Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام
زبان تبدیل کریں:

حضورﷺ نے اپنے آخری دنوں میں سَیِّدُنَا اسامہ بن زیدؓ کی قیادت میں ایک لشکر شام کی طرف روانہ کیا تھا. 11کیا یہ صحیح ہے کہ اس میں سَیِّدُنَا ابوبکرؓ بھی تھے. اگر ایسا ہو تو معلوم ہوتا ہے کہ حضور ﷺ اُنہیں مدینہ سے باہر بھیجنا چاہتے تھے تاکہ آپ کی وفات کے وقت وہ پاس موجود نہ ہوں اور خلافت پر قبضہ نہ کر سکیں؟ پھر اگر سَیِّدُنَا ابوبکرؓ اس لشکر میں موجود ہوں تو انہیں چھوڑ کر اسامہؓ کو اس لشکر کا سردار کیوں بنایا سو جو ایک لشکر کی قیادت نہ کر سکے وہ پوری امت کی قیادت کیسے کر سکے گا؟

سوال پوچھنے والے کا نام:   معاویہ

جواب: 

آنحضرتﷺ نے اپنے وفات سے کچھ دن پہلے مقام اُبنیٰ کی طرف جانے کے لیے ایک لشکر تیار فرمایا تھا. اُبنیٰ شام کے علاقے میں ہے اور جنگِ موتہ یہیں لڑی گئی تھی جس میں سَیِّدُنَا زید بن حارثہ، جعفر طیار اور عبداللہ بن رواحہ رضوان اللہ علیہم اجمعین باری باری شہید ہوئے تھے اور سَیِّدُنَا خالد بن ولیدؓ کے ہاتھوں وہاں مسلمانوں کو فتح نصیب ہوئی تھی۔

جن لوگوں نے سَیِّدُنَا زید، جعفر اور عبداللہ بن رواحہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کو شہید کیا تھا حضورﷺ اُن سے قصاص لینا چاہتے تھے. آپﷺ نے 26صفر بروز پیر سَیِّدُنَا زیدؓ کہ بیٹے سَیِّدُنَا اُسامہؓ کو لشکر کا امیر مقرر فرمایا اور کہا کہ اپنے باپ کے مَقتَل اُبنیٰ کی طرف جاؤ اور صبح ان پر حملہ کر دینا ظاہر ہے کہ اِس میں سَیِّدُنَا اسامہؓ کا جذبہ کس قدر مخلصانہ ہو سکتا تھا یہی ان کی وجۂ انتخاب تھی۔

بدھ کے دن آپ نے اس لشکر کے لیے جھنڈا تیار فرمایا. سَیِّدُنَا اسامہؓ نے جھنڈا سَیِّدُنَا بُریدہ اَسلَمیؓ کو دیا اور مسلمان جرف کے مقام پر شام جانے کے لیے جمع ہونے لگے. اتوار کے دن حضورﷺ کی بیماری تیز ہو گئی. سَیِّدُنَا اسامہؓ خبر گیری کے لیے جرف سے آپ کی خدمت میں آئے اور حضور اکرمﷺ کی پیشانی پر بوسہ دیا اور اس وقت حضور ﷺ پر غشی طاری تھی پھر آپؓ سوموار کے دن حاضر ہوئے اب حضور ﷺ کو افاقہ ہوا تھا اور سَیِّدُنَا اسامہؓ کو دعا دی اور پھر اپنے لشکر میں جرف کے مقام پر آگئے اور لوگوں کو شام کی طرف روانگی کا حکم دیا۔

اس سے دو باتوں کا پتہ چلا:

1- سوموار کے دن جب حضورﷺ کو افاقہ ہوا تھا اور سَیِّدُنَا اسامہؓ آپﷺ کی خدمت میں آئے آپ نے اسامہؓ کو یہ نہیں کہا کہ پچھلے سوموار کو میں نے تمہیں روانگی کا حکم دیا تھا تو تم نے اتنے دن تاخیر کیوں کی؟ معلوم ہوتا ہے کہ آپﷺ کے نزدیک سَیِّدُنَا اسامہؓ کا آپ کی بیماری کے تیز ہونے کے باعث روانگی میں تاخیر کرنا کسی طرح موجبِ ملامت نہ تھا ورنہ آپ اس پر ضرور زجر فرماتے ہیں اور کہتے ابھی مدینہ سے نکل جاؤ تاکہ ابوبکرؓ یہاں نہ رہ سکیں (معاذ اللّٰہ)

2- سَیِّدُنَا اسامہؓ کی نیت حضورﷺ کی حکم عدولی نہ تھی صورتحال ہی ایسی تھی کہ وہ جا نہ سکتے تھے یہ اسی طرح ہے جس طرح صلح حدیبیہ کے موقع پر سَیِّدُنَا علیؓ نے تحریر معاہدہ سے رسولُ الله ﷺ کا لفظ کاٹنے سے انکار کر دیا تھا اور یہ حضور ﷺ کی حکم عدولی نہ تھی غایتِ احترام تھا۔

