔ چنانچہ ارشاد ہے:

يٰۤـاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَتَّخِذُوا الۡيَهُوۡدَ وَالنَّصٰرٰۤى اَوۡلِيَآءَ ‌ؔۘ بَعۡضُهُمۡ اَوۡلِيَآءُ بَعۡضٍ‌ؕ وَمَنۡ يَّتَوَلَّهُمۡ مِّنۡكُمۡ فَاِنَّهٗ مِنۡهُمۡ‌ؕ اِنَّ اللّٰهَ لَا يَهۡدِى الۡقَوۡمَ الظّٰلِمِيۡنَ ۞ (سورۃ المائدہ، آیت 51)

ترجمہ: اے ایمان والوں! مت بناؤ یہود و نصارٰی کو معتمد دوست، وہ آپس میں ایک دوسرے کے مخلص دوست ہیں، اور جو کوئی تم میں سے ان کے ساتھ موالات کرے گا (یاد رکھو) انہیں میں سے ہے، بیشک اللہ تعالیٰ بےانصاف قوم کو ہدایت نہیں دیتا۔

اس آیت کے ذیل میں حافظ الحدیث امام ابوبکر الجصاص الرازیؒ لکھتے ہیں کہ اس آیت میں اس امر پر دلالت ہے کہ کافر مسلمانوں کا ولی (دوست) نہیں ہو سکتا نہ تو معاملات میں اور نہ امداد و تعاؤن میں۔ اور اس سے یہ امر بھی واضح ہو جاتا ہے کہ کافروں سے برأت اختیار کرنا اور ان سے عداوت رکھنا واجب ہے۔کیونکہ ولایت، عداوت کی ضد ہے اور جب ہم کو یہود و نصاریٰ سے ان کے کفر کی وجہ سے عداوت رکھنے کا حکم ہے تو دوسرے کافر بھی انہی کے حکم میں ہیں، سارے کافر ایک ہی ملت ہے۔

(احکام القرآن جلد 2، صفحہ 444)

نیز دوسری جگہ حق تعالیٰ جل شانہ کا ارشاد ہے۔

وَاِذَا رَاَيۡتَ الَّذِيۡنَ يَخُوۡضُوۡنَ فِىۡۤ اٰيٰتِنَا فَاَعۡرِضۡ عَنۡهُمۡ حَتّٰى يَخُوۡضُوۡا فِىۡ حَدِيۡثٍ غَيۡرِهٖ‌ ؕ وَاِمَّا يُنۡسِيَنَّكَ الشَّيۡطٰنُ فَلَا تَقۡعُدۡ بَعۡدَ الذِّكۡرٰى مَعَ الۡقَوۡمِ الظّٰلِمِيۡنَ ۞(سورۃ الانعام، آیت 68)

ترجمه: اور جب تم دیکھو ان لوگوں کو کہ جھگڑتے ہیں ہماری آیتوں میں تو اُن سے کنارہ کشی اختیار کر لو، یہاں تک کہ مشغول ہو جائیں کسی اور بات میں، اور اگر بھلا دے تجھ کو شیطان تو مت بیٹھ یاد آجانے کے بعد ظالموں کے ساتھ۔

اس آیت کے ذیل میں حافظ الحدیث امام ابوبکر الجصاص الرازیؒ لکھتے ہیں کہ یہ آیت اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ ہم (مسلمانوں) پر ضروری ہے کہ ملاحدہ اور سارے کافروں سے ان کے کفر و شرک اور اللہ تعالیٰ جل شانہ پر ناجائز باتیں کہنے کی رُوک نہ کر سکیں تو ان کے ساتھ نشست و برخاست ترک کر دیں۔

فقہائے کرامؒ نے لکھا ہے کہ مرتد کو مسنون طریقے سے غسل و کفن دینا ممنوع اور گناہ ہے۔ چنانچہ فتاویٰ خیریہ میں ہے اگر کسی شخص نے کسی غیر مسلم کی تجہیز و تکفین و تدفین میں علماء کے ذکر کردہ اُن اُمور مسنونہ کی رعایت کی جو مسلمانوں کیلئے ہیں، تو وہ گناہ کا مرتکب ہوا۔ کیونکہ بلاشبہ ان تمام اُمور کی رعایت کفار کے حق میں ممنوع ہے۔ اسی طرح کسی کافر کی نمازِ جنازہ پڑھنا بھی جائز نہیں۔ جیسا کہ سورۃ التوبہ میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:

