اسلام اور شیعیت کا تقابلی مطالعہ
علامہ ڈاکٹر خالد محمود رحمہ اللہاسلام اور شیعیت کا تقابلی مطالعہ
الحمدللہ و سلام و علیٰ عبادہ الذین اصطفیٰ اما بعد:
شیعیت اسلام کی شاخ کے طور پر نہیں اس کے مقابل ایک تحریک ہے کسی مذہب کی برانچیں اس کی فروع ہوتی ہیں ان کے اپنے اپنے اصول نہیں ہوتے جیسے حنفی، مالکی، شافعی اور حنبلی اسلام کی فروغ ہیں اصول و عقائد میں یہ چاروں مذاہب ایک ہیں، یہ چار طریقے ہیں چار فرقے نہیں ہے اختلاف ان فروغ کے شیعیت اسلام کے ایک بالکل برابر کی آواز ہے جس طرح اسلام کے تین اصول ہیں:
- توحید
- رسالت
- آخرت
(حاشیہ: آپﷺ کے پاس ایک عورت آئی کہ اس کی ماں نے ایک مسلمان لونڈی آزاد کرنی تھی مگر وہ چل بسی اب کیا میں اپنی ماں کی طرف سے اس باندی (ایک سیاہ رنگ کی عورت اس کے ساتھ تھی) کو آزاد کر سکتی ہوں حضور اکرمﷺ نے اس سیاہ رنگ عورت سے تین سوال کیے:
اتشهدین اَنْ لَآ اِلٰهَ اِلَّا ﷲُ، کیا گواہی دیتی ہے کہ خدا کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں،
اتشہدین ان مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ ﷲ، کیا تو گواہی دیتی ہے کہ میں اللہ کا رسول ہوں؟
أتوقنين بالبعث بعد الموت، کیا تو یقین رکھتی ہے کہ مرنے کے بعد پھر سے جی اٹھنا ہے؟ اس نے تینوں کا جواب ہاں میں دیا، آپﷺ نے اسے اجازت دی کہ وہ اپنی والدہ مرحومہ کی طرف سے اس لونڈی کو آزاد کر سکتی ہے (دیکھیے سنن کبریٰ للبیہقی: جلد، 7 صفحہ، 388) اس سے معلوم ہوا کہ اسلام میں اصولِ دین تین ہیں،1: توحید 2: رسالت اور 3: آخرت انہی کے اقرار سے کوئی شخص مومن اور مسلمان سمجھا جاتا ہے)
شیعیت کے اصولِ دین پانچ ہیں:
- توحید
- عدل
- رسالت
- امامت
- آخرت
توحید کے ساتھ انہوں نے عدل رکھا اور ذات واجب پر عدل واجب کیا رسالت کے مقابل وہ امامت لائے اور اسے نبوت کی طرح ایک آسمانی عہدہ کہا اور آخرت کے ساتھ انہوں نے رجعت کو جوڑا، تاہم رجعت کو وہ عقائد میں لائے، اصولِ دین ان کے ہاں پنجتن کی طرح پانچ ہی رہے سو شیعیت اسلام کے ماتحت نہیں اس کے مقابل کی ایک الگ تحریک ہے جس کے اپنے اصول ہیں سو شیعہ کے عام مسلمانوں سے اختلافات فروعی نہیں اصولی ہیں۔
اسلام اور شیعیت کے اپنے اپنے ماخذ علم:
اسلام میں کسی عقیدے یا مسٸلے کے اثبات کے لیے 1: قرآن کریم 2: سنت 3: اجماعِ امت 4: قیاس مجتہد سے دلیل لائی جاتی ہے، اجماع اور اجتہاد (3 اور 4) کی ضرورت اس لیے ہوئی کہ آنحضرتﷺ کی وفات بعد کوئی اور مامور من اللہ نہیں تھا جس کی رہنمائی میں امت چل سکے اجتہاد سے آنے والا مجتہد اختلاف کر سکتا ہے اگر اس کا اپنا اجتہاد ہو لیکن وہ (آنے والا مجتہد) اجماع سے اختلاف نہیں کر سکتا اسے پہلے اجماع کو تسلیم کرنا ہی ہو گا کوںٔی اجتہاد اجماع کے خلاف نہیں کیا جا سکتا، جس طرح حافظ ابنِ تیمیہ رحمۃ اللہ کے مسئلہ طلاق میں اجتہاد ائمہ اربعہ کے اجماع کو نہیں توڑ سکا سب اہلِ سنت ایک ہی مؤقف پر رہے کسی نے بھی ابنِ تیمیہؒ کی تقلید نہ کی۔
شیعہ کے ہاں آسمانی ہدایت امامت کے نام سے باقی ہے، اس لیے انہیں نہ اجماع کی ضرورت ہے نہ اجتہاد کی، ان کے لیے نص کا دروازہ ہمیشہ کھلا ہے، ان کے لیے دین، توحید و رسالت اور اتباع اہلِ بیت ہی کا نام ہے، دونوں کے ہاں اپنی اپنی روایات ہیں، ان روایات سے دونوں کے اپنے اپنے ماخذ علم کا پتہ چل جاتا ہے۔
اہلِ سنت کا دوسرا ماخذ علم:
امام مالک رحمۃ اللہ اپنی موطا میں روایت کرتے ہیں کہ حضورﷺ نے کتاب اللہ کے بعد سنت سے تمسک کی تعلیم دی ہے:
عن مالك انه بلغه ان رسول اللهﷺ قال تركت فيكم امرين لن تضلوا ما تمسكتم بهما كتاب الله و سنت رسوله۔
(موطا امام مالکؒ: صفحہ، 63 عربی)
ترجمہ: امام مالکؒ کو حضورﷺ سے یہ بات پہنچی آپ نے فرمایا میں تم میں دو چیزیں چھوڑ رہا ہوں جب تک تم ان سے تمسک کرو گے گمراہ نا ہو گے 1: کتاب اللہ 2: آپﷺ کی سنت
شیعیت کا دوسرا ماخذ علم:
نصر بن عبد الرحمٰن الکوفی زید بن حسن الکوفی صاحب الانماط سے روایت کرتا ہے کہ حضورﷺ نے کتاب کے بعد دوسرا ماخذ علم اپنی عترت کو ٹھہرایا:
انی تركت فيكم من ان اخذتم به لن تضلوا كتاب الله و عترتی۔
(روی الترمذی عن نضر بن عبد الرحمٰن الکوفی: جلد، 2
صفحہ، 219)
