جو لوگ واقعۂ جمل میں مارے گئے ان کے بارے میں کیا عقیدہ رکھنا چاہیے؟ (1) کیا وہ باغی تھے؟(2) ان کے لیے دعائے مغفرت کرنی چاہیے یا بد دعا؟ (3) سیدنا زبیرؓ واقعۂ جمل میں لڑتے ہوئے مارے گئے یا وہ کنارہ کش ہو چکے تھے اور انہیں بے خبری میں کسی نے مار ڈالا تھا (4) سيدنا زبیرؓ کا قاتل جنت میں جائے گا یا جہنم میں؟ (5) سیدنا طلحہؓ اور زبیرؓ کی عزاداری میں رونا اور ان سے اظہار ہمدردی کرنا کیسا ہے؟
سوال پوچھنے والے کا نام: عامرجواب:
1- وہ لوگ باغی نہ تھے نہ وہ چڑھائی اور جنگ کے ارادہ سے بصرہ آئے تھے ان کی آمد کا مقصد اصلاحِ احوال تھا. مُفسدین نے اسے جنگ بنا دیا تو اس قصدِ دفاع میں کسی کو دوسرے کا باغی نہیں کہا جا سکتا۔
2- ان کے لیے دعائے مغفرت جائز ہے اور سیدنا علیؓ نے ان کے لیے مغفرت کی دعا کی تھی. مُحدث اِبنِ ابیِ شِیبہ روایت کرتے ہیں.
عن عبد اللہ بن محمد قال مر علی قتلی من اھل البصرہ فقال اللھم اغفر لھم
ترجمہ: سیدنا علیؓ جمل کے مقتولوں کی لاشوں کے پاس سے گزرے اور آپؓ نے ان سب کے لیے مغفرت کی دعا فرمائی۔
ہاں ان میں جو مُفسدین اور قاتلینِ عثمانؓ تھے اُن کے خلاف آپ نے ضرور بددعا کی. امام بخاریؒ نے اپنی تاریخ میں مُحمد بِن حَنفیہؒ سے روایت کیا ہے آپ واقعۂ جمل میں موجود تھے آپؒ نے اپنے والد سیدنا علیؓ سے اِس موقع پر آپ کی یہ بددعا نقل کی ہے.
اللھم اکبب قتلة عثمان لمناخرھم الغداة
(تاریخِ کبیر جلد 4 صفحہ 343)
ترجمہ:اے اللّٰہ قاتلین عثمانؓ کو قیامت کی صبح کو چہروں کے بل الٹا کر کے سزا دے۔
اللھم احلل بقتلة عثمان خزیاً
(المصنف ابن ابی شیبہ جلد 15 صفحہ 277)
ترجمہ:اے اللّٰہ سیدنا عثمانؓ کے قاتلوں پر ذلت اتار۔
"3- سیدنا زبیرؓ جو حضورﷺ کے پھوپھی زاد بھائی اور صفیہ بنت عبدالمطلبؓ کے بیٹے تھے واقعۂ جمل میں جنگ سے کنارہ کش تھے وادئ سباع میں بیٹھے تھے کہ اچانک کسی مُفسد نے اُنہیں شہید کر دیا۔
4- جب یہ خبر سیدنا علیؓ کو ملی تو آپ نے اس قاتل کو جہنمی ہونے کی خبر دی اور آپؓ نے بتایا حضورﷺ نے فرمایا تھا کہ زبیرؓ کے قاتل کو جہنم کی بشارت دے دو.
5- سیدنا علیؓ نے جب سیدنا زبیرؓ کو شہید ہوئے پایا تو آپ اور آپ کے ساتھ جو لوگ تھے سب ان کی عزاداری میں رو پڑے لیکن یہ رونا اختیاری طور پر نہ تھا ایک کیفیت تھی جو ان پر طاری ہو گئی تھی اور اس میں باہمی تعلق اور اخلاص کی جھلک تھی۔
جعل علی یبکی علیه ھو و اصحابه
(طبقات ابن سعد جلد 3 صفحہ 79)
ترجمہ:سیدنا علیؓ سیدنا زبیرؓ کی لاش کے پاس بیٹھ گئے آپ خود بھی رو رہے تھے اور آپ کے ساتھی بھی رو رہے تھے۔
سیدنا باقرؓ سے روایت ہے کہ آپؓ سیدنا طلحہؓ کی میت پر بھی روئے۔
عن ابی جعفر قال جلس علی واصحابه یوم الجمل یبکون علی طلحة و الزبیر.
