سَیِّدُنَا عثمانؓ جنگِ بدر، جنگِ اُحد اور بیعتِ رِضوان وغیرہا جیسے اَہم موقعوں پر غائب کیوں رہے اتنی عظیم شخصیت کا ایسے مواقع پر غائب رہنا كچھ شکوک و شبہات پیدا کرتا ہے اِس کی تفصیل فرما دیں؟
سوال پوچھنے والے کا نام: ارشاد احمد از سرائے عالمگیرجواب
سَیِّدُنَا عثمانؓ کا جنگِ اُحد کی اَفراتفری میں مُنتَشِر ہونا کسی معتبَر طریق سے ثابت نہیں، محض ایک اعتراض ہے جو مخالفین کے حوالے سے ہی ہماری کتابوں میں نقل ہے. تحقیقی وزن تو اس کا نہیں ہے باقی رہا الزامی جواب تو ہمارے بزرگوں نے نہایت شرح و بسط کے ساتھ اس کی تفصیل فرمائی ہے یعنی اگر آپ جنگِ اُحد کے موقع پر عوامی افراتفری میں منتشر ہو بھی گئے تو اس سے کوئی الزام قائم نہیں ہوتا. ربُّ العزت نے اِس اضطراری کیفیت کے جُملہ نتائج کو قران پاک میں معاف فرما دیا ہوا ہے. سَیِّدُنَا عبداللہ بن عمرؓ کا الزامی جواب اور جنگِ بدر اور صلحِ حدیبیہ میں شامل نہ ہو سکنے کے تحقیقی جواب بڑی تفصیل سے پیش فرمائے ہیں. سَیِّدُنَا عثمان بن موہبؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے مکہ میں سوال کیا.
انى سائلك عن شيء افتحدثنى قال انشدك بحرمت هذا البيت اتعلم ان عثمان بن عفان فر يوم احد قال نعم قال فتعلمه تغيب عن بدر فلم يشهدها قال نعم، قال فتعلم انه تخلف عن بيعت الرضوان فلم يشهدها، قال نعم قال فكبر قال ابن عمر تعال لاخبرك ولابين لك عما سألتني عنه. اما فراره يوم احد فأشهد ان الله عفا عنه واما تغيبه عن بدر فانه كانت تحته بنت رسول الله صلى الله عليه وسلم وكانت مريضة فقال له النبي صلى اجر رجل ممن شهد بدرا وسهمه و اما تغيبه من بيت الرضوان فانه لو كان أحد اعز ببطن مكة من عثمان بن عفان لبعثه مكانه فبعث عثمان وكانت بيعت الرضوان بعد ما ذهب عثمان الى مكة فقال النبي صلى الله عليه وسلم بيده اليمنى هذا يد عثمان فضرب بها على يده فقال هذه لعثمان اذهب بهذا الان معك.
(صحیح بخاری جلد 2، صفحہ 582)
ترجمہ:
"میں آپ سے ایک سوال پوچھتا ہوں کہ آپ مجھے بتائیں گے. میں آپ کو اس مقدس مقام کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کیا آپ جانتے ہیں کہ سَیِّدُنَا عثمانؓ جنگِ احد کے دن میدان سے چلے گئے تھے آپ نے کہا ہاں. اس نے پوچھا کیا آپ یہ بھی جانتے ہیں کہ سَیِّدُنَا عثمانؓ جنگِ بدر میں غائب تھے اور حاضر نہ ہوئے آپ نے فرمایا ہاں. اس نے پوچھا کیا آپ جانتے ہیں کہ وہ بیعتِ رضوان سے پیچھے رہے اور شامل نہ ہوئے آپ نے فرمایا ہاں. اس نے طنزاً اللہ اکبر کہا. اِس پر سَیِّدُنَا ابن عمرؓ نے فرمایا آ میں تجھے بتاؤں اور جو تُو نے پوچھا ہے اُسے بیان کروں. آپ کا جنگِ احد سے چلے جانا جو ہے اُس کے بارے میں شہادت دیتا ہوں کہ اللہ تعالی نے معاف فرما دیا ہے اور آپ کا جنگِ بدر سے غائب ہونا اس لیے تھا کہ حضورﷺ کی بیٹی جو آپؓ کے نکاح میں تھیں بیمار تھیں، پس حضورﷺ نے سَیِّدُنَا عثمانؓ کو فرمایا تھا کہ جنگِ بدر میں شامل ہونے کا تجھے ثواب بھی ملے گا اور مالِ غنيمت میں سے دوسروں کے برابر حصہ بھی ملے گا. اور آپؓ کا بیعتِ رضوان سے پیچھے رہنا اس لیے تھا کہ حضور ﷺ نے سَیِّدُنَا عثمانؓ كو کفارِ مکہ کے ساتھ مسلمانوں کی طرف سے گفتگو کرنے کے لیے بھیجا ہوا تھا. مکہ والوں کے لیے حضرت عثمانؓ سے بڑھ کر اگر کوئی معزز ہوتا تو حضورﷺ اُسے بھیجتے اور بیعتِ رضوان سَیِّدُنَا عثمانؓ کے مکہ جانے کے بعد ہوئی پس نبی اکرمﷺ نے اپنے ایک ہاتھ کو سَیِّدُنَا عثمانؓ کا ہاتھ قرار دے کر دوسرے ہاتھ کے ساتھ بیعت فرمائی اور کہا کہ یہ عثمانؓ کا ہاتھ ہے یعنی عثمانؓ کی جانب سے میں خود بیعت کر رہا ہوں. اِس کے بعد سَیِّدُنَا عبداللہ بن عمرؓ نے فرمایا کہ جواب اپنے ساتھ لے جا."