ترجمہ: میں نے تم میں دو چیزیں چھوڑیں، اللہ کی کتاب اور اپنے اہلِ بیت
حافظ ابنِ حجرؒ زید بن حسن کے ترجمہ میں لکھتے ہیں:
روی له الترمذی حديثاً واحداً فی الحج۔
(لسان المیزان: جلد، 3 صفحہ، 406)
معلوم نہیں یہ اس کی دوسری روایت جامع الترمذی میں کیسے آ گئی ہو سکتا ہے کہ یہ ایک ہی روایت ہو
جمہور مسلمانوں کا اعتقاد یہ ہے کہ قرآن کتاب ناطق ہے اس کا بعض دوسرے بعض کی تفسیر کر دیتا ہے، اور اس کی عملی شکل سنت سے معلوم ہو جاتی ہے، سنت سبیلِ رسول اور سبیل مؤمنین دونوں کا نام ہے جن کا خلاف شقاقِ رسول سمجھا گیا ہے، جمہور اہلِ اسلام کے ہاں یہ کتاب (قرآن) کتاب ناطق ہے سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ حضورﷺ نے فرمایا:
لكل اية منها ظھر و بطن ولكل حد مطلع۔ (رواه البغوى فى الشرح السنۃ)
ترجمہ: اور شیعہ کے عقیدے میں ہے کہ یہ قرآن ایک کتاب صامت ہے یہ ایک خاموش کتاب ہے اس کی طرف سے اہل بیت بولتے ہیں اور ان کے بول سے دین متعین ہوتا ہے سب ائمہ ایک ہی چشمہ سے بولتے ہیں اور کسی امام کی بات کی علی التعین ضروری نہیں جس کی بھی بات ہو وہ عین دین سے ہے، حکم امام ہے انہوں نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے نام سے یہ بات وضع کی ہے۔
صامت کا ایک یہ بھی معنی ہو سکتا ہے کہ دنیا کے کسی کونے میں کوئی خاموش بیٹھا ہوا ہو اور امام غائب کی طرف سے آئے سفراء اس کی طرف سے بولتے رہیں شیعہ کے ہاں اسی سے راہِ اہل بیت قائم ہوتی ہے۔
جمہور اہلِ اسلام کے ماخذ علم:
جمہور مسلمانوں کے ماخذ علم پہلے دور میں یہ سمجھے جاتے ہیں:
1: موطا امام مالکؒ (179ھ)
2: موطا امام محمدؒ (189ھ)
3: کتاب الآثار امام محمدؒ
4: کتاب الام امام شافعیؒ (204ھ)
5: المصنف عبد الرزاقؒ (210ھ)
6: المصنف ابنِ ابی شیبہؒ (235ھ)
پھر علمِ حدیث باقاعدہ مرتب ہوا اور اس نے ایک فن کی شکل پائی اس دور کی یہ چھ کتابیں صحاح ستہ کہلائیں:
1: صحیح بخاری (256ھ)
2: صحیح مسلم (261ھ)
3: سنن ابی داؤد (275ھ)
4: سنن نسائی ( 303ھ)
5: جامع ترمذی (379ھ)
6: سنن ابنِ ماجہ (275ھ)
پھر عموم روایت میں یہ چھ ائمہ حدیث نمایاں ہوئے:
1: امام احمدؒ (241ھ)
2: امام دارمیؒ (255ھ)
3: امام طحاویؒ (328ھ)
4: امام طبرانیؒ (360ھ)
5: امام حاکمؒ (405ھ)
6: امام بیہقیؒ 458ھ)
شیعیت کے ماخذ علم:
اثناء عشری شیعوں کے ماخذ علم شروع سے ہی عام مسلمانوں سے جدا رہے ان کے ہاں طریق اھل بیت جن چار کتابوں سے قائم ہوا، انہیں اصولِ اربعہ کہتے ہیں ان کی ان چار کتابوں کا نام صحاحِ اربعہ نہیں اصولِ اربعہ ہیں، صحاح ستہ روایات کا مجموعہ ہیں اور کہیں کہیں ان میں فقہ بھی دی گئی ہے، مگر اہلِ سنت کے مذاہبِ اربعہ صحاح ستہ کے لکھے جانے سے پہلے مرتب ہو چکے تھے چوتھے مذہب کے امام احمد بن حنبلؒ (241ھ) صحاح ستہ کی پہلے امام بخاریؒ (265ھ) کے استاد تھے، اس لیے اہل سنت کے ہاں ان کتابوں کو اصول نہیں کہا گیا اصول مجہتدین کے بیان سے قائم ہوتے ہیں ان اماموں کے بیان سے نہیں جنہوں نے حدیث کی کتابیں مرتب کیں شیعہ کے ہاں امام آسمانی امامت کے حامل ہیں وہ کسی حدیث کی کتاب کی تصدیق کر دیں تو اب وہ کتاب صرف روایات کا مجموعہ نہ رہے گی اصول کے طور پر قبول کی جائے گی اور اس کے کسی راوی کے ضعف و ثقایت پر بحث نہ ہو گی یہی وجہ ہے کہ شیعہ اپنے حدیث کے ان چار مجموعوں کو اصولِ رابعہ کہتے ہیں یہ ان کے تین محمدوں کی تالیف ہیں ان میں پہلی کتاب کی تصدیق غیبت صغریٰ کے بعد بارہویں امام کر گئے بارہویں امام نے فرمایا، ھذا کاف لشیعتنا، یہ ہمارے شیعوں کے لیے کافی ہے۔
1: الکافی للکلینی (328ھ) یہ اصول کافی، فروع کافی اور روضہ کافی کا مجموعہ ہے اور آٹھ جلدوں میں ہے۔
2: من لا یحضرہ الفقیہ، لابن بابویہ القمی (371ھ)
3: تہذیب الاحکام، محمد بن حسن الطوسی (460ھ)
4:الاستبصار، محمد بن حسن الطوسی (460ھ)
دور اول میں ان کی یہی چار کتابیں اصول کے درجے میں معروف تھیں سولہویں صدی میں ایران پر صفوی خاندان کی حکومت قائم ہوئی اور پوری مملکتِ ایران کو ایک شیعہ سٹیٹ قرار دے دیا گیا پہلے ایران میں تین چوتھائی حنفی مسلمان تھے شیعہ اقلیت میں تھے اب پورے ملک کو بجبر شیعہ کر لیا گیا اور اہلِ سنت وہاں صرف 30 فیصد کے قریب رہ گئے۔