(المصنف ابن ابی شیبہ جلد 15 صفحہ 261)
آپ نے سیدنا طلحہؓ کے چہرے سے گردو غبار کو دور کیا اور فرمایا میں طلحہؓ اور زبیرؓ ان اہل جنت میں سے ہونگے جس کا جنت میں داخلہ باہمی رنجشوں کے دلوں سے نکل جانے پر ہوا ہوگا اور اس کی قرآن کریم میں خبر دی گئی ہے .
وَنَزَعۡنَا مَا فِىۡ صُدُوۡرِهِمۡ مِّنۡ غِلٍّ اِخۡوَانًا عَلٰی سُرُرٍ مُّتَقٰبِلِيۡنَ (سورة الحجر:47 )
سیدنا علیؓ کا یہ حسنِ سلوک اور حُسنِ ظن بتا رہا ہے کہ وہ اچھی طرح جانتے تھے کہ یہ حضرات باغی نہ تھے نہ لڑنے کے ارادہ سے بصرہ آئے تھے. سب کے آنے کی وجہ اصلاحِ احوال تھی جسے مُفسد قاتلینِ عثمانؓ نے دفعتةً حملہ کر کے جنگ میں بدل دیا. سیدنا طلحہؓ کے صاحبزادے محمد بن طلحہؓ بھی یوم الجمل میں شہید ہوئے تھے سیدنا علیؓ نے ان کے بارے میں فرمایا:
السجاد! ورب الکعبة ھذا الذی قتله بر لابیه.
(نسب قریش لمصعب الزبیری صفحہ 281)
ترجمہ:رب کعبہ کی قسم یہ بڑے نفل گزار تھے. جس چیز نے انہیں یہاں تک پہنچایا یہ اپنے باپ سے نیکی کرنے کا جذبہ تھا۔
سیدنا علی مرتضیؓ کو واقعۂ جمل کے بعد جو جو لاشیں ملی خواہ وہ کسی فریق کی ہوں آپؓ نے اُن سب کی نمازِ جنازہ پڑھائی. اِبن کثیرؒ لکھتے ہیں.
صلی علیّ القتلی من الفریقین و خص قریشا بصلوة من بینھم.
ترجمہ:آپؓ نے دونوں طرف کے مقتولوں کی نمازِ جنازہ پڑھائی اور نمازِ جنازہ میں قریش مقتولوں کو اولیت بخشی۔
نمازِ جنازہ کیا؟ مرحومین کے لیے دعائے مغفرت کرنا۔ سو جب حضرت علیؓ دونوں فریق کے مقتولوں کے لیے دعائے مغفرت کر رہے ہیں تو اب کسی کو ان میں سے کسی پر اعتراض کرنے کا حق نہ رہا صاحبِ حق اُن میں سے ہر کسی کو اپنا حق معاف کر چکے اب ان میں سے کسی کو کسی پر اعتراض کا حق نہیں رہتا۔
دونوں طرف معاملہ عفو درگذر کا تھا خالد بن واشمہ سیدہ ام المومنینؓ کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس نے حضرت طلحہؓ و زبیرؓ کا شہید ہونے کی خبر دی. ام المومنینؓ نے کلمہ ترجیع پڑھا (انا للّٰہ وانا الیہ راجعون). پھر اس نے زید بن صوحانؓ کے قتل ہونے کی خبر دی. آپ میں اس پر بھی کلمہ ترجیح پڑھا. زید بن صوحانؓ سیدنا علیؓ کی طرف سے عبقی قبائل کے امیر تھے. خالد بن واشمہ نے تعجب سے کہا یہ دو فریق ایک دوسرے کے مقابل تھے دونوں کے مقتول کیسے جنتی ہو سکتے ہیں؟ أم المومنینؓ نے کہا کیا تم نہیں جانتے کہ اللّٰہ کی رحمتوں کی بہت وسیع ہے۔
اولا تدری ان رحمة الله واسعة و ھو علی کل شیئ قدیر
ترجمہ:کیا تم نہیں جانتے اللّٰہ کی رحمت بہت وسیع ہے اور وہ ہر بات پر قدرت رکھتا ہے۔
(دلائل النبوة جلد 6 صفحہ 417، السنن الکبری جلد 8 صفحہ 174، المصنف لعبد الرزاق جلد 11 صفحہ 290، البدایہ و النھایہ جلد 7 صفحہ 245)