سَیِّدُنَا ابوبکرؓ اور سَیِّدُنَا عمرؓ بے شک حضورﷺ کے بہت قریب تھے اور ہر وقت کے دوست تھے لیکن کیا وجہ ہے کہ حضورﷺ نے کبھی کوئی فوجی خدمت ان کے سپرد نہ کی. کیا آپ کو ان پر اعتماد نہ تھا؟ فاتحِ خیبر سَیِّدُنَا علیؓ تھے تو یہ حضرات اس وقت کہاں چھپے بیٹھے تھے یہ سوال ایک شیعہ نے کھڑا کر رکھا ہے اس کا جواب مرحمت فرمائیں؟
سوال پوچھنے والے کا نام: سفیانجواب:
جنگ خیبر میں فوج کی ترتیب یہ تھی۔
1- مقدمة الجیش: اس پر سَیِّدُنَا عکاشہ بن محصن الاسدی متعین تھے۔
2- ميمنہ:(دائیں رجمنٹ) اس پر سَیِّدُنَا عمرؓ مقرر تھے. عَلَم بھی آپ کے ہاتھ میں تھا۔
3- فوج کے ایک حصے کا عَلَم سَیِّدُنَا ابوبکرؓ کے پاس تھا، ایک حصے کا سَیِّدُنَا حباب بن منذرؓ کے پاس اور ایک پرچم سَیِّدُنَا سعد بن عبادہؓ اٹھائے ہوئے تھے۔
سیرتِ حلبیہ میں ہے کہ حضورﷺ نے اُس دن جن حضرات کو پرچم دیے اُن میں سَیِّدُنَا ابوبکرؓ بھی تھے اور سَیِّدُنَا بریدہ اسلمیؓ کہتے ہیں جب حضورﷺ خیبر آئے تو آپ نے عَلَم سَیِّدُنَا عمرؓ کو بھی عنایت فرمایا۔
(طبقات ابن سعد، جلد 3، صفحہ 195)
سو یہ کہنا کہ یہ حضرات خیبر کے دن کہیں چھپے ہوئے تھے کسی شقی و لعین کا افتراء ہے جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔
خیبر کے قلعہ حصن النطاۃ پر حضور ﷺ خود سات دن مصروف جہاد رہے. پھر سَیِّدُنَا محمد بن مسلمہ انصاریؓ کو ہر روز ادھر بھیچتے رہے. ان دنوں مسلمانوں کے مرکزی اور فوجی مستقر پر سَیِّدُنَا عثمانؓ محافظ ٹھہرائے گئے تھے. یہ مرکز اہلِ خیبر اور بنو غطفان کے وسط میں تھا اسے رجیع کے نام سے موسوم کرتے ہیں. رات کو يہیں سب حضرات حضورﷺ کے پاس جمع ہوتے تھے. اس جگہ کی نگرانی اور حراست فوجی نکتۂ نظر سے بہت اہم تھی اور یہی محلِ اعتماد تھا. بعض راتوں میں سَیِّدُنَا عمرؓ بھی اس کا پہرہ دیتے رہے ہیں۔
قلعہ حِصن القموص کے بیس دن محاصرے کے بعد آپﷺ نے اس کا علم سَیِّدُنَا علی مرتضیؓ کو دیا. فتوحِ خیبر میں یہ آخری جنگ تھی جو سَیِّدُنَا علیؓ کی امارت میں حاصل ہوئی اس سے پہلے سَیِّدُنَا علیؓ آشوبِ چشم کے باعث ابتدائی معرکوں میں حصہ نہ لے سکے تھے لیکن سَیِّدُنَا ابوبکرؓ، سَیِّدُنَا عمرؓ سَیِّدُنَا عثمان رضوان الله عليهم أجمعين حضورﷺ کے ساتھ ان مہمات میں برابر شریک رہے تھے. ہاں یہ صحیح ہے کہ قلعہ قموص سَیِّدُنَا علیؓ کے ہاتھوں فتح ہوا اور چونکہ یہ خیبر کی آخری جنگ تھی اس لیے سَیِّدُنَا علیؓ فاتحِ خیبر کے نام سے معروف ہوئے. کافروں کا مشہور پہلوان مَرحَب یہیں قتل ہوا. مرحب کے قاتل محمد بن مَسلمہ انصاری تھے۔
(تاریخ خلیفہ بن خیاط جلد 1 صفحہ 45)
مرحب کے بھائی یاسر کو سَیِّدُنَا زبیرؓ نے قتل کیا تھا بعض بے سروپا روایات میں ہے کہ قلعہ قموص کا ایک دروازہ جو اس قدر وزنی تھا کہ چالیس آدمی بمشکل اٹھا سکیں سَیِّدُنَا علی مرتضیؓ نے بطور ڈھال اٹھایا تھا ایسا اگر ہوا ہو تو اصولاً اس کا انکار نہیں ہو سکتا. اللہ تعالی اپنے مقربین اولیاء کرام کو کرامات سے نوازتے ہیں جو حقیقت میں فعلِ خداوندی ہوتا ہے. علامہ قسطلانی ؒ مواھب اللدنیہ میں ان روایت کے متعلق لکھتے ہیں
”قال شیخنا وکلھا واھیۃ ولذا انکرہ بعض العلماء۔“
(دیکھئے تاریخ الخميس جلد 2 صفحہ 51، اسکی تائید المقاصد الحسنہ للسخاوی صفحہ 193 اور الاصابہ للحافظ ابن حجر جلد 2 صفحہ 503 پر بھی ملتی ہے)