طہران یونیورسٹی کے پروفیسر سعید نفیسی لکھتے ہیں:
بادشاہانِ صفوی کی توجہ و عنایتی خاص بانتشار دین شیعہ واشتہ اند نظر باینکہ اکثریت مردم و ایران پیش ازاں حنفی بودہ اند عدہ کافی مبلغ و پیشوائی دینی برائے انتشار طریقہ شیعہ دزا ایران نیافتہ اند (تاریخچہ تکامل نثر فارسی)
شیعہ کے اس دور کے علماء حدیث:
محمد بن علی الموسوی، الموسوی (1009ھ) زین بحرانی (1021ھ)، محمد امین استر آبادی (1028ھ)، قاضی نوراللہ شوستری (1019ھ)، زین الدین عاملی (1030ھ)، محمد امین استر آبادی (1041ھ)، میر محمد باقر داماد (1041ھ)، ملا تقی مجلسی (1070ھ)، ملا محسن کاشانی (1090ھ)، ملا فیض الوافی (1091ھ)، محمد بن حسن الحر العاملی (1104ھ)، ملا باقر مجلسی ( 1110ھ)، ملا فیض کاشانی (1113ھ)، نعمت اللہ الجزائری (1114ھ)، رضا تبریزی ( 1158ھ)
دوسرے شیعہ فرقوں کے ماخذ علم:
شیعہ کا سب سے بڑا فرقہ اثناء عشری شیعہ ہیں ان کا دوسرا بڑا فرقہ اسماعیلی ہے، یہ دو امام غائب اور امام حاضر کے پیروؤں کے طور پر ایک دوسرے سے ممتاز ہوتے ہیں، اثناء عشری اور اسماعیلی سیدنا جعفر رحمۃ اللہ تک مشترک ہیں چھ اماموں تک یہ یکساں چلے ہیں، سیدنا جعفر رحمۃ اللہ نے اپنے بیٹے اسماعیل کو ساتواں امام نامزد کیا لیکن ساتواں امام چھٹے کی وفات سے پہلے راہی ملک بقا ہوا، اب چھٹے امام نے اپنے دوسرے بیٹے موسیٰ کاظم کو جانشین نامزد کیا اور سیدنا موسیٰ کاظمؒ سے اثناء عشری سلسلہ چلا اور اسماعیل کو ساتواں امام ماننے والے یہ تسلیم نہیں کرتے کہ سیدنا جعفر رحمۃ اللہ نے موسیٰ کاظم کو جانشین مقرر کیا ہو وہ کہتے ہیں خدائی نظام میں غلطی نہیں لگتی یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ خدا کو آسمانی امامت کی ترتیب میں اتنی بڑی غلطی لگے، اسماعیلی سیدنا اسماعیل کے نام سے اب تک امام حاضر کے عقیدہ سے چل رہے ہیں اور اس وقت آغا خان ان کے حاضر امام ہیں، جب یہ امام حاضر کے قائل ہیں تو ظاہر ہے کہ انہیں کسی حدیث کی کتاب کی ضرورت نہیں، نہ یہ ضرورت ہے کہ ان میں کوئی مسائل اجتہاد سے حل کیے جائیں عقیدہ اور اس کی جو بات یہ جاننا چاہیں ان کا حاضر امام ان کی رہنمائی کرتا ہے قرآن ان کے ہاں بھی کتابِ صامت ہے اور حاضر امام اس کی طرف سے بولتا ہے یہ نہ کسی امام غار کے انتظار میں ہیں اور نہ یہ کسی ایسے قرآن کے قائل ہیں جو کسی غار میں محفوظ دھرا ہو، ان کا دین و ایمان اپنے امام حاضر کے نام سے قائم ہے، سیدنا جعفر صادق رحمۃ اللہ تک یہ دونوں ایک رہے اس لیے فقہ جعفری پر دونوں متفق ہیں، اثناء عشریوں کے ہاں فقہ جعفری کتابوں میں منضبط ہے اور اسماعیلیوں کے ہاں یہ امام حاضر کے قول و فعل میں جذب ہے اسے ہی یہ لوگ فقہ جعفری کہتے ہیں۔
اہل سنت کے مقابل صرف اثناء عشری رہے:
اہلِ سنت کے مقابل علمی میدان میں صرف اثناء عشری رہے ہیں اور انہی سے ان کے عملی معرکے لگے یہی دو کتابوں والے گروہ ہیں جن کی اپنی اپنی کتابیں ہیں، اہلسنت کے ہاں اثناء عشریوں کی تمام کتابیں وضعی ہیں اور شیعہ (اثناء عشریہ) کے ہاں اہل سنت کی کتابیں اثناء عشری فرقہ قائم ہونے سے بہت پہلے مرتب ہو چکی تھیں، ان کے گیارہویں امام (260ھ) میں فوت ہوئے اور اہلِ سنت کے امام بخاریؒ (256ھ) میں فوت ہوئے، ایران کے شیعہ زیادہ اثناء عشری عقیدہ کے ہیں اور عراق میں بھی ان کی علمی درسگاہیں ہیں ان کا قم کا مدرسہ بھی یہیں ہے اور کربلا بھی یہیں ہے جس کے زائرین کربلائی کہلاتے ہیں نجف اشرف بھی یہیں ہے جہاں ان کے ہاں سیدنا علی المرتضیٰؓ مدفون ہیں،
اکابر ائمہ اہلِ سنت میں سب سے پہلے حضرت شیخ عبدالقادر جیلانیؒ (561ھ) ان کے مقابل پر تول کر نکلے اور غنیتہ الطالبین میں ان پر پوری جرح کی بھر شیخ الاسلام حافظ ابنِ تیمیہؒ (728ھ) ابنِ مطہر الحلی (762ھ) کے مقابل صف آرا ہوئے اور منہج الکرامہ کے جواب میں منہاج السنہ چار جلدوں میں لکھی، ان دو کتابوں کا یہ اثر ہوا کہ عربوں میں شیعہ عقائد کہیں بھی قبولیت نہ پا سکے وقت گزرتا گیا یہاں تک کہ ایران میں انہوں نے تین چوتھائی حنفی مسلمانوں کو بزورِ حکومت اثناء عشری بنایا اور صفوی عہد میں ایران ایک شیعہ سٹیٹ بن کر سامنے آیا، پھر اثناء عشریوں اور ترکوں میں یہ معرکہ آرائی ہوئی لیکن عرب دنیا اس سے واقف ہو چکی تھی کہ سیدنا علیؓ سیدنا زین العابدینؒ سیدنا جعفرؒ سیدنا رضاؒ جو اہلِ سنت کی ممتاز شخصیات ہیں ان کے نام سے ایک نیا مذہب گھڑ لیا گیا ہے۔
