سیدنا امیر معاویہؓ اور ان کے ساتھیوں پر باغی کا اعلاق شرعا درست ہے یا نہیں؟ سیدنَا عمار بن یاسر ؓ کو سیدنَا معاویہؓ کی جماعت نے شہید کیا تھا اور حضور ﷺ میں انہیں پہلے سے خبر دی تھی کہ انہیں ایک باغی جماعت قتل کرے گی تو اہلِ صفین کیا سب باقی نہ ہوئے ؟
سوال پوچھنے والے کا نام: عثمانجواب:
سَیِّدُنَا امیر معاویہؓ کی سیاسی زندگی پر مختلف دور گزرے ہیں. آپ انہیں اور ان کے ساتھیوں کو کس دور میں باغی سمجھتے ہیں؟ پہلے اس دور کی تعین کریں جسکے سیاق میں آپ انہیں باغی کہنا چاہتے ہیں اور بتلائیں کہ کیا ان کو سفرِ آخرت اپنی اسی حالت میں پیش آیا یا وقتِ وفات آپ عالَم اسلام کے متفق علیہ حکمران تھے؟ جواب دیتے ہوئے آپ کی سیاسی ذندگی کے یہ دور ملحوظ رھیں۔
1- سیدنا عمرؓ کے مقرر کردہ والی در ارضِ شام بدورِ اسلام
2- سیدنَا عثمانؓ کے مقرر کردہ گورنرِ شام بعہد سَیِّدُنَا عثمانؓ
3- سیدنَا عثمانؓ کے مقرر کردہ گورنرِ شام بعد از شہادتِ عثمانؓ
4- خلیفۂ راشد سیّدنا علیؓ کے خلاف میدان میں صفین میں - دفاعاً
5- سَیِّدُنَا علیؓ سے 40 ھجری میں عدمِ قتال کے معاہدہ (معاونت) کے بعد۔
6- سَیِّدُنَا حسنؓ سے صلح کے بعد جب آپ بالاتفاق خلیفہ المسلمین تھے۔
جو شخص اِن اَدوارِ ستہ پر غور سے نظر کرے گا وہ حق کو پا لے گا. سَیِّدُنَا عمار بن یاسرؓ اگر ان کے آدمیوں کے ہاتھوں شہید ہوئے تو آپ کے اُن ساتھیوں کو جنہوں نے سيدنا عمارؓ کو شہید کیا تھا زیادہ سے زیادہ ان ادوارِ ستہ میں سے چوتھے دور میں باغی کہا جا سکے گا۔ اور تقتلك الفئة الباغیة کا مطلب یہ سمجھا جائے گا کہ اس دور مقاتلہ میں جس میں جنگِ صفین واقع ہوئی اہلِ شام بنا برتاویل باغی تھے. ان کے پاس عذر اپنی جگہ موجود تھا لیکن ایسا ہو بھی تو اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ انہیں اس پانچویں اور چھٹے دور میں بھی باغی کہا جائے. 40 ھجری میں سیدنا امیر معاویہؓ کی سیدنَا علیؓ سے مُصالحت ہو گئی تھی پھر آپ ہی سوچیں بغاوت کہاں رہی اور باغی کا حکم کیسے رہا اور پھر 41 ھجری کو تو عامُ الجماعة کہا جاتا ہے جس میں اللہ تعالی نے پھر سے مسلمانوں کے دو عظیم گروہوں کو ایک دوسرے کے ساتھ جمع کر دیا تھا اور اب سیدنا امیر معاویہؓ تمام عالمِ اسلام کے ایک متفق علیہ حکمران اور خلیفةُ المسلمین تھے.
آپ لوگ جو ان کا حکم (کہ اُنہیں باغی کہا جا سکتا ہے یا نہ؟) معلوم کرنا چاہتے ہیں وہ چوتھے دور کے اعتبار سے پوچھتے ہیں؟ یا پانچویں اور چھٹے دور کے اعتبار سے؟ چوتھے دور میں اگر ان پر حدیث ”تقتلك الفئة الباغیة“ کی رو سے فئه باغیه کا حکم ہو بھی تو 40 ھجری کی مہادنت یا 41 ھجری کی مصالحت کے بعد نہ بغاوت باقی رہی نہ ان پر باغی ہونے کا حکم باقی رہا. یاد رکھیے حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے: ”انما العبرة بالخواتيم“ کہ سبق پچھلے اور آخری دور سے لینا چاہیے نہ کہ اول یا وسطی دور سے؟ اور اس چوتھے دور میں بھی تو وہ اجتہاداً سیدنا علیؓ ہٹے ہوئے تھے مقابلاً نہیں۔
علامہ قرطبیؒ لکھتے ہیں:
انھم لم یخرجوا بذلك من حد الولایة والنبوة فكذلك الامر فيما جری بين الصحابة.
(تفسیر قرطبی جلد 16حصه322)
ترجمہ: برادران یوسف باہمی رقابت کے باوجود ولایت اور نبوت کی حدود میں رہے اسی طرح وہ اختلافات ہیں جو صحابہ رضوان علیھم اجمعین میں جاری ہوئے۔
اگر ایسا نہ ہوتا تو سیدنا علیؓ کبھی ان لوگوں کی جو صفین میں آپ کے بالمقابل قتل ہوئے نماز جنازہ نہ پڑھاتے. حافظ ابن عساکر دمشقی (571ھ) عقبہ بن علقمہ سے نقل کرتے ہیں آپ نے فرمایا:
شھدت مع علی یوم صفین فاتی بخمسه عشر اسیرا من أصحاب معاویه فکان من مات منھم غسله و کفنه و صلی علیه.