وَلَا تُصَلِّ عَلٰٓى اَحَدٍ مِّنۡهُمۡ مَّاتَ اَبَدًا وَّلَا تَقُمۡ عَلٰى قَبۡرِهٖ ؕ اِنَّهُمۡ كَفَرُوۡا بِاللّٰهِ وَرَسُوۡلِهٖ وَمَاتُوۡا وَهُمۡ فٰسِقُوۡنَ‏

ترجمہ: اور نماز نہ پڑھ اُن میں سے کسی پر جو مر جائے کبھی، اور نہ کھڑا ہو اُس کی قبر پر، وہ منکر ہوئے اللہ تعالیٰ سے اور اس کے رسول سے اور وہ مر گئے نا فرمان۔

اس آیت کے ذیل میں حافظ الحدیث امام ابوبکر الجصاص الرازیؒ لکھتے ہیں کہ اس میں کفار کے موتی پر جنازہ پڑھنے کی ممانعت ہے۔

مسنون طریقے سے کافر کو دفن کرنا بھی جائز نہیں، بلکہ ایسے شخص کو مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کرنا ہی جائز نہیں۔ چنانچہ در مختار هامش رد المختار میں ہے کہ مرتد کی میت کو کتے کی طرح ایک گڑھے میں پھینک دیا جائے۔ علامہ ابن عابدینؒ شامی میں مزید لکھتے ہیں کہ کسی کافر کا اپنے قریبی رشتہ دار مسلمان کی قبر میں (دفن کرنے کی غرض سے) اُترنا بھی ممنوع ہے۔ کفایہ شرح ہدایہ میں ہے کہ چونکہ کافر کی قبر پر اللہ تعالیٰ جل شانہ کی ناراضگی اور لعنت برستی ہے اور مسلمانوں کو ہر لمحہ رحمت الٰہی کے نزول کی ضرورت ہے۔ اس لئے مسلمانوں کے قبرستان کو ان (کافروں کے دفن) سے پاک رکھا جائے۔

فتح القدیر میں ہے کہ اگر کوئی مسلمان مر جائے اور اس کا قریبی رشتہ دار کافر ہو، پھر وہ کافر اپنے مسلمان رشتہ دار کی میت کو لے کر قبر میں نہ اُترے بلکہ عام مسلمان یہ کام انجام دیں۔ چنانچہ لکھتے ہیں اور وہ (کافر) اس کے دفن کا متولی نہیں بن سکتا، بلکہ اس کے بجائے عام مسلمان ہی اس کو دفن کریں۔

اسی لئے فقہائے کرامؒ نے تصریح کی ہے کہ کافروں کو مسلمانوں کے قبرستان میں دفن ہی نہیں کیا جائے گا بلکہ اس کو علیحدہ دفن کیا جائے گا۔ چنانچہ فتاویٰ خیریہ میں ہے عقبہ بن عامر اور واثلہ بن اسقع کہتے ہیں کہ ان کے دفن کی جگہ علیحدہ ہونی چاہئے۔ اور اس طرح کا مضمون (مبسوط جلد 1، صفحہ نمبر 55) میں بھی ہے۔ 

ان عبارات سے ظاہر ہو جاتا ہے کہ کافر اور مسلمان کا ایک ساتھ دفن کرنا قطعاً جائز نہیں ہے۔

امام بخاریؒ لکھتے ہیں کہ مشرکین کی قبریں اُکھاڑ دی جائیں، اس لئے کہ (اسلام میں) ان کا کوئی احترام نہیں، بخلاف انبیاء کرام علیہم السلام اور ان کے متبعین کے، کہ اس میں ان کی توہین ہے۔ 

دوسری جگہ ارقام فرماتے ہیں کہ البتہ کفار کی قبریں اُکھاڑنے میں کوئی حرج نہیں، کیونکہ ان کی توہین کرنےمیں کوئی قباحت نہیں۔

مزید آگے لکھتے ہیں کہ اگر مشرکین کی قبریں ہوں تو اُن کو اُکھاڑ دینا چاہئے، کیونکہ وہ محل عذاب ہیں۔ 

فقہ کی مشہور کتاب مراقی الفلاح میں ہے کہ اگر ضرورت ہو تو حربی کفار کی قبریں اُکھاڑ دی جائیں۔ مندرجہ بالا تمام عبارات کی روشنی میں یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ مرتد کی نعش کا مسلمانوں کے قبرستان سے نکالنا ضروری ہے۔

(فتاویٰ بینات جلد 2، صفحہ 462/470)