برصغیر پاک و ہند میں بادشاہ جہانگیر کی ملکہ نور جہاں شیعیت لانے کی وجہ بنی اور اس نے قاضی نور اللہ شوشتری کو ہندوستان بلوایا سلسلہ چشتیہ کے روحانی بزرگ ان دنوں سر زمین ہند پر اپنی توجہات کا پہرہ دے رہے تھے شیخ سلیم فیضی کی نظر فیض اثر جہانگیر پر کام کر گئی اور اس نے برملا نور جہاں
کو کہا کہ خانم ترا جان دادم ایمان نہ دادم
تاریخ اسلام کے دوسرے ہزار سال کا آغاز ہو چکا تھا، پاک و ہند کی علمی سرحدوں پر اس دور ہزار سال کے پہلے مجدد امام ربانی مجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندیؒ پورے فاروقی جلال کے ساتھ چمکے اور اثناء عشریوں کے خلاف ردِ رفضہ لکھ کر اس برصغیر میں حق کی حجت تمام کی، پھر بارہویں صدی کے مجدد امام شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ گیارہویں صدی کے اس مجدد اعظم شیخ احمد سرہندیؒ (1034ھ) کے نقش قدم پر چلے اور حق و باطل کا یہ تصادم اب تک قائم ہے۔
ستیزہ کار رہا ہے ازل سے تا امروز
چراغ مصطفوی سے شرار بولہبی
یہاں اس وقت ان علمی معرکوں کا علمی تجزیہ پیشِ نظر نہیں نہ ان کی تاریخ بیان کرنا مقصود ہے، ہم یہاں صرف یہ بتانا چاہتے ہیں کہ شیعیت کی جب کہیں کوئی علمی نمائندگی ہوئی وہ اثناء عشریوں نے ہی کی اور شیعوں کا کوئی اور فرقہ سوادِ اعظم کے مقابلے میں نہیں اٹھا، اسماعیلی ہوں یا بوہرے علمی میدان میں یہ ہمیشہ خاموش رہے ہیں اور ان کی طرف سے بد اخلاقی کے بھی کبھی وہ مظاہرے نہیں ہوئے جو اثناء عشریوں کے ہاں تبرا کے نام سے ایمان کی جان سمجھے جاتے ہیں۔
اثناء عشریوں کے ہاں کل عترت رسول اہل بیت نہیں:
جس طرح لفظ شیعیت کو واضح کرنے کی ضرورت تھی کہ اس سے مراد اثناء عشری شیعہ ہیں نہ کہ اسماعیلی یا بوہرے یا چھوٹے شیعہ، اسی طرح یہ بھی ضروری ہے کہ ہم لفظ عترت کی بھی کچھ وضاحت کر دیں،اہلِ سنت کے ہاں آنحضرتﷺ کی کل اولاد عترتِ رسول ہے اور یہ سب واجب المحبت ہیں، ان سے محبت ان کے کسی کردار کے باعث نہیں محض خاندانی نسبت سے ہے، ان میں جو صالح عمل کے لوگ ہیں ان سے محبت اللہ کے لیے ہے اور جو گناہ گار ہیں ان سے محبت اور خیر خواہی نسبت رسالت کی وجہ سے ھے سونا گندے نالے میں بھی جا گرے تو وہ سونا ہی رہتا ھے محل نفرت نہیں ہو جاتا، سو اہلِ سنت کے ہاں کل سادات لائقِ احترام اور لائقِ محبت ہیں۔
شیعہ اپنے عقیدے میں اہلبیت رسالت کو ثقلین میں سے ثقل ثانی اور پوری امت کے لیے واجب التمسک قرار دیتے ہیں نہ کہ انہیں صرف لائق محبت جانتے ہیں، اور ظاہر ہے کہ تمسک محدود شخصیات سے تو ہو سکتا ہے جن کی گنتی کی جا سکے نا کہ لا محدود شخصیات سے ان کی پیروی عقلاً اور نقلاً محال ٹھہرے گی خصوصاََ جبکہ وہ آپس میں بھی مختلف آراہوں اور ان کے نیک اور بد سبھی قسم کے لوگ پائے جائیں، اہلِ سنت کے ہاں یہ حدیث تھی کہ میں تم میں دو چیزیں چھوڑ رہا ہوں1: کتاب اللہ اور 2: اپنی سنت جب تک تم ان سے تمسک کرو گے گمراہ نہ ہو گے شیعوں نے اس کے مقابل اسے یوں پیش کیا کہ وہ دونوں چیزیں یہ ہیں 1: کتاب اللہ اور 2: میرے اہل بیت۔ اب ظاہر ہے کہ اہلِ بیت سے تمسک کی تعلیم دی جا رہی ہے اور ان کی پیروی لازم کی جا رہی ہے نہ کہ یہ ان سے موانست اور حسنِ سلوک کی تلقین ہے، واجب التمسک ہونا اور بات ہے اور لائق محبت ہونا اور بات ہے، اس صورت میں اثناء عشری مجبور ہوئے کہ سب سادات کو اھل بیت میں جگہ نہ دیں کیونکہ سادات تو قیامت تک ہوتے رہیں گے، اب ان سب کی پیروی کیسے کی جا سکے گی لہٰذا ان کو بارہ شخصیات میں محدود کر دیا جائے کہ یہی لائق تمسک ہیں اور یہی واجب الاطاعت، انہی کی زندگی تمہارے لیے سنت ہے اور یہی تمہارے ائمہ اطہار ہیں، اس توجیہ سے ان بارہ کی حیثیت سے تو واقعی بہت اونچی ہو گئی لیکن ان کے بعد آنے والے جملہ سادات کی حیثیت بہت کم ہو گئی انہیں اہلِ بیت سے ہی نکال دیا گیا اب ان کے ہاں عام سید اہلِ بیت سے نہیں۔
اہلِ بیت میں نہ ہونے پر کیا وہ سید رہے:
