ہم سے کچھ شیعہ سوال کرتے ہیں کہ حضرت مریم علیہا السلام اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کی والدہ پر والدہ پر جب وحی نازل ہو سکتی ہے تو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل بیت پر وحی کیوں کر نا زل نہیں ہوسکتی جبکہ حضرت محمد صلی علیہ وسلم کا مرتبہ تو تمام انبیاء علیہم السلام سے افضل ہے مہربانی فرما کر قران مجید سے ثابت کریں جبکہ قرآن مجید میں واصح ارشاد فرمایا ہے کہ اللّٰہ پاک کے فرشتے ہر شب برات کو نازل ہوتے ہیں قرآن مجید اور احادیث سے ثابت کریں کہ وحی نبی کے علاوہ کسی پر نازل نہیں ہو سکتی اور شیعہ کے دلائل کا رد بھی کر دیں
سوال پوچھنے والے کا نام: Humera rafeeqجواب:
قرآن کریم میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کی والدہ محترمہ کے لیے جو"وَ اَوْحَیْنَاۤ اِلٰۤى اُمِّ مُوْسٰۤى اَنْ اَرْضِعِیْهِۚ“وارد ہوا ہے اگر اس سے وحی کا وہی مفہوم لیا جائے جو عرف شرع میں معتبر ہے تو پھر درج ذیل آیات میں بھی ٹھیک یہی لفظ وارد ہوا ہے
وَكَذَٰلِكَ جَعَلْنَا لِكُلِّ نَبِيٍّ عَدُوًّا شَيَاطِينَ الْإِنسِ وَالْجِنِّ يُوحِي بَعْضُهُمْ إِلَىٰ بَعْضٍ زُخْرُفَ الْقَوْلِ غُرُورًا ۚ
اور اسی طرح ہم نے ہر نبی کے دشمن بہت سے شیطان پیدا کئے تھے کچھ آدمی اور کچھ جن: جن میں سے بعض بعضوں کو چکنی چپڑی باتوں کا وسوسہ ڈالتے رہتے تھے تاکہ ان کو دھوکا میں ڈال دیں۔
وَإِنَّ الشَّيَاطِينَ لَيُوحُونَ إِلَىٰ أَوْلِيَائِهِمْ لِيُجَادِلُوكُمْ ۖ وَإِنْ أَطَعْتُمُوهُمْ إِنَّكُمْ لَمُشْرِكُونَ
اور یقیناً شیاطین اپنے دوستوں کے دل میں ڈالتے ہیں تاکہ یہ تم سے جدال کریں اور اگر تم ان لوگوں کی اطاعت کرنے لگو تو یقیناً تم مشرک ہوجاؤ گے۔
ان ایات میں بھی يُوحِي اور لَيُوحُونَ کے الفاظ موجود ہیں تو کیا ان سے بھی وحی کا اسی جیسا مفہوم مراد لیا جا سکتا ہے جو عرف شرح سے سمجھا جاتا ہے؟
امر واقعہ یہ ہے کہ وحی کا ایک مفہوم وہ ہے جو لغت کے اعتبار سے سمجھا جاتا ہے اورایک مفہوم وہ ہے جو شریعت کی مقرر کردہ اصطلاح کے اعتبار سے سمجھا جاتا ہے
ارباب علم فرماتے ہیں۔
وحی کی لغوی تعریف:آہستہ سے خبر دینا، لکھنا، لکھا ہوا، بھیجنا، الہام یعنی دل میں کوئی بات ڈالنا، حکم کرنا، اشارہ کرنا وغیرہ۔
(فتح الباری حافظ ابنِ حجر رحمہ اللہ: ١/ ١٦)
مفتی تقی عثمانی صاحب لکھتے ہیں:
عربی زبان میں ”وحی“ کا معنی ہے : جلدی سے کوئی اشارہ کرنا ، خواہ یہ اشارہ رمز و کنایہ استعمال کرکے کیا جائے، خواہ کوئی بے معنی آواز نکال کر، خواہ کسی عضو کو حرکت دے کر، یا تحریر و نقوش استعمال کرکے، ہر صورت میں لغۃً اس پر یہ الفاظ صادق آتے ہیں۔
شرعی اصطلاح میں: ”وحی“ وہ ذریعہ ہے جس سے اللہ تعالی اپنا کلام اپنے کسی منتخب بندے اور رسول تک پہنچاتا ہے اور اس رسول کے ذریعے تمام انسانوں تک پہنچاتا ہے۔
نیز واضح رہے کہ لفظِ "وحی" اپنے اصطلاحی معنی میں اتنا مشہور ہوچکا ہے کہ اب اس کا استعمال پیغمبر کے سوا کسی اور کے لیے درست نہیں ہے۔
(ملخص۔ علوم القرآن، ص 28 تا 30، )
پس لغت کے اعتبار سے تو یہ لفظ انبیاء کے علاوہ کسی اور انسان حتی کہ غیر انسان کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے چنانچہ قران پاک کے اندر یہ خبر موجود ہے کہ اللہ تعالی نے شہد کی مکھیوں سے گفتگو فرمائی۔
{واَوْحٰی رَبُّكَ اِلَى النَّحْلِ} [النحل:68]
البتہ شریعت کی اصطلاح میں یہ لفظ اللہ تعالی کے اس کلام کے ساتھ مختص ہو چکا ہے جو وہ اپنے پیغمبروں اور رسولوں کے ساتھ فرماتا ہے ۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے ”عبداللہ“کا لفظ۔۔
بلا شبہ ہر ہر انسان عبداللہ ہے اس لیے کہ وہ اللہ کا بندہ ہے مگر ”عبداللہ“کا یہ مفہوم لغت کے اعتبار سے ہے جب یہی لفظ کسی شخص کا نام بن جائے تو یہ لفظ اس شخص کی پہچان بن جاٸے گا ۔اب اگر کسی جگہ پر سو ادمی موجود ہیں اور وہاں پر آواز لگانے والا “عبداللہ“ نام کی آواز لگاتا ہے تو باوجود یہ کہ 100 کے سو عبداللہ ہی ہیں مگر ان سو میں سے صرف ایک ادمی جواب دیتا ہے اس لیے کہ یہ لفظ اب اس کے لیے اصطلاح بن چکا ہے۔
پس لغت کے اعتبار سے وحی کا لفظ الہام کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے کہ نیک بندوں کے دل میں کوئی خیر کی بات ڈال دی جاتی ہے۔
اور شیاطین کے دلوں میں وسوسہ ڈالنے کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے۔
حتیٰ کہ غیر انسان یعنی شہد کی مکھیوں سے خطاب کے لیے بھی یہ لفظ استعمال ہوتا ہے
مگر شریعت کے عرف اور شریعت کی اصطلاح میں یہ لفظ اللہ کے اس کلام کے ساتھ خاص ہو چکا ہے جو وہ اپنے نبی اور پیغمبروں سے فرماتا ہے۔