واقعۂ جمل میں جو لوگ شہید ہوئے کیا وہ مسلمان رہے یا محاربہ علیؓ کے باعث وہ کافر ہو گئے؟(2) کیا انہیں مشرک کہا جا سکتا ہے؟ کیا یہ صحیح ہے کہ مُفسدین کی سازش کے باعث ان کا عمل ظاہری صورت میں بغاوت کی شکل اختیار کر گیا تھا؟
سوال پوچھنے والے کا نام: عدنانجواب:
یہ حضرات (سیدنا طلحہؓ، سیدنا زبیرؓ اور سیدہ ام المومنینؓ کے ساتھی) اصلاً باغی نہ تھے لیکن مُفسدین کی سازش سے ظاہرًا باغی کے انداز میں آگئے سو انہیں مسلمان کہنا اور انہیں اسلامی برادری میں رکھنا ضروری ہے. انہیں کافر یا منافق کہنا کسی طرح صحیح نہیں. ملا نصیر طوسیؒ نے تجرید الاعتقاد میں محاربین سیدنا علیؓ کو کافر لکھا ہے لیکن سیدنا علی مرتضیؓ نے اس کے برعکس ان حضرات کو اپنے بھائی فرمایا ہے.
سئل على عن أهل الجمل قال قیل أ مشركون هم؟ قال من الشرك فروا. قيل أ منافقون هم؟ قال إن المنافقين لا يذكرون الله الا قليلا. فما هم؟ قال اخواننا بغوا علينا.
(المصنف جلد 15 صفحہ 257، السنن الكبرى جلد 8 صفحہ 173)
ترجمہ:سیدنا علیؓ سے اہلِ جمل کے بارے میں سوال کیا گیا پوچھا گیا کیا وہ مشرک ہیں؟ آپ نے فرمایا: شرک سے وہ فرار کیے ہوئے تھے. پھر پوچھا گیا. کیا وہ منافق تھے؟ فرمایا منافق اللہ کو اتنا یاد نہیں کرتے جتنا یہ کرتے تھے. پھر پوچھا گیا پھر ان کا حکم کیا ہوگا؟ آپ نے فرمایا یہ ہمارے بھائی ہیں جنہوں نے مُفسدین کی سازش سے ہم پر چڑھائی کر دی۔
شیعہ کی مستند کتاب قرب الاسناد میں بھی اسی طرح ہے.
ان عليا عليه السلام لم يكن ينسب احداً من اهل حربه إلى الشرك ولا إلى النفاق ولكن يقول هو اخواننا بغوا علينا.
(قرب الاسناد لعبد الله بن جعفر الحمیری صفحہ 45 ایران.)
ترجمہ:بے شک سیدنا علیؓ اپنے لڑنے والوں میں سے کسی کو شرک یا نفاق کا ملزم نہ ٹھہراتے تھے بس یہی کہتے یہ ہمارے بھائی ہیں جو ہم پر چڑھ دوڑے۔
جب جنگ کی یہ صورت بن گئی تھی اُس وقت بھی کچھ ایسے حضرات تھے جو اصلاح بین الناس کے لیے پکارتے رہے. لوگوں کو لڑنے سے روکتے رہے. حضورﷺ کے جلیل القدر صحابی سیدنا ابوبکرہ ثقفیؓ اُس دن اِسی موقف پر تھے حافظ ابن حجر عسقلانی لکھتے ہیں.
المعروف من مذهب ابی بكرة الثقفى انه كان على راى عائشة في طلب الاصلاح بين الناس.
(فتح الباری جلد 13 صفحہ 49.)
ترجمہ:سیدنا ابوبکرہ ؓ کا مشہور موقف وہی رہا ہے جو سیدہ عائشہؓ کا تھا کہ لوگوں میں مصالحت کرانے کے درپے رہیں۔