Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

حضور اکرمﷺ کا ارشاد کہ سیدنا حسن و حسین رضی اللہ عنھما جنتی جوانوں کہ سردار ہونگے۔ اس جنتی جوانوں سے کیا مراد ہے حالانکہ جنت میں تو سبھی اہلِ جنت جوان ہونگے کیا مطلب کہ حضرات حسنؓ و حسینؓ حضرت ابوبکر صدیقؓ و عمر فاروق اعظمؓ اور اسی طرح جو کبار فی العمر ہیں ان کے بھی سردار ہونگے ؟؟؟

سوال پوچھنے والے کا نام:   Muhammad umar Bhayo

جواب

سوال میں دو باتیں درج ہیں 

  1. الحسن والحسین سیدا شباب اھل الجنہ کا مطلب یہ ہے کہ حدیث پاک میں ”شباب“ کا لفظ انسان کی حالت وفات کے اعتبار سے وارد ہواہے کہ جو اہل ایمان حالت شباب میں انتقال فرما گٸے ان کے سردار حضرات حسنین کریمین رضی اللہ عنھما ہوں گے
  2. جامع ترمذی کی حدیث مبارک میں ہے کہ حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنھما جنت کے ادھیڑ عمروں کے سردار ہوں گے، اس کا مطلب بھی یہی ہے کہ دنیاوی حالت ِوفات کے اعتبار سے ان کو سردار کہا گیا ہے، اس اعتبار سے نہیں کہ وہ وہاں بھی ادھیڑ عمر کے ہوں گے ، یہ بالکل ایسے ہے جیسے کہ قرآن کریم میں( وَآتُواْ الْيَتَامَى أَمْوَالَهُمْ. النساء:2) یتیموں کو ان کی پہلی حالت کا اعتبار کرتے ہوئے بعد از بلوغت بھی یتیم کہا گیا ہے، حالانکہ بلوغت کے بعد تو یتیمی نہیں رہتی، جیسا کہ حدیث شریف ’’وَلا يُتْمَ بَعْدَ احْتِلامٍ‘‘ میں صراحت ہے۔

’’مرقاة المفاتیح‘‘ اور ’’تحفۃ الأحوذی‘‘ میں ہے:

" الكهول: بضمتين جمع الكهل، وهو على ما في القاموس من جاوز الثلاثين أو أربعا وثلاثين إلى إحدى وخمسين، فاعتبر ما كانوا عليه في الدنيا حال هذا الحديث، وإلا لم يكن في الجنة كهل، كقوله تعالى: وآتوا اليتامى أموالهم. "

(مرقاۃ المفاتیح، (9/ 3913)، ط / دار الفكر، بيروت - لبنان)

(تحفة الأحوذی، (10/ 103)، ط/ دار الكتب العلمية - بيروت)

’’تحفۃ الألمعي شرح سنن ترمذی ‘‘میں ہے : 

’’سوال: جنت میں کوئی ادھیڑ عمر نہیں ہوگا، سب (33) سال کی عمر کے ہوں گے ، پھر حدیث کا کیا مطلب؟ 

جواب: یہ مجاز ما کان ہے یعنی جو دنیا میں ادھیڑ عمر فوت ہوئے ہیں وہ جنتی مراد ہیں ، جیسے الحسن والحسین سیدا شباب أهل الجنةمیں بھی یہی مجاز مراد ہے‘‘۔

(تحفۃ الألمعي،مناقب ٲبی بکر الصدیق رضی اللہ عنہ، باب، (8/ 312)، ط/ زمزم پبلشرز، اردو بازار کراچی)