شیعہ اپنے عقیدہ تحریفِ قرآن کے اثبات کے لئے آیات منسوخہ کے بارے میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے ارشادات سے استدلال لیتے ہیں اور ایک مقام(بخاری شریف :7129) پر حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اگر لوگوں مجھے قرآن میں اضافے کا طعنہ نہ دیں تو میں قرآن آیات رجم کو داخل کر دیتا۔
سوال پوچھنے والے کا نام: محمد حفیظ اللہ اعظمجواب
نسخ اور تحریف دو الگ الگ چیزیں ہیں، بنیادی فرق یہ ہے کہ نسخ اللہ کا فعل ہے اور تعریف انسان کا فعل ہے۔چنانچہ نسخ کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
’’مَا نَنْسَخْ مِنْ اٰيَۃٍ اَوْ نُنْسِہَا نَاْتِ بِخَيْرٍ مِّنْہَا اَوْ مِثْلِہَآ اَلَمْ تَعْلَمْ اَنَّ اللہَ عَلَیٰ کُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ‘‘ (البقرۃ :۱۰۶)
ترجمہ: ’’ہم جب بھی کوئی آیت منسوخ کرتے ہیں یا اسے بھلا دیتے ہیں تو اُس سے بہتر یا اُسی جیسی (آیت) لے آتے ہیں۔ کیا تمہیں یہ معلوم نہیں کہ اللہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے؟ ‘‘
تقریباً تمام مفسرین کا اس پر اتفاق ہے کہ اس آیت میں ’’نسخ‘‘ سے مراد کسی حکم کا ختم یا زائل کرنا ہے۔ اس کے علاوہ متعدد آیات،احادیث اور آثار قرآن کریم میں نسخ پر دلالت کرتے ہیں۔
لہٰذا نسخ اور تحریف کو ایک قرار دینا حق اور باطل کے درمیان التباس پیدا کرنا ہے۔
پس نسخ قرآن پاک کی صریح آیت اور احادیث سے ثابت ہے لہٰذا اگر کوئی منسوخ شدہ آیات کو دلیل بنا کر قرار دیتا ہے کہ یہ تحریف ہے تو گویا وہ یہ کہنا چاہتا ہے کہ قرآن پاک میں خود اللہ تعالیٰ نے تحریف فرمائی ہے۔