(تفسیر قرطبی جلد 16 صفحہ 322، تلخیص تاریخ ابن عساکر جلد 1 صفحہ 74)
ترجمہ:میں جنگ صفین میں سَیِّدُنَا علیؓ کے ساتھ تھا آپ کے پاس سَیِّدُنَا امیر معاویہؓ کی جماعت کے پندرہ قیدی لائے گئے. اُن میں سے جو بھی فوت ہوا آپ نے اسے غسل دلوایا، کفن پہنایا اور اس کی نماز جنازہ پڑھائی۔
اس عمل سے پتہ چلتا ہے کہ آپ اپنے ساتھ جنگ کرنے والوں کو کافر نہ سمجھتے تھے انہیں مومن سمجھتے اور ان کے ساتھ مومنین والا برتاؤ ہی کرتے اگر آپ کا مامور مِنَ اللہ ہونے کا دعوی ہوتا یا آپ اپنے لیے کسی آسمانی حقِ امامت کے مدّعی ہوتے تو آپ قطعاً اپنے محاربین کو مومن نہ کہتے، نہ ان کی نماز جنازہ پڑھاتے. سو حکیم محمد بن حسن طوسی (صاحبِ تجرید) کی یہ بات درست نہیں کہ آپ کے (سیدنا علیؓ کے) مخالف فاسق ہیں اور محارب کافر. ذاکروں کی یہ بات بالکل بے سروپا ہے۔
محدث شہیر ابن ابی شیبہ (235 ھجری) بھی روایت کرتے ہیں:
ان عليا قال يوم الجمل اللهم ليس هذا اردت اللهم ليس هذا أردت.
(المصنف جلد 15 صفحہ 275)
ترجمہ: سیدنا علیؓ نے جنگ جمل کے دن فرمایا: اے اللہ گواہ رہ میرا ارادہ جنگ کرنے کا نہ تھا اے اللہ تو گواہ رہ میں نے جنگ کا قصد نہ کیا تھا۔
پھر آپ نے اپنے صاحبزادے سیدنا حسنؓ کو مخاطب کر کے فرمایا:
یا بنی انی لم أر ان الامر یبلغ ھذا
(البدایہ جلد 7 صفحہ 240، کنز العمال جلد 6 صفحہ 85)
ترجمہ:اے بیٹا مجھے اندازہ نہ تھا کہ معاملہ یہاں تک پہنچ جائے گا (جنگ کی صورت اختیار کر لے گا)
اور یہ احساس صرف سیدنا علیؓ کا ہی نہ تھا سیّدہ ام المومنین ؓ نے بھی یہی کہا ہے:
انما اريد ان يحجز بين الناس مكاني. ولم احسب ان يكون بين الناس قتال. ولو علمت ذلك لم اقف ذلك الموقف ابداً. فلم يسمع الناس كلامي.
(المصنف لعبد الرزاق جلد 5 ص 457)
ترجمہ:میرا ارادہ تو یہ تھا کہ میری حیثیت (کہ میں مومنین کی ماں ہوں) لوگو باہمی اختلاف سے روک دے گی اور مجھے یہ گمان نہ تھا کہ لوگ آپس میں لڑ پڑیں گے اگر مجھے اس کا پتہ ہوتا تو میں ہرگز یہاں نہ ہوتی (یہاں نہ پہنچتی) لوگوں نے میری بات نہ سنی، نہ میری طرف التفات کی اور لڑائی ہو گئی۔
اور سیدہ ام المومنینؓ سے اس کے سوا گمان بھی کیا ہو سکتا ہے کہ وہ بطورِ ماں لوگوں کے مابین واقعہ ہونے والے اختلاف کو ختم کریں گی. امام غزالی (505 ھجری) فرماتے ہیں:
والظن بعائشة انها كانت تطلب تطفئة الفتنة ولكن خرج الأمر من الضبط فاَواخر الامور لا تبقى على وفق طلب اوائلها.
(الاقتصاد صفحہ 99)
ترجمہ:سَیِّدہ عائشہؓ سے گمان یہی ہے کہ وہ اس فتنہ کی آگ کو بجھانے کے لیے نکلی تھیں لیکن معاملہ کنٹرول سے نکل گیا اور ان امور کا انجام اپنے ابتدائی حالات کے مطابق نہ رہا۔
اور جب جنگ چھڑ گئی تو سیدہ ام المومنینؓ پھر بھی لوگوں کو لڑنے سے روکتی رہیں محمد بن طلحہ کو کہا کہ ہابیل کی طرح اپنا ہاتھ روک لے بھائیوں سے قتال نہ کر۔
(المصنف ابن ابی شیبہ جلد 15 صفحہ 282)
اور سَیِّدُنَا علیؓ بھی اس صورتحال پر اتنے پریشان تھے کہ اپنے بیٹے سے فرمایا:
يا حسن لوددت اني مت قبل هذا بعشرين حجة.
(المصنف ابن ابی شیبہ جلد 15 صفحہ 288)
ترجمہ:اے حسنؓ میں چاہتا ہوں کہ میں آج سے 20 سال پہلے فوت ہو چکا ہوتا۔
لو علمت ان الامر يكون هكذا ما خرجت.
(المصنف ابن ابی شیبہ جلد 15 صفحہ 293، کتاب الآثار امام ابو یوسف صفحہ 208)