Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام
زبان تبدیل کریں:

ملا علی قاری امام ابو حنیفہ کے بعد سب سے بڑے حنفی مشکات المصابیح کی شرح کرتے ہوئے حدیث عمار بن یاسر کے کنٹکسٹ میں لکھتے ہیں کہ جب حضرت معاویہ پر واجب تھا کہ بغاوت چھوڑ دیتے اور سیدنا علی کی بیعت کر کے خلافت منفیہ کی طلب ترک کر دیتے۔ جو انہوں نے نہیں کیا۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ حضرت معاویہ باطن میں باغی تھے۔ لیکن لوگوں کو دکھانے کے لیے قصاص عثمان کا لبادہ اوڑھا ھوا تھا ملاح علی قاری حنفی۔

سوال پوچھنے والے کا نام:   Khizar Hayat Shah

جواب:
 یہ نامکمل حوالہ بھیجا گیا ہے اگر مکمل حوالہ بھیجا جائے تو اصل کتاب دیکھ کر تسلی کی جا سکتی ہے کہ اصل بات کیا ہے:
 باقی ملا علی قاری رحمۃ اللہ سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کے بارے میں کیا موقف رکھتے ہیں؟ ان کا موقف ایک نہیں متعدد کتابوں کے اندر موجود ہے۔۔۔ وہ سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو عادل قرار دیتے ہیں مرقات میں لکھتے ہیں۔
حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ عادل اور صاحب فضیلت صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین میں سے ہیں اور ان کا شمار اخیار صحابہ کرام میں ہوتا ہے مرقات المفاتیح جلد 11 صفحہ 272
مشکوٰۃ المصابیح - معجزوں کا بیان - حدیث نمبر 5806 کے تحت حدیث کا مصداق بیان کرتے ہوٸے درج ہے کہ:
شارحین حدیث نے لکھا ہے کہ آنحضرتﷺ کی اس پیشن گوئی کو پورا ہونا تھا اور وہ پوری ہوئی۔ حضرت عمار ابن یاسر رضی اللہ عنہ جنگ صفین میں امیر المؤمنین حضرت علی رضی اللہ عنہ کی طرف سے شریک ہوئے اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے گروہ کے ہاتھوں شہید ہوئے۔ اس سے معلوم ہوا کہ اس تنازعہ میں حضرت علی رضی اللہ عنہ حق پر تھے کیونکہ آنحضرتﷺ نے فرمایا تھا کہ عمار کی موت باغیوں کے ہاتھوں ہوگی اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے گروہ نے انہیں قتل کردیا۔ ایک روایت میں نقل کیا گیا ہے کہ جب اس جنگ میں حضرت عمار رضی اللہ عنہ شہید ہوگئے تو حضرت عَمرو بن العاص رضی اللہ عنہ جو حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھے، نہایت سراسیمہ ہوئے اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس آکر کہنے لگے یہ تو بڑی پریشانی کی بات پیدا ہوگئی کہ عمار ہمارے لشکر کے ہاتھوں مارے گئے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے کہا کیوں اس میں پریشانی کی کیا بات ہے؟ حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ نے کہا میں نے آنحضرت ﷺ کو عمار سے یہ فرماتے ہوئے سنا تھا کہ تمہیں باغیوں کا گروہ قتل کرے گا۔ معاویہ رضی اللہ عنہ نے جواب دیا تو عمار رضی اللہ عنہ کو ہم نے کب قتل کیا ہے، اصل میں تو علی رضی اللہ عنہ نے ان کو مارا ہے وہی ان کو اپنے ساتھ جنگ میں لائے تھے۔ یہ بھی منقول ہے کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ اس حدیث کے الفاظ تاویل کرتے تھے ان کا کہنا تھا کہ لفظ باغیہ، یہاں بغی سے مشتق نہیں ہے جس کے معنی بغاوت کے ہیں بلکہ بغاء سے مشتق ہے جس کے معنی ڈھونڈ ھنا، طلب کرنا ہیں اس اعتبار سے ان کے نزدیک آنحضرتﷺ کے ارشاد تقتلک الفئۃ الباغیۃ کا ترجمہ یہ ہوا کہ ( عمار) تمہیں مطالبہ کرنے والوں کا ایک گروہ قتل کرے گا، مطلب یہ کہ جو گروہ قصاص اور خون بہا کا مطالبہ کرے گا، اسی کے ہاتھوں عمار کا قتل ہوگا، چناچہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کہا کرتے تھے کہ نحن فئۃ باغیۃ طالبۃ لدم عثمان ( ہم مطالبہ کرنے والا گروہ ہیں، جو حضرت عثمانِ غنیؓ کے خون بہا کا طالب ہے) لیکن عقل ونقل کی روشنی میں حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی یہ تاویل نہیں بلکہ صریح تحریف ہے۔ بعض روایتوں میں تو یہاں تک نقل کیا گیا ہے۔ کہ جب حضرت عمر و بن العاص رضی اللہ عنہ نے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے سامنے مذکورہ پریشانی کا ذکر کیا تو حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا کہ تم عجیب آدمی ہو اپنے سے کمتر آدمی کے معاملہ میں پھسلے جاتے ہو یعنی عمار تو تمہارے مقابلہ میں ایک ادنیٰ شخص تھے، پھر یہ کیا ہے کہ تم ان کا معاملہ لے کر تذبذب کا شکار ہو گئے ہو اور ہماری رفاقت سے الگ ہونا چاہتے ہو۔ لیکن ملا علی قاری رحمۃ اللہ نے شیخ اکمل الدین رحمۃ اللہ کے حوالہ سے لکھا ہے کہ یہ دونوں باتیں حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ پر افتراء ہے، انہوں نے نہ تو حدیث کی یہ تاویل کی ہے جو تحریف کے مترادف ہے اور نہ حضرت عمار رضی اللہ عنہ کے بارے میں ایسی پست بات کہی۔