Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام
زبان تبدیل کریں:

حضرت ابوبکرؓ کے ھاتھ پر حضرت علیؓ کے بیعت کرنے کا ثبوت شیعہ کتب سے تفصیل ک ےساتھ

سوال پوچھنے والے کا نام:   Ubaidjan

جواب

ملاحظہ فرمائیں:

سیدنا جعفر صادقؒ سے منقول ہے وہ فرماتے ہیں جب سیدنا علیؓ نے دیکھا کہ سیدنا ابوبکر صدیقؓ اور سیدنا عمر فاروقؓ نے کلمہ توحید کی نشر و اشاعت اور لشکروں کی تیاری میں پوری پوری کوشش کی اور انہوں نے اپنی ذات کے معاملے میں کسی کو ترجیح نہ دی اور نہ ہی کسی پر زیادتی کی تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ان سے مصالحت کرتے ہوئے انکی بیعت کر لی اور اپنے حق سے چشم پوشی کی کیونکہ اس سے اسلام کے متفرق ہونے سے حفاظت بھی ہے۔ تاکہ لوگ پہلی جہالت کی طرف نہ لوٹ جائیں۔

(کتاب اصل الشیعہ و اصولہا الشیخ کاشف الغطا صفحہ 123'124 ،193)

سیدنا باقرؒ سے منقول ہے:

سیدنا علیؓ نے اس آیتِ کریمہ 

اَلَّذِيۡنَ كَفَرُوۡا وَصَدُّوۡا عَنۡ سَبِيۡلِ اللّٰهِ اَضَلَّ اَعۡمَالَهُمۡ 

(سورۃ محمد:آیت1)

ترجمہ:جن لوگوں نے کفر اختیار کرلیا ہے اور دوسروں کو اللہ کے راستے سے روکا ہے، اللہ نے ان کے اعمال اکارت کردیے ہیں۔

کی تلاوت کے بعد اپنا مقصد فنشھد الخ سے بیان فرمایا جس میں بطور شہادت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی خلافت کا ثبوت اور وہ بھی حضورﷺ سے ذکر کیا: 

وَمَاۤ اٰتٰٮكُمُ الرَّسُوۡلُ فَخُذُوْهُ وَمَا نَهٰٮكُمۡ عَنۡهُ فَانْتَهُوۡا‌ ۚ 

( سورۃ الحشر: آیت 7)

ترجمہ: اور رسول تمہیں جو کچھ دیں، وہ لے لو، اور جس چیز سے منع کریں اس سے رک جاؤ، 

دوسری بات یہ کہ سیدنا ابنِ عباسؓ نے اگرچہ سیدنا علیؓ کے بارے میں حضورﷺ کی زبان اقدس سے وصی کے الفاظ سنے تھے لیکن اتفاق و اجماع صحابہؓ کو دیکھتے ہوئے اسے مرجوع قرار دیا اور خلافتِ سیدنا صدیقِ اکبرؓ کے حق ہونے کی بیعت کی۔

(تفسیر صافی الجز السادس سورۃ محمد آیت 01 تفسیر القمی الجز الثالث صفحہ 975)

جب سیدنا علی رضی اللہ عنہ اور سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ نے سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی بیعت کر لی اور حالات پُر سکون ہو گئے تو سیدنا ابوبکر صدیقؓ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے پاس آئے اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے لیے سفارش کی اور رضا کے طلب گار ہوئے تو آپ راضی ہو گئیں۔

(کتاب شرح نہج البلاغہ ابنِ ابی الحدید جلد 6 صفحہ 196)

(بحار الانوار ملا باقر مجلسی جلد 28 صفحہ322)

(بیت الاحزان شیخ عباس قمی صفحہ113)

(حق الیقین جلد اول صفحہ202)

سیدنا علیؓ نے ان(یعنی ابوبکر و عمر) کی خلافت کو تسلیم کر لیا تھا اور اُس پر راضی ہوگئے تھے، اور بغیر کسی جبر کے ان کی بیعت کر کے فرمانبرداری کی، اور اُن کے حق میں دستبردار ہوگئے تھے۔ پس ہم بھی اس پر راضی ہیں جیسے وہ راضی تھے۔ اب ہمارے لیے یہ حلال نہیں کہ ہم اس کے علاوہ کچھ اور کہیں، اور ہم میں سے کوئی اس کے سوا کچھ اور کہے۔ اور یہ کہ سیدنا علیؓ کی تسلیم (تسلیم کرنے) اور راضی ہونے کی وجہ سے سیدنا ابوبکر صدیقؓ کی ولایت، راشدہ اور ھادیہ بن گئی۔

( کتاب فرق الشیعہ صفحہ 31،32 محمد بن حسن نوبختی)

سیدنا باقرؒ سے روایت ھے: 

جب سیدنا اسامہؓ کو (رسولﷺ کے وصال کا) خط پہنچا تو وہ ساتھیوں سمیت مدینہ آگئے، اور دیکھا کہ سیدنا ابوبکر صدیقؓ کے پاس (بیعت کے لیے) لوگ جمع ہیں تو وہ سیدنا علیؓ کے پاس گئے اور اُن سے پوچھا یہ کیا ہے؟ سیدنا علیؓ نے اُن سے کہا یہ وہی ہے جو تم دیکھ رہے ہو۔ سیدنا اسامہؓ نے اُن سے پوچھا کیا آپ نے بھی بیعت کر لی ہے؟ سیدنا علیؓ نے کہا ہاں اسامہ میں نے بھی بیعت کر لی ہے۔

(شیخ طبرسی الاحتجاج جلد1صفحہ 112،113)

یہ دیکھ کر کہ کہیں فتنے یا شر پیدا نہ ہو جائے، میں سیدنا ابوبکرؓ کے پاس چل کر گیا اور اور اُن کی بیعت کرلی اور ان حوادث کے خلاف (سیدنا ابوبکر صدیقؓ کے ساتھ) کھڑا ہو گیا، حتیٰ کہ باطل چلا گیا اور اللہ کا کلمہ بلند ہو گیا، چاہے وہ کافروں کو برا لگے۔ پس جب سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے نظامِ امارت سنبھالا اور حالات کو درست کیا اور آسانیاں پیدا کیں، تو میں ان کا مُصاحب شریک کار (ہم نشیں) بن گیا اور اُن کی اطاعت (فرمانبرداری) کی، جیسے انہوں نے اللہ کی اطاعت کی۔

(شیخ علی البحرانی منار الہدیٰ صفحہ685)

اس میں کوئی اشکال نہیں ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے (حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی) بیعت کر لی تاکہ شر دفع ہو اور فتنہ پیدا نہ ہو۔

(محمد بن حسن طوسی تلخیص شافی جلد 3 صفحہ 42)

اور جب ان سے سیدنا ابوبکر صدیقؓ کی خلافت کی بیعت کرنے کا سبب معلوم کیا گیا تو انہوں نے فرمایا: اگر ہم سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ کو خلافت کا اہل نہ سمجھتے تو ہم اسے خلیفہ نہ بننے دیتے۔

(شرح نہج البلاغۃ:جلد2 صفحہ 45)