سیدنا علیؓ قاتلینِ عثمانؓ سے قصاص کہنے کا انکار کیوں کرتے تھے اگر انہیں یہ طاقت حاصل نہ تھی تو انہیں خلافت کرنے کا کیا حق تھا؟ وہ حاکم ہی کیا جو مظلوم کو اس کا حق نہ دلا سکے. سیدنا ابوبکرؓ نے خلافت کے جو اصول بتائے کیا اس میں یہ نہ تھا کہ تم میں سے جو قوی ہے وہ میرے نزدیک کمزور ہے یہاں تک کہ میں اس سے حق وصول کر سکوں اور جو کمزور ہے وہ میرے نزدیک قوی ہے۔
سوال پوچھنے والے کا نام: اخلاقجواب:
یہ صحیح نہیں کہ سیدنا علیؓ قاتلینِ عثمانؓ کو سزا دینے کے حق میں نہ تھے نہ آپ نے ان سے قصاص لینے کا انکار کیا تھا. ان کے متعدد بیانات پڑھنے اور مختلف حالات کا جائزہ لینے سے یوں معلوم ہوتا ہے کہ اُن کے ہاں ملکی وحدت اور قیامِ عدالت دو الگ الگ مسئلے تھے. آپ کے ہاں ملکی وحدت کا مسئلہ زیادہ اہم تھا. مملکتِ اسلامی کے تمام صوبے جب تک آپ کے زیرِ خلافت نہ آ جائیں آپ قیامِ عدالت اور مجرم کو پکڑنے پر قوت صرف نہ کرنا چاہتے تھے۔
یوں سمجھیے کہ آپ کے پیش نظر دو بغاوتیں تھیں ایک وہ جو عثمانؓ کے خلاف ہوئی دوسری وہ جو اُن کے خیال میں اُن کے خلاف ہوئی. آپ اہلِ شام کو باغی سمجھتے تھے امیر معاویہؓ گو کہتے رہے” اما الخلافة فلسنا نطلبھا“
لیکن سیدنا علیؓ کو یہی گمان رہا کہ یہ دل سے میری خلافت کے خلاف ہیں. اس صورتحال میں سیدنا علیؓ نے سمجھا کہ پہلی بغاوت (جو سیدنا عثمانؓ کے خلاف تھی) یہ تو اس وقت موجود نہیں گو اس کے مُفسدین موجود ہیں لیکن دوسری بغاوت تو بالفعل سامنے ہے اب اگر مقدم ملکی وحدت اور امنِ عام ہے تو پہلے اسے فرو کرنا چاہیے. پھر پہلی بغاوت جو عملاً باقی نہیں اس کے مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے گا. ملکی وحدت کے بغیر وہ اپنے اندر یہ طاقت نہ پاتے تھے کہ ان مجرموں کے خلاف عدالت قائم کریں ملکی وحدت اور قیامِ عدالت میں آپ کے ہاں ملکی وحدت مقدم تھی۔
ثانیا آپ کا فقہی موقف یہ تھا کہ خلیفہ گو امیر المومنین اور رئیس القوم ہے لیکن اس کے قتل ہونے پر اس کے وارث اس کے اولیاء ہوں گے نہ کہ قوم. قرآن کریم نے”من قتل مظلوما فقد جعلنا لولیه سلطانا“ میں مَن کو عام رکھا ہے کہ جو بھی ظلم مارا جائے (خواہ خلیفہ ہو یا رعایا کا کوئی فرد ہو) اس کا ولی اس کے خون کا وارث ہوگا چاہے بدلہ لے، چاہے معاف کر دے۔ اس بنا پر سیدنا علیؓ چاہتے تھے کہ بجائے اس کے کہ آپ ان مجرموں سے قصاص لیں یہ حق سیدنا عثمانؓ کے وارثوں کو دلایا جائے کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ تو معاف کرنے پر آ جائیں اور میں اُن پر سزا جاری کر دوں۔
اب سیدنا معاویہؓ کا یہ مطالبہ کہ پہلے ان سے قصاص لیا جائے اس میں پھر دو پہلو ہیں. یہ مطالبہ وحدتِ ولایت کے ساتھ ہے (مطالبہ کرنے والے اور حاکم عدالت ایک ہی ملک میں ہیں) یا وہ علیحدہ علیحدہ مملکتوں میں ہیں. اس میں سیدنا علیؓ کا موقف یہ معلوم ہوتا ہے کہ دونوں کو ایک مملکت میں ہونا چاہیے اس لیے آپ نے شامیوں سے کہا.
