Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

مولا علیؑ نے تلوار کیوں نہیں اُٹھائی ؟ ٣: اِس اعتراض کا جواب "خود آئمہ اہلِ بیت علیہم السلام نے دیا ہے" قارئین: سابقہ تحاریر میں ہم نے ثابت کیا تھا کہ مخالفین کو ہم سے سوال کرنے کا حق نہیں ، اور یہ بھی ثابت کیا تھا کہ اُمت نے علیؑ سے غداری کی ہے، اور ہم نے اُن غداروں کی بھی نشاندہی کی تھی ساتھ اُن کا انجام بھی بتایا تھا، آج کی اس تحریر میں ہم فقط اہلِ بیت طاہرینؑ کے چند اقوال پیش کریں گے جو انھوںؑ نے اس سوال کے جواب میں دیئے ہیں اگر ہم اُن تمام احادیثِ آئمہؑ کو نقل کریں تو پوری ایک کتاب بن جائے گی ہم فقط دو اقوال آپ کی خدمت میں پیش کرتے ہیں شیخ صدوقؒ نقل کرتے ہیں: سید الخلائق حضرتِ محمد مصطفیٰ ﷺوآلہ نے علی علیہ السلام کو اپنے پاس بلایا اور فرمایا: میرے بھائی، آپ کو میرے بعد قریش کے ہاتھوں بڑی مصیبتیں جھیلنی پڑیں گی۔ اس طرح اگر آپ کو مددگار ملے تو آپ اپنے دشمنوں سے لڑیں، ورنہ صبر سے کام لیں اور ہتھیار اٹھانے سے دور رہیں۔ اور اپنے آپ کو مصیبت میں مت ڈالئے گا . آپ کی مجھ سے وہی نسبت ہے جیسے ہارونؑ کو موسیٰؑ سے تھی جیسے ان کی جماعت کمزور پڑ گئی تھی اور اسے ق۔ت۔ل کرنے والی تھی۔ پس تم بھی قریش کے مظالم پر صبر کرو کیونکہ تمہاری مثال ہارونؑ جیسی ہے۔ تم پر ظلم کرنے والے بچھڑے کی عبادت کرنے والوں کی طرح ہوں گے۔ اے علی، اللہ تعالیٰ نے اس امت کے لیے انتشار اور تفرقہ مقدر کیا ہے۔ اللہ چاہتا تو تمام لوگوں کو ہدایت پر اکٹھا کر سکتا تھا یہاں تک کہ دو آدمیوں میں اختلاف بھی نہ ہوتا اور نہ جھگڑا ہوتا۔ نہ کمتر اعلیٰ کی تردید کرتا۔ اور اگر اللہ چاہتا تو بدلہ لینے میں جلدی کر سکتا تھا اور حالات کو بدل سکتا تھا یہاں تک کہ ظالموں کا باطل ظاہر ہو جاتا اور لوگوں کو حق کا مقام معلوم ہو جاتا۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے دنیا کو اعمال کا ٹھکانہ بنایا ہے اور آخرت کو جزا کا گھر بنایا ہے تاکہ نیکی کا بدلہ بھلائی سے اور برے کا بدلہ برائی سے دیا جائے۔ حوالہ:[ کمال الدین وتمام النعمة للصدوقؒ جلد ٢ ص ٣٢ تا ٣٦ ] تبصرہ: قارئین، اِسی مفہوم کے ساتھ سُنی کتب سے بھی ہم ثابت کرچکے ہیں علیؑ کو نبیؑ کی وصیت تھی لیکن شیعہ احادیث میں تفصیل سے یہ بات بیان ہوئی ہے دوسرا سوال: "فدک واپس کیوں نہ لیا گیا"؟ شیخ صدوقؒ اپنی کتاب علل الشرائع میں باب " العلة التي من اجلها ترك أمير المؤمنين فدك لما ولي الناس " کے تحت روایت نقل کرتے ہیں: امام علي رضاؑ سے سائل نے کہا کہ میں نے امام سے امیر المومنینؑ کے سلسلے میں سوال کیا کہ جب آپ کو حکومت ملی تو آپ نے فدک واپس کیوں نہیں لیا؟ تو امام علي رضاؑ نے جواب دیا کہ ہم اہل بیتؑ کو جب الله عزوجل حکومت دیتا ہے تو ہم اپنے اوپر ظلم کرنے والے سے اپنے لیئے اپنے حقوق واپس نہیں لیتے بلکہ الله ہمارا حق واپس لیتا ہے اور ہم تو مومنین کے ولی و سرپرست ہیں، هم بس انہی کی خاطر حکومت قبول کرتے ہیں اور انہی کے حقوق ظالمین سے واپس لیتے ہیں اور ہم اپنے لیئے کچھ نہیں لیتے حوالہ:[ علل الشرائع للصدوقؒ جلد ١ ،ص ٢١٠] قارئین: اختصار کو مد نظر رکھتے ہوئے انہی دو احادیث پر اختتام کیا جاتا ہے تفصیل کے لیے ہم حوالاجات لکھتے ہیں آپ اُن کی طرف مراجع فرمائیں حوالاجات [ علل الشرائع میں شیخ صدوقؒ نے ایک باب کے تحت بارہ١٢ روایات کو نقل کیا ہے ص ١١ سے ص ١١٦، الكافي، ج ٨، ص ٥٨– ٦٣، رقم: ٢١ میں ایک طویل خطبہ ہے جنابِ امیرؑ کا اس کے علاوہ بھی بہت احادیث ہیں ] خاکسار: عبدالله الإمامي اس تحریر کا جواب چاھیے مھربانی ھوگی ۔(راحت)۔

