یزید نے سَیِّدُنَا حسینؓ کے ساتھ جو سلوک کیا اُس کی ذمہ داری سَیِّدُنَا امیر معاویہؓ پر بھی عائد ہوتی ہے یا نہ؟ اگر یزید کی بجائے اُس وقت سَیِّدُنَا امیر معاویہؓ برسرِ حکومت ہوتے تو کیا اُن کا عمل ایسا نہ ہوتا ؟ اگر نہیں تو پھر اُنہوں سَیِّدُنَا علی المرتضیٰؓ کے ساتھ جنگیں کیوں کیں؟سَیِّدُنَا علیؓ کی سَیِّدُنَا امیر معاویہؓ کے بارے میں کیا رائے تھی؟
سوال پوچھنے والے کا نام: محمد رفیق اکبر بازار خانیوالجواب:
1- یزید نے سَیِّدُنَا حسینؓ کے ساتھ جو سلوک کیا اُس کی ذمہ داری اسی پر عائد ہوتی ہے. سَیِّدُنَا امیر معاویہؓ اس عمل سے بالکل پاک اور بری ہیں. اگر اُن پر یہ ذمہ داری اس لیے ڈالی جائے کہ انہوں نے یزید کو اَربابِ حل و عقد کے شورائی فیصلے سے اپنا ولی عہد بنایا تھا تو یہ بار سیدنا امیر معاویہؓ پر اس لئے نہیں آتا کہ انہوں نے ولی عہد بنانے کے ساتھ سَیِّدُنَا حسینؓ کے متعلق بھی واشگاف الفاظ میں حکم فرما دیا تھا. شیخ ابن بابویہ قمی سند معتبر سے سَیِّدُنَا زین العابدینؓ سے نقل کرتے ہیں کہ حضرت امیر معاویہؓ نے یزید سے کہا:
”امام حسینؓ پس میدانی نسبت و قرابت او بآں حضرت رسالت داد پاره تن آن حضرتؐ است و از گوشت و و خون آن حضرتؐ پر ورده است و من میدانم کہ البتہ اہلِ عراق اورا بسوئے خود خواہند برد و یاری او نخواہند کرد وا ورا تنها خواہند گذاشت اگر با و ظفریابی حق حرمت او را بشناس و منزلت و قرابت او با پیغمبر بیاد آور د او را بکر وہ ہائے او مواخذه مکن و روابطی کہ من با او دریں مدت محکم کرده ام قطع مکن زنهار کہ با او مکرو آسیبی برسانی“
(جلاءُ العیون صفحہ 388 طبع ایران، طبع دوم 348 طبع اول ایران)
ترجمہ: ”لیکن حسینؓ کے متعلق تو تو جانتا ہی ہے کہ اسے حضرت رسالتﷺ کے ساتھ کتنی قرابت اور نسبت حاصل ہے. وہ حضور ﷺ کے لخت جگر ہیں اور آنحضرتﷺ کے گوشت اور خون ہی کے پروردہ ہیں. مجھے پتہ ہے کہ اہلِ عراق اُنہیں اپنے ہاں بلائیں گے اور پھر اُن کی مدد نہیں کریں گے بلکہ اُنہیں تنہا چھوڑ دیں گے. اگر تجھے اُن پر کامیابی حاصل ہو تو اُن کے احتِرام کا پورا حق ادا کرنا، اُن کے درجے اور ان کی پیغمبرﷺ کے ساتھ قرابت کو یاد رکھنا اور ان کے کسی بھی عمل پر ان سے مواخذہ نہ کرنا اور وہ تعلقات جو میں نے اب تک ان کے ساتھ مضبوط کیے ہیں انہیں ہرگز نہ توڑنا. دیکھنا کہیں ایسا نہ ہو کہ انہیں کوئی دھوکا اور تکلیف تمہاری طرف سے پہنچے.“
