آنحضرت ﷺ نے غزوہ تبوک پر سَیِّدُنَا علیؓ کو اپنا جانشین بنایا انہیں ہارونِ امت فرمایا. اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپؓ کو ہی آپﷺ کا جانشین ہونا چاہیے تھا سَیِّدُنَا ہارونؓ بھی اگر سَیِّدُنَا موسٰیؑ کے بعد زندہ رہتے تو کیا ان کے ہوتے ہوئے سَیِّدُنَا یوشع بن نونؑ خلیفہ ہو سکتے تھے؟
سوال پوچھنے والے کا نام: حمزہجواب:
اگر سَیِّدُنَا ہارونؑ سَیِّدُنَا موسیؑ کے بعد زندہ رہتے تو وہ خود ایک نبی کی حیثیت میں ہوتے سَیِّدُنَا موسیٰؑ کے خلیفہ نہ ہوتے. سَیِّدُنَا سلیمانؑ اپنے عہد میں خود ایک نبی تھے سَیِّدُنَا داؤدؑ کے خلیفہ کے طور پر معروف نہ تھے. سَیِّدُنَا یحییؑ کی شہرت خود ایک نبی کی تھی سَیِّدُنَا زکریاؑ کے خلیفہ کے طور پر نہ تھی. سَیِّدُنَا ہارونؑ سَیِّدُنَا موسیؑ کے خلیفہ ان کی زندگی میں تو ہو سکتے تھے اور ہوئے بھی لیکن اُن کی وفات کے بعد اُن کی خلافت کسی طرح سمجھ میں نہیں آئی وہ تو پیغمبر تھے۔
حضور اکرمﷺ نے مختلف سفروں میں مختلف صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو اپنا قائم مقام بنایا تو کیا ان میں سے ہر ایک کو حضورﷺ کا خلیفہ بلا فصل ہونا چاہیے؟ تو پھر یہ تقاضا کیوں کہ سَیِّدُنَا علیؓ کو حضور کی وفات کے بعد خلیفہ بلا فصل ہونا چاہیے تھا۔
غزوہ بنی قینقاع میں آپﷺ نے سَیِّدُنَا بشر بن منذرؓ کو مدینہ میں اپنا قائم مقام بنایا ہے غزوہ مریسیع میں سَیِّدُنَا زید بن حارثہؓ کو اور غزوہ بنی غطفان میں جسے غزوہ اَنمار بھی کہتے ہیں سَیِّدُنَا عثمانؓ کو مدینہ میں اپنا جانشین چھوڑا اور پھر غزوہ ذاتُ الرِّقاع میں آپﷺ نے سَیِّدُنَا عثمانؓ کو اپنا خلیفہ بنایا سَیِّدُنَا عثمانؓ اس اعتبار سے ممتاز ہیں کہ آپؓ نے دو مرتبہ حضورﷺ کی یہ جانشینی پائی اور اس جہت سے بھی آپ ذو النورین ٹھہرے۔
علامہ حافظ ابن تیمیہؒ نے اس طرح کے کچھ اور اسفار بھی ذکر کیے ہیں جن میں آپ وقتی طور پر کسی نہ کسی صحابی کو قائم مقام کرتے رہے ہیں۔
غزوۂ تبوک کے بعد حضورﷺ حجۃ الوداع کے لیے گئے تو مدینہ منورہ میں آپ کے جانشین سَیِّدُنَا ابو دجانہ الساعدیؓ ہوئے سَیِّدُنَا علیؓ اُن دنوں یمن گئے ہوئے تھے اور وہاں سے حکم آئے تھے پھر حضرت سباع بن عرفطہ غفاری کے بارے میں روایات ملتی ہیں کہ غزوہ تبوک کے بعد وہ بھی حضورﷺ کے وقتی طور پر جان نشین ہوئے تھے۔