سوال پوچھنے والے کا نام:   راحت

 پہلی روایت کا جواب:

کیا نبی کی یہ بھی وصیت تھی کہ اے علی! ان حکمرانوں کے خلاف تلوار اٹھانے کے بجائے ان کی مدد و تائید کرتےرہنا؟ ان کے فیصلوں میں شامل رہنا؟

 ان کے پیچھے پانچوں وقت بائیس ، تئیس سال تک مسلسل نمازیں بھی پڑھتے رہنا؟

ان سے قریبی رشتہ داریاں بھی قائم کرتے رہنا؟ 

ایک عام فہم بھی سمجھ سکتا ہے شیعہ کی تاویلات مکڑی کے جالے سےبھی زیادہ کمزور ہیں، قرآن کے مطابق حالات موافق نہ ہوں تو مسلمان اپنے دین کی حفاظت کی خاطر ھجرت بھی کرسکتے ہیں۔ کیا سیدنا علی کو اس حکم کا علم نہ تھا۔؟


دوسری روایت کا جواب:

امام علی رضا والی اس روایت پر کئی سوالات کھڑے ہوتے ہیں۔

سیدنا علی کے دور میں باغ فدک آخر کس کی ذاتی ملکیت تھا؟ اگر باغ فدک حضرت ابوبکر صدیق کی ملکیت تھا تو انکے بعد آل ابوبکر کی ملکیت میں تھا؟ یا حضرت عمر فاروق یا حضرت عثمان غنی کی ملکیت میں تھا یا ان کے ورثاء کےپاس تھا؟

آخر دور سیدنا علی میں باغ فدک کی ملکیت کا دعویدار کون تھا؟ یاد رہے کہ مدینہ سے باغ فدک کا فاصلہ ڈیڑھ سو کلومیٹر ہے۔ کیا شیعہ صحیح روایات سے کسی ایک صحابی کا تعین کر سکتے ہیں؟ دنیائے شیعیت کو قیامت تک چیلنج ہے۔ 

دوسری اہم بات۔۔ اگر حضرت ابوبکر صدیق نے فدک پر قبضہ کر لیا تھا تو بقول امام علی رضا کے اہل بیت اپنے حقوق واپس نہیں لیتے بلکہ اللہ حق واپس لیتا ہے تو اہل تشیع کتب میں سیدہ فاطمہ کا جلوس لیکر مسجد نبوی میں خطبہ فدک کس مقصد سے تھا؟ بقول شیعہ فدک پر دعوی ملکیت کیوں کیا گیا؟

یاد رہے کہ اہل سنت کا اس معاملے پر مختلف مؤقف ہے جو سائیٹ پر مختلف تحاریر میں بیان کیا گیا ہے۔