کیا سَیِّدُنَا حسنؓ کی اولاد آگے چلی ہے؟ ایک صاحب کہتے ہیں کہ اُن کی اولاد آگے نہیں چلی اور نہ اُن کی نسل سے کوئی موجود ہے. وہ یہ کہتا ہے کہ سَیِّدُنَا حسنؓ نے سَیِّدُنَا امیر معاویہؓ سے جو صلح کر لی تھی یہ امر اسی کا صلہ اور ثمرہ تھا یہ کہاں تک درست ہے ؟
سوال پوچھنے والے کا نام: محمد دین از گوجرہ ضلع لائل پورجواب:
علمائے تاریخ و سِیَر کا سَیِّدُنَا حسنؓ کی اولاد میں بہت اختلاف ہے لیکن یہ اختلاف صرف تعداد میں ہے. نفسِ اولاد اور پھر کثرتِ اولاد میں کوئی اختلاف نہیں. واقدی اور کلبی انکے پندرہ لڑکے اور آٹھ لڑکیاں بتلاتے ہیں. ابن جوزی سولہ لڑکے اور چار لڑکیاں کہتے ہیں. ابن شہر آشوب پندرہ لڑکے اور چھ لڑکیاں ذکر کرتے ہیں لیکن شیخ عباس قُمّی جن کی تحقیقات پر علمائے اِمامیہ کو کافی اعتماد ہے دس لڑکے اور سات لڑکیاں شمار کرتے ہیں. شیخ عباس قمی نے اس آخری قول کو ہی اپنا مختار قرار دیا ہے۔
امام حسنؓ کی اولاد میں سے صرف چار لڑکے صاحب اولاد ہوئے:
1- حسین اثرم
2- عمر
3- زید
4- حسن مثنیٰ
لیکن حسین اثرم اور عمر سے کوئی نرینہ اولاد نہ چلی. پس امام حسنؓ کی نسل کا بقا صرف زید اور حسن مثنیٰ سے ہوا. امامیہ کی معتبر کتاب منتہی الآمال فی تواریخ النبی والآل میں ہے:
” و فرزندانِ امام حسنؓ از زید و حسن مثنیٰ بجائے ماند لا جرم سادات حسنی بجملہ بتوسط زید و حسن بامام حسنؓ پیوستہ می شود“
(منتہی الآمال جلد 1، صفحہ 177،مطبوعہ ایران) سَیِّدُنَا حسنؓ کے بیٹے حسن مثنیٰ کے چھ لڑکے ہوئے عبداللہ محض، ابراہیم، حسن، داؤد، جعفر اور محمد.
ان میں سے سوائے محمد کے باقی سب کی اولاد چلی. عباس قمی کہتے ہیں:
” اما پسرانِ حسن مثنیٰ، بجز محمد تمامی اولاد آوردند.“
(منتہی الآمال جلد 1، صفحہ 182،مطبوعہ ایران).
سَیِّدُنَا حسنؓ کے پوتے عبداللہ محض کے پھر چھ لڑکے تھے. محمد(ملقَّب بنفسِ زکیہ) ، ابراہیم، ابو الحسن موسیٰ، یحییٰ، ابو محمد سلیمان، ابو عبداللہ ادریس.
ان میں سے تیسرے بیٹے ابو الحسن موسیٰ کو موسی المجون بھی کہا جاتا ہے. ان موسیٰ المجون کے ایک بیٹے کا نام بھی موسیٰ تھا جسے موسیٰ ثانی کہا جاتا ہے ان کی کنیت ابو عمرو تھی اور یہ راوئ حدیث بھی ہیں. ان ابو عمرو موسیٰ ثانی کے پوتے کا نام محمد اور اس محمد کے پوتے کا نام عبداللہ تھا جو شیخ عبدالقادِر جیلانیؒ کے دادا تھے. شیعہ کا یہ کہنا کہ سَیِّدُنَا حسنؓ کی اولاد آگے نہیں چلی ایک بالکل بے سرو پا بات ہے جس کی اربابِ سیر و تاریخ کے نزدیک کوئی حقیقت نہیں. امام عفیف الدین عبداللہ بن اسعد یافعی یمنی روض الریاحین کے تتمہ میں شیخ سیّد عبدالقادِر جیلانیؒ کا شجرۂ نصب یہ بیان کرتے ہیں۔
السید محی الدین ابو محمد عبدالقادر ابن السید ابی صالح موسی ابن السید عبداللہ ابن السید یحییٰ الزاہد ابن السید محمد ابن السید داؤد ابن السید موسیٰ الثانی ابن السید عبداللہ ابن السید موسیٰ المجون ابن السید عبداللہ المحض ابن السید الامام الحسن المثنیّٰ بن السید الامام الہمام الحسن السبط ابن الامام الہمام امیر المومنین سیدنا علی بن طالب رضی اللہ تعالی عنہا۔
مولانا عبدالرحمن جامیؒ نفحات الانس من حضرات القدس میں فرماتے ہیں کہ حضرت شیخ سید عبدالقادر جیلانیؒ ثابت النسب سید ہیں وہ فرماتے ہیں.
”فانه علوی حسنی من جانب الاب نقله علی القاری علیہ رحمۃ ربه الباری۔“
واللہ اعلم بالصواب