جب سَیِّدُنَا اسامہؓ حضورﷺ سے واپس لوٹے اور لشکر کو ابنیٰ جانے کا حکم دیا تو ایک شخص جسے آپ کی والدہ امِ ایمن نے بھیجا تھا آیا اور اطلاع دی کہ حضورﷺ پر اِس وقت نزع کی حالت طاری ہے تو آپؓ اور آپؓ کے ساتھ حضرت عمرؓ اور سَیِّدُنَا عبیدہؓ بھی تھے پھر مدینہ آئے اور اُسی دن حضورﷺ کی وفات ہو گئی. سب مسلمان جو جرف میں شام کے لیے جمع تھے مدینہ واپس آئے اور سَیِّدُنَا بریدہؓ نے وہ جھنڈا حضورﷺ کے حُجرۂ مبارک کے دروازے پر نصب کر دیا۔

1- اس سے پتہ چلا کہ سَیِّدُنَا ابوبکرؓ وہاں نہ تھے نہ لشکرِ اسامہؓ میں اُن کا نام تھا. وہ تو حضورﷺ کے ایام علالت میں مدینہ میں نمازیں پڑھا رہے تھے اور حضورﷺ نے ہی اُنہیں نماز پڑھانے کے لیے مقرر فرمایا تھا. یہ وسوسہ محض ایک شیطانی حرکت ہے کہ حضورﷺ اُن دنوں سَیِّدُنَا ابوبکرؓ کو مدینہ سے باہر بھیجنا چاہتے تھے اور اسی لیے معاذ اللّٰہ سَیِّدُنَا اسامہؓ کا لشکر تیار کیا تھا

2- سَیِّدُنَا عمرؓ اور سَیِّدُنَا ابو عبیدہؓ کا سَیِّدُنَا اسامہؓ کے ساتھ حضورﷺ کی خدمت میں آنا سَیِّدُنَا اسامہؓ کی اجازت سے تھا کیونکہ وہ امیرِ لشکر تھے. سَیِّدُنَا عمرؓ نے سَیِّدُنَا اسامہؓ سے تخلّف نہ کیا تھا اور حضورﷺ کی وفات کے بعد جب سَیِّدُنَا ابوبکرؓ نے اِس لشکرِ اسامہؓ کو روانہ فرمایا تو سَیِّدُنَا اسامہؓ سے اجازت مانگی کہ وہ سَیِّدُنَا عمرؓ کو اُن کے پاس چھوڑ جائیں تاکہ وہ مُہِماتِ خلافت میں ان کے مشورہ تدبر سے فائدہ اٹھا سکیں سَیِّدُنَا اسامہؓ نے سَیِّدُنَا عمرؓ کو ٹھہرنے کی اجازت دے دی اور سَیِّدُنَا ابوبکرؓ نے لشکر اسامہؓ کو روانہ فرمایا. ابنِ سعد 230 ھجری لکھتے ہیں۔

فبعثه ابو بكر واستأذن لعمر أن يتركه عنده فأذن اسامة لعمر. 

(طبقاتِ ابنِ سعد جلد 4،صفحہ 67) 

ابن جریر طبریؒ نے بھی لشکر اسامہؓ میں سَیِّدُنَا عمرؓ کا نام ذکر کیا ہے سَیِّدُنَا ابوبکرؓ کا نہیں۔

(دیکھیے طبری جلد 2، صفحہ 462) 

نوٹ:

معلوم رہے کہ حضورﷺ نے لشکرِ اسامہ ؓ کی تیاری تو فرمائی اسے روانگی کا حکم بھی دیا لیکن عملاً یہ لشکر عہدِ صدیقیؓ میں روانہ ہوا اور حضورﷺ کے عہد میں جب یہ لشکر روانہ ہی نہیں تو کسی کے اِس سے تَخَلُّف (پیچھے رہنے) کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا. سَیِّدُنَا عمرؓ اگر پیچھے رہے تو اپنی خواہش سے نہیں بلکہ حکمِ خلیفہ سے اور خلیفۂ وقت نے بھی اپنا حکم نہیں چلایا سَیِّدُنَا اسامہؓ سے اذن لیا. اس باضابطہ اجازت کو کسی طرح پہلوتہی نہیں کہا جا سکتا. ہاں جو اس سے بلا اذنِ امیر بھاگے اس پر بے شک یہ الفاظ منطبق ہو سکتے ہیں۔

”لعن الله من تخلف عن جیش اسامة“

اسے خواہ مخواہ سَیِّدُنَا عمرؓ پر منطبق کرنا ایک بغضِ باطنی اور صحابہ دشمنی سے زیادہ وقعت نہیں رکھتا اور سَیِّدُنَا اسامہؓ کو بھی اس لیے امیر نہ بنایا تھا کہ ان کا تجربہ اور مقام سَیِّدُنَا عمرؓ سے زیادہ تھا کہ اس لیے کہ وہاں سَیِّدُنَا اسامہؓ کے والد کا بدلہ لینا ہے پیش نظر تھا. اس کے ساتھ یہ ظاہر کرنا بھی پیش نظر تھا کہ حضورﷺ کا مسلمانوں پر ضبط و کنٹرول اتنا مضبوط ہے کہ جب چاہیں کسی چھوٹے کو بڑوں سے بھی آگے کر سکتے ہیں۔