بعض شیعہ علماء سے سنا ہے کہ حضورﷺ کے انتقال کے بعد سَیِّدُنَا ابوبکرؓ اور سَیِّدُنَا عمرؓ فیصلۂ خلافت کے لیے سقیفہ بنی ساعدہ چلے گئے تھے اور سَیِّدُنَا علیؓ نے ان کی عدم موجودگی میں حضورﷺ کو دفن کر دیا تھا اور یہ حضرات جنازۂ نبوی میں شامل نہ ہو سکے تھے۔
سوال پوچھنے والے کا نام: رافعجواب:
شیعہ علماء اس کے لیے جو راوی پیش کرتے ہیں وہ عروہ بن زبیر ہیں ان کی پیدائش اس وقت ہوئی جب سَیِّدُنَا عثمانؓ کا دور خلافت شروع ہو چکا تھا
(تذکرة الحفاظ للذھبی جلد 1 صفحہ 95)
سو یہ صاحب انتقالِ نبوی اور جنازۂ نبوی میں ہرگز موجود نہ تھے. ان کی اس وقت کی روایت کا کیسے اعتبار کیا جا سکتا ہے خصوصاً ان مسائل میں جو عقائد کی سرحدوں کو چھوتے ہوں. حقیقت یہ ہے کہ یہ روایت سنداً منقطع ہے اور دیگر معروف روایات کے بھی خلاف ہے جن میں سَیِّدُنَا ابوبکرؓ اور سَیِّدُنَا عمرؓ کا جنازۂ نبوی میں موجود ہونا بلکہ سب مہاجرین و انصار کا جنازہ پڑھنا صراحت سے مذکور ہے.
(دیکھئے شمائلِ ترمذی صفحہ 29، السنن الکبری جلد 3 صفحہ 395، جلد 4 صفحہ 30، سنن ابن ماجه صفحہ 118، البدایه والنھایه جلد 5 صفحہ 565، اسکی تائید شیعہ مرویات میں بھی ہے دیکھئے کتاب سلیم بن قیس صفحہ 7 مطبوع نجف اشرف، کتاب الاحتجاج للطبرسی صفحہ 45، حیات القلوب جلد 2 صفحہ 866 لکھنؤ)-
سو اس کا حکم شاذ ہوا. پھر یہ ہو بھی کیسے سکتا ہے کہ حضورﷺ سَیِّدہ عائشہ صدیقہؓ کے حجرہ میں دفن ہوں اور سَیِّدُنَا ابوبکرؓ کو پتہ تک نہ ہو اور یہ سب کام بلا خلیفہ ہی سر انجام پا رہے ہوں. کچھ سوچئے اتنا بڑا اور اہم کام کیا کسی نظام کے بغیر ہی عمل میں آگیا؟