حضرت عبداللہ بن عمرؓ نے جو جنگِ اُحد کے بارے میں ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالی نے انہیں معاف فرما دیا تھا اس کا مآخذ سورۂ آل عمران کی یہ آیت مبارکہ ہے۔
ان الذین تولوا منکم یوم التقی الجمعان انما استزلھم الشیطن ببعض ما کسبوا ولقد عفا الله عنھم ان الله غفور حلیم.
ترجمہ:
"جو لوگ تم میں سے اُس دن بھاگ گئے جس دن دونوں جماعتوں کی ٹکر ہوئی یعنی جنگِ اُحد کے دن تو سوائے اس کے اور کوئی وجہ نہیں کہ شیطان نے انہیں پھسلا دیا تھا بہ وجہ اُن کے بعض کاموں کے اور البتہ اللہ تعالی نے انہیں معاف کر دیا ہے تحقیق اللہ تعالی بخشنے والے اور حلم والے ہیں."
جنگِ اُحد میں چونکہ مسلمانوں کو ایک مغالطہ لگ گیا تھا جس کی وجہ سے وہ شریکِ جنگ نہ رہے اور پھر بھاگنا پڑا. اس لیے اللہ تعالی نے انہیں معاف فرما دیا کیونکہ یہ اُن کی ایک اجتہادی غلطی تھی. انہوں نے سمجھ لیا تھا کہ فتح ہو چکی ہے اور اپنے مورچوں کو چھوڑ دیا تھا حالانکہ دشمن پہاڑ کے پیچھے سے حملہ کرنے کا ارادہ کر رہے تھے چنانچہ ایسا ہی ہوا حضورﷺ نے باوجود یہ کہ پہلے ہدایت بھی فرمائی تھی کہ خواہ ہم کو کامیاب بھی ہو جائیں مورچے نہ چھوڑنا مگر فتح کی خوشی کی وجہ سے وہ اپنے آپے میں نہ رہے "ببعض ماکسبوا" سے یہی مراد ہے. وہ صحابہ صرف اسی وجہ سے پھسلے تھے. بُزدلی یا ڈر کی وجہ سے نہیں ورنہ انما کا کلمۂ حصر چہ مَعنی دارَد ؟ پس جب کہ اللہ تعالی نے معاف فرما دیا تو اب اعتراض کرنے کی کون شقی القلب جرأت کر سکتا ہے چنانچہ امام بخاریؒ نے آیہ مذکورۃ الصدر کو ہی سابقہ حدیث کا ترجمۃ الباب قرار دیا ہے۔جنگِ بدر میں جس طرح بنتِ رسول کی نگرانی کے پیشِ نظر سَیِّدُنَا عثمانؓ شامل نہ ہو سکے تھے اسی طرح حضورﷺ کے اہل و عیال کی نگہداشت کی وجہ سے سَیِّدُنَا علیؓ بھی غزوۂ تبوک میں شامل نہ ہو سکے تھے اور سَیِّدُنَا عثمانؓ نے ہی اِس غزوہ کی تیاری کروائی تھی مگر چونکہ اِن دونوں بزرگوں کے یہ کام خدا کے رسولﷺ کی رضا اور حکم کے ماتحت ہے اس لیے ان پر اعتراض بھاری غلطی ہوگی. ہاں سَیِّدُنَا عثمانؓ بموجب نصِّ نبوی بدری ہونے کی فضیلت بااعتبار شمولیت اور بااعتبار غنیمت ضرور رکھتے ہیں اور اگر سَیِّدُنَا علیؓ کے لیے غزوۂ تبوک میں شامل ہونے والوں کی فضیلت خصوصی طور پر مذکور نہیں تو اِس سے آپ کی شان میں کوئی فرق نہیں آتا. آپ تو جانے کے لیے تیار تھے مگر حضورﷺ نے ہی آپ کو اس منزلت میں رکھ کر جو سَیِّدُنَا ہارونؑ کو سَیِّدُنَا موسیؑ کے ساتھ تھی. اپنے اہل و عیال کی دیکھ بھال کے لیے متعین فرمایا تھا. باقی بیعتِ رضوان میں سَیِّدُنَا عثمانؓ کو وہ فضیلت حاصل ہوئی تھی جو کسی دوسرے صحابی کو حاصل نہ ہو سکی اور اس پر جتنا بھی فخر کیا جائے، کیا جا سکتا ہے۔
واللہ اعلم بالصواب