”ادخلوا فی البیعة وطلبوا الحق تصلوا الیه.“
(شرح ترمذی لابن العربی المالکی جلد 13 صفحہ 229، تفسیر قرطبی جلد 16 صفحہ 318)
ترجمہ:پہلے بیعت کریں اور پھر اپنے حق کا مطالبہ کریں آپ اپنا حق پا لیں گے۔
اس میں چار باتیں ملتی ہیں:
1- آپ سیدنا عثمانؓ کو مظلوم جانتے تھے اور آپ مانتے تھے کہ انہیں ظُلماً مارا گیا ہے اور آپ کے وارثوں کو قصاص کا حق پہنچتا ہے۔
2- آپ سیدنا امیر معاویہؓ کو وارثینِ عثمانؓ کا نمائندہ تسلیم کرتے تھے.
3- آپ قصاص کے لئے فریقین کی وحدتِ ملکی کو ضروری سمجھتے تھے.
4- سیدنا علیؓ اور سیدنا امیر معاویہؓ کا اختلاف خلافت میں نہیں قصاص عثمانؓ میں تھا۔
سیدنا امیر معاویہؓ کا موقف یہ تھا کہ مجرموں پر سزا کرنے کے لیے وحدتِ ملکی ضروری نہیں اور اگر سیدنا علیؓ اسے ضروری سمجھتے ہیں تو وہ قاتلوں کو اُن کے سپرد کر دیں”فقد جعلنا لولیه سلطانا“ پر عمل ہو جائے گا. اور سیدنا علیؓ اپنے اندر یہ طاقت نہ پاتے تھے کہ مجرموں کو ان کی صحیح شناخت اور شہادت کے بغیر دوسری حدودِ ولایت میں بھیج دیں جو ابھی تک داخل قمر و خلافت نہیں. ہو سکتا ہے ان پر کوئی زیادتی ہو وہ قاتلین میں نہ ہوں۔
سیدنا علیؓ کا یہ کہنا کہ مجھ میں اس وقت طاقت نہیں کہ ان قاتلوں کو پکڑ سکوں یہ سزا جاری کرنے کے باب میں نہیں اگر آپ اتنے بے بس ہوتے تو خلافت کا دعوی نہ کرتے. یہ بات مجرموں کو سیدنا امیر معاویہؓ کے سپرد کرنے کے بارے میں ہے.
انها المنازعة كانت بسبب تسليم قتله عثمان الى عشيرته ليقتصوا منهم.
(الیواقیت جلد 2 صفحہ 77، المامر جلد 21 صفحہ 159)
کہ ابھی خلافت میں یہ قوت نہیں کہ ان مجرموں کو ان کی صحیح شناخت اور شہادت کے ساتھ اہلِ شام کے سپرد کیا جا سکے اس میں خود میرے خلاف بغاوت اٹھ کھڑی ہونے کا اندیشہ ہے۔
(اذا المبادرة بالقبض عليهم مع كثرة عشائرھم واختلاطهم بالمعسكر يودي إلى اضطراب امر الامامة العامة - اليواقيت جلد 4 صفحہ 75)
سیدنا علیؓ کا یہ موقف ان کے نزدیک اتنا روشن تھا کہ وہ امیر معاویہؓ کو اہلِ شام میں سے سمجھتے تھے اور یہ قتال ان کے نزدیک سیدنا عثمانؓ کے خلاف چڑھائی کرنے والوں کے خلاف کاروائی کرنے سے مقدم تھا حافظ ابن حجر عسقلانیؒ لکھتے ہیں:
اذ حجة علي ومن معه ما شرع لهم من قتال اهل البغى حتى يرجعوا إلى الحق.
(فتح البارى جلد 13 صفحہ 246 كتاب التمهيد لابي الشكور السالمي صفحہ 167)
ترجمہ:سیدنا علیؓ اور ان کے ساتھیوں کا موقف یہ تھا کہ انہیں اہلِ بغی سے قتال کرنا ہے یہاں تک کہ وہ راستی پر آ جائیں۔
اور سیدنا امیر معاویہؓ سمجھتے تھے کہ سیدنا علیؓ اگر واقعی پہلے ملک کی وحدت چاہتے ہیں اور پھر وہ قاتلینِ عثمانؓ سے قصاص لیں گے تو اس کا جواز کیا ہے کہ وہ قاتلین اور مجرمین خود سیدنا علیؓ کے لشکر میں موجود ہوں۔
حافظ ابنِ حجرؒ لکھتے ہیں:
حجة معاویة ومن معه ما وقعه من قتل عثمان مظلوماً و وجود قتلته باعیانھم فی المعسکر العراقي .
(فتح الباری جلد 13 صفحہ 246)
ترجمہ: امیر معاویہؓ اور ان کے ساتھیوں کا عذر یہ تھا کہ سیدنا عثمانؓ تو مظلوم مارے گئے ہیں اُن کے قاتل خود عراقی لشکر میں موجود ہیں۔