اتنے واضح ارشادات اور اتنی کُھلی ہدایات کے بعد اب جو کچھ بھی یزید کا عمل ہو اس کی ذمہ داری سَیِّدُنَا امیر معاویہؓ پر ہرگز عائد نہیں ہوتی. یزید نے اِن ہدایات کے خلاف ورزی کی، ابن زیاد سَیِّدُنَا حسینؓ سے بدسلوکی کا موجب ہوا یہ اس کی تفضیل کا موقع نہیں. اُصولی طور پر ان احکام کا وجود سَیِّدُنَا امیر معاویہؓ کہ دامنِ اقدس پر کوئی دھبہ آنے نہیں دیتا اور ہم اہلِ سنت و الجماعت کے نزدیک علمِ غیب خاصۂ باری تعالیٰ ہے. اگر حضرت امیر معاویہؓ کو یہ پتہ نہ چل سکا کہ یزید اِن اَحکام کی کہاں تک پابندی کرے گا تو یہ سَیِّدُنَا امیر معاویہؓ کا قصور نہیں. شاہ عبدالعزیز محدث دہلویؒ فرماتے ہیں:
”علم غیب اصلاً نزد اہلسنت بلکہ جميع طوائف مسلمین غیر از شیعہ شرطِ امامت نیست.“
(تحفہ، صفحہ 305 لکھنؤ)
”علمِ غیب خاصۂ خدا ست پیغمبراں ہم نظر بحال ظاہر آرایاں باطن خراب نفاق پیشہ فریفتہ مے شوند تا وقتیکہ وحی الہی و وقائع اللّٰهی کشف حال شاں بکند.“
پھر آگے لکھتے ہیں:
”امام را علمِ غیب ضرور نیست کہ در حسن ظن خطا نکند و ہر کس را بحسب آنچہ از و صادر شدنی است بداند.“
(تحفہ، صفحہ 307 لکھنؤ)
حاصلِ ترجمہ:
علمِ غیب کا لازم ہونا صرف شیعوں کا عقیدہ ہے حق یہ ہے کہ علمِ غیب خاصۂ خدا ہے. پیغمبر بھی ظاہر حال پر حکم کرتے ہوئے بعض اوقات باطن خراب اور نفاق پیشہ لوگوں کا اعتبار کر لیتے ہیں اور جب تک وحیِ الہی، واقعات، حالات انکشاف نہ کر دیں پیغمبروں کا ظاہر بھی حالات پر ہی مبنی ہوتا ہے امام کے لیے ضروری نہیں کہ وہ اپنے حسن ذہن میں خطا کر ہی نہ سکے اور جو کچھ آگے ہوتا ہے وہ اسے پُوری طرح جانتا ہو.
حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلویؓ کی تفصیل سے یہ امر اَز خود واضح ہے کہ یزید نے سَیِّدُنَا حسینؓ کے ساتھ جو سلوک بھی کیا سَیِّدُنَا امیر معاویہؓ اور اس کی کوئی ذمہ داری عائد نہیں ہوتی۔
2- یزید کی بجائے اُس وقت اگر خود سَیِّدُنَا امیر معاویہؓ برسرِ حکومت ہوتے تو واقعاتِ کربلا کا نقشہ اس طرح ہرگز نہ ہوتا.
اولاً اس لیے کہ سَیِّدُنَا حسینؓ کے متعلق سَیِّدُنَا امیر معاویہؓ کے خیالات اور ارادے جو بحوالۂ بالا ارشادات سے ثابت ہوتے ہیں ہر ممکن بدسلوکی سے مانع ہوتے۔
ثانیاً سَیِّدُنَا امیر معاویہؓ کے یہ جذبات عقیدہ کے درجہ تک پختہ تھے کہ آلِ رسول اور حضرات اہلِ بیت کے ساتھ تعلقات اور روابط مضبوط سے مضبوط تر کرنے چاہئیں جیسا کہ جلاءُ العیون کی مذکورہ بالا عبارت سے اَز خود واضح ہوتا ہے۔
ثالثاً اگر اُس وقت یزید کی بجائے خود سَیِّدُنَا امير معاویہؓ کی حکومت ہوتی تو سَیِّدُنَا حسینؓ بھی ہرگز مخالفت میں نہ آتے بلکہ وہ سَیِّدُنَا امیر معاویہؓ کا مقام، مرتبہ اور پالیسی پہچانتے تھے. اگر اُن کے نزدیک سَیِّدُنَا امیر معاویہؓ کی شخصیت لائقِ احتِرام نہ ہوتی تو وہ اُن کی ہرگز بیعت نہ فرماتے اور اُن کو ہرگز اپنا رہنما تسلیم نہ کرتے. رِجال کشی