سیّد سردار کو کہتے ہیں سردار اس کو کہتے ہیں جس کا کسی حلقے میں حکم چلے یہ کیسے سیّد ہیں جن کو کسی حلقے میں بھی سردار نہ مانا جائے گاؤں کا نمبردار ہی گاؤں میں بڑا سمجھا جاتا ہے اور یہ نام کے سیّد اپنے گاؤں کے امور میں اس نمبردار کے ماتحت ہوں گے اور پھر یہ لوگ اعتقاداً بھی صرف بنو فاطمہ کو سیّد نہیں کہتے کل اولادِ ہاشم جن پر صدقہ حرام ہے انہیں بھی یہ سادات میں شمار کرتے ہیں گو وہ سیدنا جعفرؓ بن ابی طالب کی اولاد میں سے ہوں یا سیدنا عباسؓ بن عبدالمطلب کی اولاد میں سے ہوں نجف اشرف کے مجتہد ملا کاظم خراسانی کے فتاویٰ ذخیرۃ العباد کے نام سے جمع ہو چکے ہیں اور ان کا اردو میں بھی ترجمہ ہو چکا ہے اس میں ہے:
سوال: آیا سادات میں شرط ہے کہ پیغمبر کے دادا حضرت ہاشم کی اولاد سے ہوں؟
جواب: شرط ہے اگرچہ حضرت امیر المؤمنین علیؓ بن ابی طالب کی اولاد سے نہ ہوں۔
اہلِ سنت کے ہاں بھی سیّد صرف بنو فاطمہ نہیں، مولانا کرامت علی اپنے رسالہ حق الیقین میں لکھتے ہیں کہ جملہ بنو ہاشم سیّد ہیں۔
اس کھانے کا کھانا محتاجوں کو درست ہے غنی لوگ اور بنو ہاشم یعنی سیّد کو درست نہیں (ذخیرہ کرامت: حصہ، 2 صفحہ، 266)
سید ہونا ایک وصفی عزت ہے یہ کوئی نسلی ملت نہیں:
آنحضرتﷺ نے لفظ سید کو ایک وصفی عزت دی ہے آپﷺ نے اس لقب کو بڑے لوگوں کی رسائی سے محفوظ بنایا ہے، ان پر یہ لفظ کسی طرح نہ آ سکے گا، حضرت بریدہؓ کہتے ہیں، آنحضرتﷺ نے فرمایا!
لا تقولوا للمنافق سیّد فانه ان یک سیّد فقد اسخطتم ربکم عزوجل (سنن ابی داؤد: جلد، 2 صفحہ، 324 اسنادہ صحیح جامع اصول: جلد، 11 صفحہ، 732)
ترجمہ: تم کسی منافق کو سید نہ کہنا وہ اگر ایسا ہو تو تم نے ایسا کہہ کر اپنے پروردگار کو غصے میں کر دیا۔
اس سے پتہ چلا کہ کسی بے دین کو سیّد نہیں کہا جا سکتا غلام اپنے آقا کو سید کہہ سکتا ہے اس سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے کہ سید ایک وصفی عزت ہے اگر یہ کسی خاندان کے لیے نشان ہوتا تو حضور اکرمﷺ اسے عام لغوی معنی میں جاری نہ فرماتے آپ نے یہ بھی فرمایا! قوموا الی سیّدکم اور آپﷺ کا اشارہ سیدنا سعد بن عبادہؓ کی طرف تھا جو انصار کے نہ تھے، حضور اکرمﷺ نے حضرت حسنؓ کو سید کہا تھا تو آپ نے یہ وصفی عزت اسے اس بڑے کردار پر دی کہ انہوں نے مسلمانوں کے دو گروہ جو ایک دوسرے سے جدا ہو چکے تھے اور ملتِ اسلامی دو ٹکڑے ہو کر رہ گئی تھی پھر سے جمع کیا اور سلطنت ایسے ہاتھوں میں دے دی جو اسلام کی سیاسی شوکت قائم کرنے میں اس وقت کا صحیح انتخاب تھے، سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں نبی کریمﷺ نے فرمایا:
ابنی ھذا سیّد ولعل اللہ ان یصلح به بین فئتین من المسلمین(صحیح البخاری: جلد، 1 صفحہ، 530)
ترجمہ: میرا یہ بیٹا سید ہے ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس سے مسلمانوں کی دو (بڑی) جماعتوں میں صلح کرا دے۔
تاریخ گواہ ہے کہ حضرت حسنؓ دو جماعتوں کا ایک کرنے میں سرداری لے گئے شعیہ حضرات نے ہمیشہ اس ٹائیٹل کو ایک نسلی امتیاز سمجھا ہے اور پھر اس میں اتنی ٹھوکر کھائی کہ وہ اسے سیدہ فاطمہؓ کی اولاد سے بھی خاص نہ کر سکے، ہم نے یہ وضاحت اس لیے کی ہے کہ اہلِ سنت حضرات ان لوگوں کے ہاں لفظ سید کے عام استعمال سے کوئی لفظی امتیاز نا سمجھنے لگیں نہ انہیں اولادِ سیدہ فاطمہؓ میں سے جانیں،
اسلام اور شیعیت کے تقابلی مطالعہ میں جس طرح ہم نے اسلام کی یہ وضاحت کر دی یہ کہ دو سلسلے اسلام کی دو شاخیں نہیں بلکہ ہر دو فریق کے اپنے اپنے اسلام ہیں ہر دو فرقے ایک دوسرے سے اپنے اپنے علمی ماخذ میں جدا جدا ہیں انہیں دو برابر کے عقیدے کہا جا سکتا ہے ایک اصول کی دو فروع (شاخیں) نہیں کہا جا سکتا نہ ان کے اختلاف فروعی اختلاف ہے، اسی طرح ہم نے لفظ شیعیت کی بھی وضاحت کر دی ہے کہ ہمارے ان مباحث میں اس سے مراد اثناء عشریہ شیعہ ہیں نہ اسماعیلی یا بوہرے، جن کے اپنے علیحدہ کوئی علمی ذخائر نہیں حاضر امام نے انہیں ہر فقہ اور ہر اجتہاد سے فارغ کر رکھا ہے۔
شیعہ کے علمی ذخائر میں دو گونہ(دُہری) روایات:
