سَیِّدُنَا علیؓ کو جو فاتحِ خیبر کہتے ہیں اس سے کیا مراد ہے؟ کیا خبیر کی تمام جنگیں سیدنا علیؓ نے سرکی تھیں اور حضور پاکﷺ خود اِن مُہِمات میں شریک نہ تھے؟ سیّدنا ابوبکرؓ، سیدنا عمرؓ اور سیّدنا عثمانؓ کیا ان معرکوں میں موجود نہ تھے؟
سوال پوچھنے والے کا نام: وسیمجواب:
خیبر کسی ایک قلعے کا نام نہیں یہ کم و بیش گیارہ قلعے تھے جو یہودیوں نے بنا رکھے تھے ان میں سے ایک قلعہ حصن القموص تھا یہ سَیِّدُنَا علیؓ نے فتح کیا تھا۔ چونکہ آخری قلعہ تھا جس کے کھلنے پر یہ خیبر سے جنگ ختم ہو گئی تھی اس لیے آخری کردار ہونے کے موجب آپ کو فاتح خیبر کہتے ہیں یہ نہیں کہ ان مہماتِ خیبر میں اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین شریک نہ تھے. خیبر مدینہ سے شام کی طرف تقریباً اسی میل کے فاصلے پر ہے. حصن ناعِم، حصن سہوان، حسن البشق، حصن الوطيح، حسن سلالم، حصن ابی ، حصن النطاة، حسن الصعب حسن القموص اس کے مشہور قلعے تھے. اِن فتوحاتِ خیبر میں صحابہ کرام رضوان علیھم اجمعین نے مختلف خدمات انجام دیں. حضورﷺ نے فتوحات کے خاتمہ پر اَموالِ خیبر کو اٹھارہ حصوں میں تقسیم کیا اور ایک حصہ سو حصوں پہ مشتمل ٹھہرایا. ان اٹھارہ سو حصوں میں چار حصے اَسْپ سواروں کے تھے اور باقی چودہ ان کے سو افراد کو ملے. ہر سو افراد پر ایک رأس عدد تھا اور کل چودہ رأس تھے. محمد بن حسن طوسیؒ لکھتا ہے.
فكان عمر بن الخطاب رأساً وعلى رأساً وطلحة رأسا و الزبير رأساً وعاصم بن عدى رأساً وكان سهم النبي صلى الله عليه وسلم مع عاصم بن عدى.
(الامالی للطوسی، جلد 1، 268)
ترجمہ:
ایک رأس عدد سَیِّدُنَا عمرؓ تھے، ایک رأس علیؓ، ایک طلحہؓ، ایک زبیرؓ اور ایک عاصم بن عدیؓ تھے. حضورﷺ کا حصہ جس رأس میں گیا وہ اس سَیِّدُنَا عاصم بن عدیؓ تھے۔
یہ سوال نہ کیا جائے کہ حضورﷺ کا حصہ سَیِّدُنَا علیؓ کے سہم میں کیوں نہ لایا گیا. یہ امتیاز سَیِّدُنَا عاصم بن عدیؓ کو کیوں ملا؟ بات دراصل یہ ہے کہ حضورﷺ کی ہمیشہ سے یہ حکمت رہی ہے کہ اپنے ہر ہر صحابی کو کسی نہ کسی اختصاص سے نوازیں حضورﷺ نے مہماتِ خیبر میں جب عَلَم تقسم کیے تھے تو ایک علم سیدنَا ابوبکرؓ کے ہاتھ میں دیا۔ ایک سعد بن عبادہؓ کے ہاتھ میں کچھ حصے پر حضرت حباب بن المنذرؓ علم اٹھائے ہوئے تھے مرکز کے محافظ اور نگران سیدنَا عثمانؓ تھے اور ان واقعات اور حقائق سے کوئی انکار نہیں کر سکتا.
خلاصۂ جواب یہ ہے کہ تقریبا سب صحابہؓ سرکار دوعالمﷺ کی ہدایات اور تعینیات کے تحت ان مہمات خیبر میں شریک رہے ہیں. آخری قلعہ قموس سیدنا علیؓ نے فتح کیا مگر حضورﷺ نے انہیں ایک رأس عدد ہی رکھا جس طرح سیدنا طلحہ اور زبیر دوسرے رأس تھے. واللہ اعلم بالصواب. حافظ ابنِ کثیر نے البدایہ والنہایہ میں بھی ان سہام و روؤس کی کچھ بحث کی ہے.
(دیکھیے البدایہ جلد 4 صفحہ 202)