میں صاف طور پر منقول ہے کہ سَیِّدُنَا حسنؓ اور سَیِّدُنَا حسینؓ اِن دونوں بزرگوں نے سَیِّدُنَا امیر معاویہؓ کی بیعت فرمائی تھی. ملا باقر مجلسی نے پوری وضاحت کے ساتھ اس بیعت کو تسلیم کیا ہے. پس یہ تو تصوُّر میں بھی نہیں آ سکتا کہ سَیِّدُنَا حسینؓ جس ہستی کو بیعت کرنے کے لائق سمجھتے ہیں وہ اُن کی مخالفت پر اتر آتے. (معاذ اللہ ثم معاذ اللہ)
3- باقی رہا یہ امر کہ سَیِّدُنَا امیر معاویہؓ نے سَیِّدُنَا علی المرتضیؓ کے ساتھ جنگیں کیوں کیں سو یہ ہے ہی سرے سے غلط. سَیِّدُنَا امیر معاویہؓ نے سَیِّدُنَا علی المرتضیؓ کے خلاف کبھی لشکر کشی نہیں کی بلکہ اس کے برعکس سَیِّدُنَا علی المرتضیؓ نے سَیِّدُنَا امیر معاویہؓ کے ساتھ جنگیں کیں. حضرت امیر معاویہؓ تو صرف دفاع کر رہے تھے کہ جب تک سَیِّدُنَا علی المرتضیؓ قاتلینِ سیدنا عثمانؓ کو گرفتار نہ کر لیں وہ اُن کے اَحکام متعلِقہ عزل و نصب عمال ماننے کے لیے تیار نہیں. اور یہ محض اجتہادی امور تھے اور جب سیدنا حسنؓ نے سَیِّدُنَا امیر معاویہؓ کے ساتھ اِن تمام واقعات اور جنگوں کے پسِ منظر کے باوجود صلح کر لی تو اس صلح کے بعد اب یہ پِچھلے اِختلافات کو اچھالنا کوئی عِلمی شان نہیں اور نہ یہ دیانت کا مقتضا ہے۔
4- سیدنا علیؓ کی سَیِّدُنَا امیر معاویہؓ کے متعلق کیا رائے تھی اس کے لیے سَیِّدُنَا علی المرتضیؓ کا یہ ارشاد کافی ہے فرماتے ہیں:
”بخدا سوگند کہ معاویہؓ از برائے من بهتر ازیں جماعت، اینها دعویٰ می کنند کہ شیعہ منند و اراده قتل من کردند و مالِ مرا غارت کردند. بخدا سو گند گر از معاویہ عہدے بگیرم و خون خود را حفظ کنم و اینم گردہم در اہل و عیال خود بهتر است برائے من از آنکہ اینها مرا بکشند“
(جلاء العیون 290 مطبوعه ایران)
ترجمہ:
خدا کی قسم معاویہؓ میرے لیے اُن لوگوں سے بہتر ہیں جو دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ میرے شیعہ ہیں اگر میں معاویہؓ کے ساتھ صلح کر لوں اور اپنی اور اپنے اہل و عیال کی حفاظت کر لوں یہ میرے لیے اس سے بہتر ہے کہ میرے اپنے ہونے کا دعویٰ کرنے والے مجھے مار ڈالیں۔
نہج البلاغہ میں سَیِّدُنَا علی المرتضیؓ کا یہ خطبہ نہایت واضح ہے کہ آپ سَیِّدُنَا امیر معاویہؓ اور ان کے ساتھیوں سے ایمان میں زیادہ نہیں اور نہ یہ لوگ سَیِّدُنَا علی المرتضیؓ سے ایمان میں آگے ہیں. مومَن بِہ امور میں سب برابر ہیں. سب کا خدا ایک، پیغمبر ایک، قبلہ ایک، کتاب اور دعوت الَی اسلام ایک. یہ جو کچھ اختلافات ہوئے صرف انتظامی امور میں ہوئے کہ قاتلینِ سیدنا عثمانؓ سے کس طرح نبٹا جائے اور خدا گواہ ہے کہ ہم اس خون سے بالکل بری ہیں. اوکما قالؓ.
واللہ اعلم بالصواب ۔