اثناء عشری شیعوں نے پوری دنیا کے علمی ذخائر سے ایک بڑا اختلاف کر رکھا ہے، دنیا کے ہر مذہب اور ہر تہذیب میں راستی کو ہی درست سمجھ گیا ہے، علم انسان کو اندھیرے سے نکالتا ہے، علم کا اپنا کوئی اندھیرا نہیں ہوتا، اثناء عشریوں نے اپنے علمی ذخائر میں علم کو اندھیروں سے ملایا ہے اور روایات صادقین (ائمہ اہلِ بیت) کو اندھیروں میں پرورش دی ہے، اس کے نتیجہ میں ان کے ہاں علم موجبِ رسوائی ٹھہرا اور انہوں نے علم کو چھپانے میں عزت محسوس کی، سیدنا جعفرؒ کے نام سے اپنے اصول یہ بات ڈالی:
یا سليمان انكم علیٰ دين من كتمه اعزّه الله ومن اذاعه اذلّہ الله (اصولِ کافی مع شرح: جلد، 3 صفحہ، 336)
ترجمہ: اے سلیمان تم ایک ایسے دین پر ہو جو اسے چھپائے گا اللہ اسے عزت دے گا اور جو اسے عام کرے گا اللہ اسے ذلیل کرے گا۔
کیا یہ بات سیدنا جعفر صادقؒ نے فقہ جعفری ترتیب دینے کے لیے کہی کہ صحیح دین پیش نہ کیا جائے یا شیعہ مذہب کی یہ اساس شروع سے رہی ہے کہ ظاہر میں وہ دین پیش کرو جو تمہارا اصل دین نہ ہو؟
ملا یعقوب الکلینی نے سیدنا باقرؒ کے نام سے یہ روایت وضع کی:التّقیۃ من دينی و من دين اٰبائى ولا ايمان لمن لا تقية له۔
(اصولِ کافی مع شرح: صفحہ، 331)
ترجمہ: تقیہ کرنا میرا دین ہے، اور میرے آباء کا بھی یہی دین تھا اور جو تقیہ نہ کر پائے اس کا ایمان کیسے قابلِ اعتبار ہو سکتا ہے؟
تقیہ کب کیا جائے جب کسی جابر کے جبر کا ڈر ہو، کسی ظالم سے کوئی اندیشہ ہو؟ نہیں یہ ہمیشہ کے لیے واجب ہے اور اس وقت تک یہ حکم قائم رہے گا جب تک امام آخر الزمان کا ظہور نہیں ہو جاتا، شیخ صدوق اسے اپنے عقائد میں یہ جگہ دیتا ہے:
التقيه واجبه لا يجوز رفعها الى ان يخرج القائم فمن تركها قبل خروجه فقد خرج عن دين الله وعن دين الاماميه
ترجمہ: تقیہ واجباتِ دین میں سے ہے یہ حکم اس وقت تک نہیں اٹھ سکتا جب تک قائم آل محمد (امام مہدی) نہ نکلیں جس نے ان کے آنے سے پہلے تقیہ چھوڑ دیا وہ اللہ کے دین سے اور شیعہ مذہب سے نکل گیا۔
اس سے پتہ چلتا ہے کہ یہ لوگ تقیہ کو رخصت نہیں سمجھتے، اسے عزیمت کا درجہ دیتے ہیں، اسے ایک وقتی ضرورت نہیں سمجھتے، اسے تا ظہور قائم ایک مسلسل عمل قرار دیتے ہیں، ظاہر ہے کہ اب ان کا دینی لٹریچر تضادات کے ایک مجموعہ کے سوا اور کچھ نہ ہو سکے گا اور شیعہ مذہب شیعوں کو کتابوں سے نہیں ان کے زندہ مجتہدین سے ملے گا، وہ جس روایت کو چاہیں موقع کے مطابق ترجیح دے دیا کریں۔
کس کا یقین کیجئے کس کا یقین نہ کیجئے
لائے ہیں بزم یار سے لوگ خبر الگ الگ
اسی وجہ سے یہ اس عقیدہ پر مجبور ہوئے کہ فوت شدہ مجتہد علماء کی تقلید جائز نہیں، صرف زنده علماء کی تقلید کی جائے، نجف اشرف کے مجتہد ابو القاسم الموسوی الخوئی کے فتاویٰ منہاج الصالحین کے نام سے بیروت کے مطبع دار الزہراء سے چھپے ہیں، اس میں مسئلہ 12 اس طرح دیا گیا ہے:
اذا بقى على تقليد الميت غفلةً او مسامحۃً من دون ان يقلد الحی فی ذلك كان كمن عمل من غير تقليد و عليه الرجوع الى الحی فی ذلك (منہاج الصالحین: جلد، 1 صفحہ، 12 طبع، 22)
ترجمہ: جب کوئی شخص غفلت اور سستی سے کسی فوت شدہ کی تقلید پر جما رہا اور اس نے کسی زندہ مجتہد کی تقلید نہ کی، وہ اس دور میں غیر مقلد رہا، اس کے ذمہ ہے کہ اب وہ کسی زندہ مجتہد کی طرف رجوع کرے۔
اس اصول کی رو سے اثناء عشری علماء جو اس دنیا سے جا چکے، ان کے تمام فتاویٰ کالعدم ہو گئے اور ان کا وہی دین و ایمان رہ گیا جو ان کے زندہ علماء بیان کریں، ظاہر ہے کہ یہ وہ چکر ہے جس نے پورے کے پورے مذہب کو شکوک و شبہات اور بے سند روایات پر لا کھڑا کیا ہے، پہلے تقیہ نے اس مذہب کی آدھی جان لے لی تھی اب باقی ماندہ اس اصول نے لے لی، کہ مفتی کے فوت ہوتے ہی اس کے تمام فتوے فوت ہو جاتے ہیں، اس صورتِ حال میں یہ اثناء عشری شیعہ بھی تقریباً اسی سٹیج پر آ گئے جس پر اسماعیلی شیعہ پہلے سے کھڑے تھے کہ ایک حاضر امام کے ہوتے انہیں نہ کسی کتاب کی ضرورت ہے نہ کسی اجتہاد کی۔
عشق کی ایک جست نے سب کر دیا قصہ تمام
ورنہ اس کو علم کا اک سلسلہ سمجھا تھا میں
مشترکہ مجالس میں اپنی کتابوں سے لا تعلقی:
سرکاری مجالس میں حکام کبھی دو فریقوں کو بھی بلا لیتے ہیں ان میں کچھ خوش آہنگی پیدا ہو اور ایک ملک میں رہنے والے مختلف مذاہب کے لوگ آپس میں زیادہ کشیدگی میں نہ رہیں آپ نے ایسی مجالس کو ضرور دیکھا ہو گا جن میں سنی شیعہ کے مابین کبھی مصالحت کی کاروائی ہوتی ہے ایسے موقع پر جب شیعہ علماء کو ان کی کتابیں دکھائی جائیں تو وہ بڑی مستعدی سے اپنی کتابوں سے بے نیازی اور لا تعلقی ظاہر کرتے ہیں اور حکام کو کہتے ہیں کہ یہ کتابیں صحیح نہیں ان میں بہت سی غلط روایات بھی موجود ہیں زیادہ بہتر یہی ہے کہ ان کو چھیڑا نہ جائے ورنہ ان سے خلیج اختلاف اور زیادہ وسیع ہو گی پھر حکام بھی ان کی دلجوئی کرتے ہیں اور افسران کے روبرو ان کو اپنی کتابیں دیکھنے کی ہمت نہیں ہوتی، ایسا کیوں؟ یہ اس لیے کہ یہ کتابیں تقیہ پر مبنی روایات اور فوت شدہ علماء کے فتاویٰ سے لا تعلقی برتنے کی ہدایات کے باعث اپنی افادیت کھو چکی ہیں ان سے مصالحت کی جو بات ہوتی ہے زبانی کلامی ہوتی ہے اور اس بات کو کبھی سامنے نہیں آنے دیا جاتا کہ یہ ایک دوسرے سے لا تعلقی تبرا اور اظہارِ برأت کیسے ان کے مذہب کا اصول بن گیا ہے۔
ان كنت لا تدرى فتلك مصيبة
وان كنت تدری فالمصيبة اعظم
علم سے بے نیازی انہیں کہاں تک لے گئی:
اپنی تاریخ سے بے خبری اور علم سے بے نیازی انہیں کہاں تک لے گئی اہلِ علم اس کا تصور نہیں کر سکتے کہ کوئی جماعت اپنے بانی کے تاریخی وجود کا انکار کر دے شیعی فکر کا بانی (ایک یہودی) عبداللہ بن سباء سیدنا عثمانؓ کے دورِ خلافت میں یمن سے نمودار ہوا اس نے آسمانی امامت کا بیج بویا، تاہم اثناء عشری عقیدہ کی بناء چونکہ بارہ اماموں پر تھی اس لیے یہ مذہب گیارہویں حسن عسکری (260ھ) کی وفات کے بعد تدوین کی منزل میں آیا اور چوتھی صدی کے شروع میں ان کے اصولِ اربعہ میں سے پہلا اصول الکافی للکلینی (328ھ) مرتب ہوا ان کے ہاں چار سو دستاویزات تھیں جن سے اس نے ترتیب پائی، سو شیعی فکر اور شیعی مذہب میں تقریباً تین صدیوں کا تاریخی فاصلہ ہے شیعی فکر عبداللہ بن سبا کی سربراہی میں سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی خلافت کے آخری دو سالوں میں پیدا ہو چکی تھی البتہ شیعی مذہب چوتھی صدی ہجری میں مرتب ہوا۔
عبداللہ بن سبا کے تاریخی وجود سے انکار:
عبداللہ بن سبا کے تاریخی وجود سے انکار تاریخ سے ایک کھلا مذاق ہے، یہ اسی طرح ہے جیسے مرزا حیرت دہلوی نے ایک دفعہ کہا تھا کہ واقعہ کربلا تاریخ میں کبھی نہیں ہوا یہ لوگوں کی اپنی اختراع ہے سیدنا حسینؓ تو اپنی طبعی وفات سے مدینہ میں فوت ہوئے لڑنے والے کے تو ہاتھ روکے جا سکتے ہیں مگر بولنے والے کی زبان نہیں روکی جا سکتی وہ کتنا ہی غلط نہ بول رہا ہو۔
صحیح بخاری پختگی ثبوت میں تاریخ بنی آدم میں ایک بے مثال تالیف ہے اس کے مطالب سے اختلاف ہو سکتا ہے لیکن اس کے ثبوت میں نہیں، اس میں ایک زندیق (عبداللہ بن سبا) کا سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے حکم سے مارا جانا صریح طور پر مذکور ہے، یہ صحیح ہے کہ اثناء عشری مذہب اس کی وفات کے مدتوں بعد بنا لیکن اس میں شک نہیں کہ اثناء عشریوں کے عقائد انہی اصولوں پر مرتب ہوئے جو ابن سباء نے پھیلائے تھے یہی وجہ ہے کہ ہمیشہ سے سبائی اور اثناء عشری ناموں کا مصداق ایک ہی گروہ چلا آ رہا ہے حضرت علیؓ کے لشکر میں آخر دم تک یہ سبائی موجود رہے معرکہ صفین کے بعد یہ باقاعدہ منظم ہوئے اور خوارج کے نام سے انہوں نے شہرت پائی۔
عبداللہ بن سبا سیدنا علیؓ کے آسمانی عہدہ امامت کا عقیدہ رکھتا تھا، سیدنا عثمانؓ کی شہادت کے بعد اس عقیدے کے بہت سے لوگ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی افواج میں آ شامل ہوئے، آپؓ انہیں نکال نہ سکتے تھے اور ان کی عام بغاوت کا آپ کو ہمیشہ خدشہ لگا رہتا تھا یہی لوگ تھے جنہوں نے جنگِ صفین کے بعد سیدنا علیؓ سے اس مسئلے میں اختلاف کیا کہ آپ نے سیدنا ابو موسیٰ الاشعریؓ کو حکم تسلیم کر کے کفر کا ارتکاب کیا ہے، یہ کفر تبھی ہو سکتا ہے کہ سیدنا علیؓ کی امامت زمینی منصب نہ ہو کوئی آسمانی منصب ہو جس کا انکار کفر ہو، زمینی افراد (جیسے خاوند اور بیوی) تو اپنے میں حکم مقرر کر سکتے ہیں وہ کسی آسمانی منصب پر نہیں ہوتے لیکن آسمانی امامت کا داعی کبھی کسی شخص کو اپنے عہدے سے دستبرداری کا اختیار نہیں سونپ سکتا جب سیدنا علیؓ نے ابو موسیٰ الاشعریؓ کو یہ اختیار سونپ دیا تو یہ اپنے عہدہ امامت کا انکار تھا اور سبائی عقیدہ میں یہ کفر تھا۔
