حضورﷺ نے 9 ھجری کے حج پر سَیِّدُنَا ابوبکرؓ کو امیرِ حج بنا کر بھیجا تھا پھر آپﷺ نے سَیِّدُنَا علیؓ کو آپؓ کے پیچھے بھیجا. مطلع کریں کہ آپﷺ نے سَیِّدُنَا علیؓ کو بھیج کر سَیِّدُنَا ابوبکرؓ کی امارت کو ختم کیا تھا یا اس کی وجہ کچھ اور تھی؟
سوال پوچھنے والے کا نام: عمرجواب:
آنحضرتﷺ، سَیِّدُنَا ابوبکر صدیقؓ کو روانہ کر چکے تھے کہ سورۃ برآت نازل ہوئی اور وہ معاہدہ جو اہلِ مکہ سے حدیبیہ کے مقام پر ہوا تھا اللہ تعالی نے اسے ختم کرنے کا حکم دیا. حضورﷺ کی تشریف آوری سے پہلے عرب کسی قومی اور جماعتی زندگی سے آشنا نہ تھے. حضورﷺ مسلمانوں کو قومی اور جماعتی آداب سکھا چکے تھے لیکن مسلمان نہ ہونے والے ابھی کوئی قومی تصور نہ رکھتے تھے. اُن کے ہاں جو کچھ ہوتا وہ نسل اور قبائل کے امتیاز سے ہوتا تھا. صلح حدیبیہ کے موقع پر حضورﷺ خود موجود تھے اُس وقت کے رواج کے مطابق اس معاہدہ کو ختم کرنے کے لیے حضورﷺ کی تشریف آوری ضروری تھی یا یہ کہ حضورﷺ کا کوئی قریبی رشتہ دار آپ کی نمائندگی کرے. سَیِّدُنَا ابوبکر صدیقؓ 9ھجری کے حج پر حضورﷺ کی جماعتی نمائندگی کر رہے تھے اور سَیِّدُنَا علی المرتضیٰؓ معاہدہ حدیبیہ کے خاتمہ کے لیے حضورﷺ کی ذاتی نمائندگی پر مامور ٹھہرے تھے اور یہ عرب کے اُس وقت کے آداب کے مطابق تھا. جس طرح صلح حدیبیہ کی تحریر بھی اس وقت کے آداب کے مطابق مشترکہ الفاظ میں لکھی گئی تھی بایں ہمہ حج کے باب میں سَیِّدُنَا علیؓ سَیِّدُنَا ابوبکرؓ کے ماتحت تھے. حضور ﷺ نے انہیں امیرِ حج بنا کر نہ بھیجا تھا سَیِّدُنَا ابوبکرؓ ابھی مکہ نہ پہنچے تھے عرج کے مقام پر تھے کہ سَیِّدُنَا علیؓ انہیں آ ملے. سَیِّدُنَا ابوبکرؓ انہیں آتے ہی پوچھا:
” امیر او مامور“
آپ بطور امیر بھیجے گئے ہیں یا میرے ماتحت آپ کو یہ ذمہ داری ادا کرنی ہے؟ آپ نے کہا میں ماتحت رہوں گا۔
(مسند حمیدی جلد 1 صفحہ 27، مسند امام احمد جلد 1 صفحہ 79، المستدرک جلد 3 صفحہ 52، البدایہ والنھایہ جلد 5 صفحہ 37، سیرت ابن ہشام جلد 2 صفحہ 546)
اور پھر دونوں حضرات اکٹھے حج کو چلے اور سَیِّدُنَا ابوبکرؓ نے ہی امارتِ حج کے فرائض سرانجام دیئے. سَیِّدُنَا علیؓ نے مجمع عام میں سورۃ برآت کی آیات پڑھ کر سنائیں. آپؓ کی آواز کچھ دبی سی تھی سَیِّدُنَا ابو ہریرہؓ آپ کی مدد کرتے اور اسے آگے پہنچاتے تھے۔
سَیِّدُنَا علیؓ نے سورۃ برآت کی آیات پڑھیں. اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ اس سورۃ میں ثانی اثنین والی آیت ہے اور سَیِّدُنَا ابوبکرؓ کے مناسب نہ تھا کہ خود اپنی مدح سنائیں. حضور ﷺ نے یہ کام سَیِّدُنَا علیؓ سے لیا حافظ ابن حجر لکھتے ہیں:
”لأنھا تضمنت مدح آبی بکر فاراد ان یسموھا غیر آبی بکر“
(فتح الباری جلد 8، صفحہ 258، کتاب التفسیر) ترجمہ:یہ سورۃ مدحِ ابی بکر پر متصنمن تھی سو آپﷺ کا ارادہ ہوا کہ لوگ اسے سَیِّدُنَا ابوبکرؓ سے نہیں کسی اور کی زبان سے سنیں۔