یہاں ایک شیعہ مقرر نے دوران تقریر میں کہا ہے کہ صلح حدیبیہ میں حضورﷺ نے مصلحتاً صلح کی تھی۔ اسی طرح سَیِّدُنَا علی نے مصلحتاً سَیِّدُنَا ابوبکر کے ہاتھ پر بیعت کرلی. ثابت ہوا کہ ایسے مواقع پر تقیہ جائز ہے؟
سوال پوچھنے والے کا نام: عبداللہجواب:
آپ نے جس شعیہ تقریر کا حوالہ دیا ہے وہ علم پرمبنی نہیں. بلکہ اس کا منشار جہل اور تعصب کا نہایت کریہہ امتزاج ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ وہ صاحب مذہب شیعہ کے اصولوں سے بھی واقف نہیں۔ آنحضرتﷺ کا مشرکین کے ساتھ صلح کرنا برابر کی سطح پر تھا. جس طرح کہ ایک آزاد خود مختار ریاست دوسری خود مختار مملکت سے معاہدہ کرتی ہے۔ اس میں ایک دوسرے کی ماتحتی یا سربراہی کا نام نہ تھا، جبکہ اہلِ مکہ اور اہلِ مدینہ سب اپنی اپنی جگہ آزاد، خود مختار تھے. جو اپنے اپنے صوابدید کے مطابق اپنا اپنا موقف اختیار کیے ہوئے تھے۔ ظاہر ہے کہ ایسے حالات میں تقیے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، تقیہ کے لیے ڈر شرط ہے اور پیغمبر اس سے پاک ہوتے ہیں، چہ جائیکہ ہم اسے خاتَمُ الانبیاءﷺ کی طرف نسبت کر سکیں۔ قرآن عزیز ارشاد فرماتا ہے:
الذین یبلغون رِسٰلٰت الله یخشونه ولا یخشون احدا الا الله ( سورة احزاب، پارہ 22)
ترجمہ:”جو لوگ اللہ تعالیٰ کی رسالت آ کے پہنچاتے ہیں اور وہ صرف اسی سے ڈرتے ہیں اور اللہ رب العزت کے سوا کسی کا ڈر ان کے قلب پر وارد نہیں ہوتا۔“
اس نص قرآنی کے ہوتے ہوئے الا من اکرہ و قلبه مطمئن بالایمان کو ان افراد عامہ سے متعلق ماننا پڑے گا جو مقتدیٰ اور پیشوا کی حیثیت نہیں رکھتے. جن بزرگوں کا عمل دوسروں کے لیے حجّت اور سند ہو اُن کے ظاہر اور باطن کے مختلف ہونے سے دین و مِلت کا سارا شیرازہ منتشر ہو جاتا ہے۔ پس تقیہ کی اگر کوئی حقیقت ہے تو وہ پیغمبروں اور پیشواؤں سے متعلق نہیں کیونکہ اس صورت میں حق ظاہر ہی نہیں ہو سکتا۔ آنحضرتﷺ کی صلح حدیبیہ کو ڈر اور تقیہ پرمحمول کرنا مقامِ رسالت پر ایک شرمناک حملہ ہے۔
اعاذنا اللہ منہا۔
شیعہ مسلک کے نہایت مقتدر فقیہ اور محَدِّث محمد بن حسن طوسی تہذیب الاحکام باب صفة الوضوء پر لکھتے ہیں:
لا تقیّة فیه اذا کان الخوف لا یبلغ الفزع علی النفس والمال۔
(تہذیب جلد 1 صفحہ 103)
ترجمہ:”جب تک اس درجے کا ڈر نہ ہو کہ جان اور مال معرضِ خطر میں ہوں اسوقت تک تقیہ جائز نہیں“
اب آپ ہی غور کریں کہ صلح حدیبیہ کے موقع پر آنحضرتﷺ کو کیا کسی قسم کا ڈر تھا؟ اگر آپ ہر لحاظ سے مجبورِ محض ہی تھے تو پھر بیعتِ رضوان آخر کس کے لیے لی جا رہی تھی؟ ممکن ہے تقیہ باز افراد اس بیعتِ رضوان کو بھی جس کی قرآن پاک نہایت شاندار انداز میں مدح فرماتا ہے اور رب العزت اسے اپنی بیعت قرار دیتے ہیں تقیہ پر محمول کریں، لیکن اربابِ خبر تو پورے یقین سے کہتے ہیں کہ بعیتِ رِضوان ایک حقیقت تھی وہاں ڈر اور تقیہ ہرگز نہ تھا۔ ملامحمد بن یعقوب الکلینی نقل کرتے ہیں کہ آنحضرتﷺ نے صلح حدیبیہ کے موقع پر مشرکین مکہ کے جواب میں فرمایا تھا:
”فقال رسول اللہ صلی الله علیه وسلم ولا حاجة لنا فیہم وعلی ان نعبد الله فیکم علانیة غیر سرّ.
(فروعِ کافی جلد 3، صفحہ 151،کتاب الروضہ) ترجمہ:”آنحضرتﷺ نے فرمایا: ہمیں اب ان کی ضرورت نہیں اور ہم اب تم میں علی الاعلان خدا کی عبادت کریں گے چھپ کر نہیں“۔
اِن حقائق کے ہوتے ہوئے صلح حدیبیہ کو تقیہ قرار دینا اور آنحضرتﷺ کی حدیبیہ کی پوزیشن ماتحت اور مغلوب قرار دینا یہ جسارت کسی جاہل یا معاند کے سوا اور کسی سے متصور نہیں۔
اسی طرح سَیِّدُنَا علی المرتضیٰ کے متعلق بھی ہم کبھی تصور نہیں کر سکتے۔ وہ اَسَدُ اللهِ الغالب، شیر خدا، تاتحِ خیبر اور قاتلِ مرحب ہو کر محض ڈر کی وجہ اور تقیہ کی چادر زیب تن کر کے سَیِّدُنَا ابو بکر صدیقؓ کی بیعت کریں یہ صحیح ہے کہ سَیِّدُنَا علی المرتضی نے سَیِّدُنَا صدیق اکبر کی بیعت کی اور آئمہ معصومین سے حقیقت واضح طور پر مذہب شیعہ کی اپنی کتابوں میں منقول ہے، لیکن سَیِّدُنَا علی المرتضی کی ذات والا صفات پر یہ ایک نہایت ناپاک اور رکیک حملہ ہے کہ معاذ اللہ انھوں نے سَیِّدُنَا ابوبکرؓ کی بعیت ڈرتے ہوئے کی تھی۔
واللہ اعلم۔