اہلِ تشیع اس حدیث کو نہیں مانتے، اہل قرآن و منکرین حدیث بھی اسے نہیں مانتے. میں بھی اسے قبول کرتے دشواری محسوس کرتا ہوں. رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا سینہ کھول کر دل نکالا گیا اور اس میں سے خون کے لوتھڑے جیسی چیز نکال کر جبرائیل نے کہا : هٰذَا حَظُّ الشَّيْطَانِ مِنْكَ آپ کے اندر یہ شیطان کا حصہ تھا. اس وقت آپ کی عمر چار پانچ سال ہو گی اور آپ حلیمہ سعدیہ کے گھر رہتے تھے. ابن حجر عسقلانی نے فتح الباری میں یہی لکھا ہے دوسری بار شق صدر واقعہ نبوت ملنے پر ہوا اور تیسری مرتبہ معراج سے قبل ہوا، بخاری و مسلم کے مطابق اس بار زم زم کے پانی سے دل کو دھویا گیا، سونے کے طشت میں ایمان و حکمت لا کر دل میں بھرا گیا.صحیح البخاری : 349 ،3207، 3887، صحیح مسلم: 164 انسان کے سینے میں موجود میڈیکل دل میں چار وال ہوتے ہیں. سکول پاس بچہ بھی جانتا ہے کہ اس دل میں شیطان کا کوئی الگ حصہ جڑا نہیں ہوتا جسے نکال کر پھینکا جا سکے. یا اس دل کو نکال کر زم زم کے پانی سے دھو کر واپس فٹ کر دیا جائے. یہ فزیکلی اور میڈیکلی ممکن نہیں.گو کہ معجزات کی کوئی عقلی دلیل نہیں ہوا کرتی لیکن بلاضرورت معجزات پر بھی نظرثانی ہونی چاہیے.
سوال پوچھنے والے کا نام: Arslanجواب
رَبِّ اشْرَحْ لِیْ صَدْرِیْ وَ یَسِّرْ لِیْۤ اَمْرِیْ وَاحْلُلْ عُقْدَةً مِنْ لّسَانِیْ یَفْقَهُوْا قَوْلِیْ
اس سوال کے جواب میں عرض ہے کہ
¹-اس معجزہ کو قبول کرنے میں دشواری محسوس کرنے کی جو دونوں وجوہات بیان کی گئی ہیں وہ نہایت قابلِ توجہ ہیں یعنی یہ کہ
اہلِ تشیع اس حدیث کو نہیں مانتے
اہلِ قرآن اور منکرین بھی اس حدیث کو نہیں مانتے
تو گویا اس معجزہ کو قبول کرنے میں دشواری محسوس کرنا ان گروہوں سے مشابہت اختیار کرنا ہے۔
اس سلسلہ میں نبی کریم ﷺ کی امت کو جو ہدایات ہیں وہ اس حدیث پاک کی روشنی میں ملاحظہ کی جا سکتی ہیں۔
وعن ابن عمر رضي الله عنهما قال: قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: من تشبه بقوم فهو منهم
اخرجه ابو داود وصححه ابن حبان.
ترجمہ: حضور ﷺ کا ارشاد ہے: جس شخص نے کسی قوم کی مشابہت اختیار کی تو وہ شخص اسی قوم میں شمار ہوگا۔
پس اس معجزہ پیغمبر ﷺ کو قبول کرنے میں دشواری محسوس کرنا اہلِ تشیع اور منکرینِ حدیث سے مشابہت کے باعث واجب الترک ہے ناکہ باعثِ اشکال۔
یعنی یہ مشابہت ہی اس بات کی طرف داعی ہے کہ اس اشکال اور اعتراض کو اپنے دماغ سے نکال دینا چاہیئے اور اپنی اصلاح کرنی چاہیے۔
²-سوال میں بھی یہ بات درج ہے اور امر واقعہ بھی یہ ہے کہ معجزات عقل کی کسوٹی پر پرکھی جانے والی چیز نہیں ہے بلکہ خالصتاً اللہ تعالیٰ کی طرف سے خرق عادت طور پر عطا ہونے والی نعمت اور دلیل نبوت ہے جس کو عقل کی بنیاد پر پرکھا یا سمجھا نہیں جا سکتا ہے۔
پس اس معاملے میں عقل کو اہمیت نہیں دینی چاہیے اور نقل ہی پر ہی اعتماد کرتے ہوئے اس پر ایمان لانا چاہیے۔
³-سوال میں ایک خطرناک بات یہ لکھی گئی ہے کہ بلاضرورت معجزات پر نظر ثانی ہونی چاہیئے
جس معجزے کو یہاں بلا ضرورت سمجھا گیا ہے اس کو بلا ضرورت سمجھنے کی دلیل کیا ہے؟
کیا محض عقلی بنیاد پر کسی معجزے کو بلا ضرورت اور کسی کو ضرورت قرار دینا جائز ہے؟
یہ ایک ناقابلِ انکار حقیقت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جتنے لوگوں کو عقل عطا فرمائی ہے وہ برابر نہیں بلکہ کچھ لوگوں کی عقل بہت تیز ہوتی ہے اور کچھ لوگوں کی کمزور پس کچھ لوگوں کی عقل میں کوئی معجزہ بلاضرورت اور دوسرے بعض لوگوں کی عقل میں وہی معجزہ ضرورت سمجھا جائے گا تو کیا کسی کو یہ حق دیا جا سکے گا کہ جس کی عقل میں کوئی معجزہ نہیں آتا وہ اسے بلا ضرورت قرار دے کر اس کا انکار کر دے؟ ہرگز نہیں بلکہ یہ نظر و فکرِ دین کے لیے نہایت نقصان دہ ہے۔
⁴-دین کی مسلمات میں سے ہے کہ دین عقل کے تابع نہیں بلکہ عقل دین کے تابع ہے۔
پس یہاں پر بھی یہ جو اشکال پیدا ہوا ہے یہ محض عقل کی بنیاد پر پیدا ہوا ہے لہٰذا عقل کی اتباع کرنے کی بجائے جو نبی کریم ﷺ کے پاکیزہ ارشاد سے ثابت ہے اس کو مان لینا اور اس پر ایمان لے آنا چاہیے اسی میں خیر ہے اور اسی میں نفع ہے۔
⁵-سائل نے نظر ثانی کا جو مشورہ دیا ہے کہ نظر ثانی ہونی چاہیے سوال یہ ہے کہ اللہ کے دین میں نظر ثانی کا اختیار کس کو حاصل ہے؟
شق صدر کا معجزہ احادیث میں بیان ہوا ہے جس کی بنیاد سورۃ الم نشرح کی پہلی آیت ہے۔
تو کیا رسول اللہ ﷺ کے ارشادات کو منسوخ کرنے یا نظر ثانی کے ذریعے تبدیل کرنے کا کسی انسان کو اختیار حاصل ہے؟
یقیناً کسی کو اس کا اختیار حاصل نہیں۔
تو پھر نظر ثانی کا کیا مطلب ؟
بہرحال یہ ایک خطرناک فکر و نظر ہے اور اس کی وجہ سے دین کے بہت سارے مسائل اور عقائد متزلزل ہو جائیں گے جنت اور جہنم وغیرہ تمام چیزیں عقل سے ماورا ہیں اور ان پر نقل کی بنیاد پر ہی ایمان لانا ضروری ہے لہٰذا اس فکر و نظر کو اور اہلِ تشیع وغیرہ باطل ادیان کی مشابہت کو چھوڑ نقل سے ثابت دین حق کو اختیار کرنا چاہیے خیر اور بھلائی کا یہی راستہ ہے۔