سیدنا عبداللہ بن عباسؓ نے خارجیوں سے مناظرہ کرتے وقت انہیں تحکیم کے جواز میں جو دلائل دیے وہ اتنے واضح ہیں کہ کوئی سلیم الفطرت انسان ان کا انکار نہیں کر سکتا، بایں ہمہ بیشتر خوارج ان کے ہم خیال نہ ہوئے، یہ اس لیے تھا کہ وہ سبائی عقیدہ کے مطابق سیدنا علیؓ کو آسمانی عہدہ امامت کا امام سجھتے تھے اور آسمانی عہدہ سے دستبرداری کی تجویز واقعی اپنے لیے کفر کا دروازہ کھولنا ہے، اس سے واضح ہوتا ہے کہ فتنہ خوارج دراصل ایک سبائی تحریک تھی جو پہلے سیدنا عثمانؓ کے خلاف اٹھی تھی، اس وقت ان کا خروج سیدنا عثمانؓ کے خلاف تھا پھر یہ لوگ زبردستی سیدنا علیؓ کی فوجوں میں آ گھسے تھے، ان کا اعتقاد تھا کہ امامت ایک آسمانی عہدہ ہے، جو حضور اکرمﷺ کے بعد سیدنا علیؓ کو حاصل تھا، واقعہ تحکیم کے بعد سیدنا علیؓ کے خلاف ہو گئے سیدنا علیؓ اور سیدنا امیرِ معاویہؓ کے صرف سیاسی اختلاف تھے اعتقاداً دونوں ایک تھے، صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں آپس میں کوئی اعتقادی فتنہ نہ پھوٹا تھا، تاریخ اسلام میں پہلا اعتقادی فتنہ تحریکِ خوارج رہی اور یہ اسی سباںٔیت کی ایک دوسری کڑی تھی جو سیدنا عثمانؓ کی شہادت کا موجب ہوئی تھی اور اس کی تیسری کڑی یہ اثناء عشری مذہب کی تشکیل و تدوین رہی جس کا مدار بارہ اماموں کے آسمانی عہدہ امامت پر رہا یہ لوگ بڑے فخر سے اپنے آپ کو امامی کہتے ہیں، اس عقیدے کو ساسانی ایران میں بادشاہوں کا ربانی حق کہا جاتا رہا ہے۔
حضور اکرمﷺ کے دور میں ایک دفعہ تقسیم غنائم کے موقع پر ایک شخص نے سر اٹھایا اور حضورﷺ سے عدل کرنے کو کہا، آپﷺ نے فرمایا اگر میں عدل نہ کروں گا تو اور کون کرے گا اللہ تعالیٰ نے مجھے آسمانی باتوں کا امین بنایا تم زمینی امور میں مجھے امین نہیں سمجھتے،آپﷺ نے یہ بھی فرمایا کہ اس جڑ سے ایک قوم نکلے گی کہ تم اپنے اسلام کو ان سے کمزور محسوس کرو گے آپﷺ نے ان کے بارے میں فرمایا! یمرقون من الاسلام: یہ لوگ اسلام سے اس طرح نکل جائیں گے جیسے تیر شکار سے نکل جاتا ہے۔ اس اساس پر یہ لوگ خوارج کہلائے (اسلام سے نکل جانے والے) ان لوگوں نے صراحتاً اسلام کا انکار نہ کیا تھا عدلِ رسالت سے انکار کیا تھا، سیدنا عثمانؓ کے دورِ خلافت کے آخر میں یہ لوگ آپ کے خلاف اٹھے اور آپ پر وہی عدل نہ کرنے کا الزام لگایا جو یہ لوگ پہلے حضور اکرمﷺ پر لگا چکے تھے، عبداللہ بن سبا نے ان کی قیادت یہاں تک کی کہ سیدنا عثمانؓ کو شہید کر دیا گیا، پھر یہ لوگ زبردستی سیدنا علیؓ کی فوجوں میں جا گھسے، یہ لوگ سیدنا علیؓ کو چلنے نہ دیتے تھے سیدنا علیؓ نے انکے بارے میں فرمایا۔
يملكوننا ولا نملكهم (نہج البلاغہ: جلد، 1 صفحہ، 98)
ترجمہ: یہ ہمارے حاکم بنے بیٹھے ہیں ہم ان پر کوئی اختیار نہیں رکھتے۔
سیدنا علیؓ کو امرِ خلافت میں نا کام کرنے میں یہ لوگ ہمیشہ پیش پیش رہتے، آپ نے انہیں صاف لفظوں میں اپنا نا فرمان بتلایا۔
ايتها الفرقة التی اذا امرت لم تطع واذا دعوت لم تجب ان امهلتم خفتم و ان حوربتم خرتم و ان اجتمع الناس على امام طعنتم و ان اجئتم إلى مشاقة نکضتم لا ابا لغيركم
اے وہ جدا ہونے والو جب میں کوئی حکم دوں تو نہ ماننے والے ہو اور جب میں تمہیں آواز دوں تو تم جواب نہیں دیتے، اگر میں تمہیں ڈھیل دوں تم تھک جاتے ہو اور اگر تمہیں لڑنے کا کہا جائے تو تم چیخ اٹھتے ہو اور اگر لوگ کسی امام پر جمع ہو جائیں تو تم ان خلفاء پر طعن کرنے لگتے ہو اور اگر تمہیں کسی مہم پر لے جایا جائے تو تم منہ پھیر لیتے ہو۔
پھر تحکیم کے موقع پر یہ واقعی سیدنا علیؓ سے جدا ہوئے اور انہوں نے خوارج نام پایا، اب انہوں نے اپنے اختلافات باقاعدہ وضع کیے جس طرح پہلے یہ سیدنا امیرِ معاویہؓ کے مخالف تھے اب یہ سیدنا علیؓ کے بھی مخالف ہو گئے عبدالرحمٰن بن ملجم سیدنا علیؓ کا قاتل انہی میں سے تھا، انہوں نے ہی سیدنا علیؓ حضرت امیرِ معاویہؓ اور سیدنا عمرو بن العاصؓ کو ایک ہی رات میں قتل کرنے کی سازش کی تھی، اب یہ ان تینوں اور ان کی اولاد کے مخالف تھے سیدنا حسینؓ اور یزید دونوں کے خلاف ایک جیسے تھے۔