گذشتہ سال ربیعُ الاوّل کے موقع پر عیدگاہ تلہ گنگ کے اِجتماعِ عام میں سیرت کے موضوع پر تقریر کرتے ہوئے آپ نے فرمایا تھا کہ جب قیصر روم کے دربار میں حضورﷺ کے ظہور کی خبر پہنچی تو اس نے سوال کیا تھا کہ کیا اس کے پہلے ساتھیوں میں سے کوئی اسے چھوڑ بھی گئے ہیں یا آپﷺ کے ساتھ ہیں اور روز بروز بڑھ رہے ہیں، اِس پر ابو سفیان جو اُس وقت تک مسلمان نہ تھے انہوں نے کہا نہیں۔ اس پر قیصر نے اسے اسلام کی صداقت کا نشان سمجھا۔ آپ کے بیان سے تلہ گنگ میں یہ بات چل نکلی ہے کہ مودودی صاحب کو ان کے پہلے ساتھی تقریبا سب کے سب چھوڑ گئے ہیں، اس کی کیا وجہ ہے؟ ان کے پہلے ساتھی جو خلاص بھی تھے اور علماء بھی، یہ سب کے سب انہیں کیوں چھوڑ گئے ہیں۔ جب ہم نے ان لوگوں کے سامنے مولانا منظور احمد نعمانی، مولانا امین احسن اصلاحی ، غازی عبدالجبار، مولانا عبدالغفار حسن، سعید ملک وغیرہ کے نام لیے۔ انہوں نے کہا کہ علامہ صاحب جو روایت بیان کر گئے ہیں وہ ہے ہی سرے سے غلط. کسی تاریخ میں یہ سوال موجود نہیں برائے نوازش تصحیح فرما کر مشکور فرمائیں؟
سوال پوچھنے والے کا نام: سائل اظہار سبطین زیدی واہ راولپنڈیجواب :
یہ صحیح ہے کہ کسی پروگرام کے ابتدائی کارکن اس کے درست رفتار یا غلط رفتار ہونے کی کافی شہادت ہوتے ہیں، مخالفینِ اسلام نے آنحضرتﷺ کی تعلیمات کو ناکام کرنے کے لیے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے خلاف اور ان بزرگوں کے صراط مستقیم سے پھر جانے کا پراپیگنڈہ بھی محض اسی لیے کیا تھا کہ اس طرح بالواسطہ حضور کی رسالت کو غلط اور ناکام ثابت کیا جائے جائے کسی تحریک کے ابتدائی کارکن جب سب کے سب اسے چھوڑ رہے ہوں تو یہ داخلی امور کی ایک منہ بولتی شہادت ہے کہ دال میں ضرور کالا ہے۔ ہر قل شاہِ روم کی شاهانہ بصیرت اور غیرمعمولی مردم شناسی اِسی نفسیاتی اُصول کی ترجمان تھی، جبکہ آنحضرتﷺ کے بارے میں اس نے ابو سفیان سے ایسے سوالات کئے تھے۔ تلہ گنگ کے بعض لوگوں کا تاریخی واقعہ سے انکار اگر فرقہ وارانہ اور تعصب نہیں تو ناواقفیت اور جہالت ضرور ہے۔ امام بخاریؒ نے جلد 1 صفحہ 4 اس سوال و جواب کو اس طرح روایت کیا:
قال ایزیدون ام ينقصون قلت بل يزيدون قال فهل يرتد احد منهم سخطة لدینه بعد ان يدخل فيه قلت لا.
ترجمہ: ہرقل نے پوچھا کہ کیا اس مدعئ نبوت کے ساتھی بڑھ رہے ہیں ہیں یا گھٹ بھی رہے ہیں۔ تو میں نے کہا وہ تو بڑھ رہے ہیں۔ پھر پر اس نے کہا کہ کوئی شخص آپ کے پروگرام میں داخل ہونے کے بعد اس تحریک سے ناراض ہو کر علیٰحدہ بھی ہوا ہے. میں نے کہا نہیں؟ پھر ہر قل نے اسے تحریکِ اسلام کی صداقت کا ایک نفسانی معیار قرار دیتے ہوئے کہا ۔” وكذلك الايمان حين تخالط بشاشة القلوب“ (بخاری)
ترجمہ ایمان کی بات اس طرح ہے جب اس کی بشاشت دلوں میں آملے۔
والله اعلم بالصواب و علمه اتم واحکم فی کل باب.
کتبه خالد محمود عفی عنه