Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

جب یہ بات چل نکلی کہ سیدنا عثمانؓ کے قتل میں سیدنا علیؓ کا ہاتھ ہے تو آپؓ نے اپنی صفائی کیوں پیش نہ کی. اگر آپؓ اپنے کو اس الزام سے بری کرتے تو یقیناً سیدنا معاویہؓ ان کےخلاف اٹھتے. اتنے سنگین الزامات کے باوجود آپؓ (سیدنا علیؓ) ان پر خاموش کیوں رہے؟

سوال پوچھنے والے کا نام:   زراقت

 جواب:

 یہ غلط ہے کہ آپؓ اس غلط الزام پر خاموش رہے آپ نے بارہا ان الزامات سے اپنے آپ کو معصوم بتایا سیدنا عبدالله بن عباسؓ کہتے ہیں میں نے سیدنا علیؓ کو کہتے ہوئے سنا:

والله ما قتلت عثمان ولا امرت بقتله ولكن غُلبت.

(المصنف لعبد الرزاق جلد 11 صفحہ 450، المصنف لابن ابی شیبہ جلد 15 صفحہ 208 ) 

ترجمہ: بخدا میں نے سیدنا عثمانؓ کو قتل نہیں کیا اور نہ ان کے قتل کا کسی کو حکم دیا. بات صرف یہ ہے کہ میرے پاس ان قاتلوں کو روکنے کی طاقت نہ تھی۔

مضمون ہذا سیدنا علیؓ سے اس تواتر کے ساتھ منقول ہے کہ اس پر علم یقین کا دعویٰ کیا جاسکتا ہے ۔حافظ ابن کثیر ؒ لکھتے ہیں:

ثبت ذلك عنه من طريق تفيد القطع عند كثير من ائمةالحديث. 

( طبقات ابن سعد جلد 3 صفحہ 57، انساب الاشراف جلد 5 صفحہ 101) 

ترجمہ: یہ بات (کہ آپؓ کا خونِ عثمانؓ میں کوئی دخل نہیں) آپ سے اتنے طرق سے مروی ہے کہ بہت سے آئمۂ حدیث کے نزدیک یہ تواتر اور قطعیت کو پہنچتے ہیں ۔

بلکہ آپؓ سے (سیدنا علیؓ سے) یہ بھی منقول ہے کہ آپؓ نے سیدنا عثمانؓ کے قاتلوں پر لعنت فرمائی

اور کہا:

لعن الله قتلة عثمان في السهل والجبل والبر و البحر. 

(البدایہ و النھایہ جلد 7 صفحہ 193) 

ترجمہ: اللّٰہ تعالیٰ سیدنا عثمانؓ کے قاتلوں پر خشکی، تری، میدانوں اور پہاڑوں پر لعنت کرے انہیں ہر جگہ پر اپنی رحمت سے دور رکھے ۔

آپ نے انہیں بد دعا دی ہمیشہ ہمیشہ کے لیے تمہاری بربادی ہو. 

نہج البلاغہ میں متعدد ایسے خطوط ملتے ہیں جن میں آپؓ نے اس الزام سے اپنے آپ کو پاک کہا ہے. سو آپ اس ناپاک کام (سیدنا عثمانؓ کے خلاف باغیانہ کاروائی) میں کسی طرح نہ شریک تھے شریف رضی (344 ھجری) لکھتا ہے آپ نے فرمایا :

كان بدء امرنا انا التقينا والقوم من اهل الشام والظاهر ان ربنا واحد ونبينا واحد و دعوتنا في الاسلام واحدة لا نستن يدھم في الايمان بالله والتصديق بوسوله و لايستزيدوننا الامر واحد الا ما اختلفنا فيه من دم عثمان ونحن منه براء 

(نهج البلاغة جلد 2 صفحہ 114)

ترجمہ: ہمارے معاملے کی ابتداء یہ کہ ہم اور اہل شام آپس میں ایک دوسرے کے سامنے آگئے یہ ظاہر ہے کہ ہم (دونوں فریق) ایک خدا اور ایک نبی کے ماننے والے ہیں اسلام میں ہم دونوں کی پکار ایک ہے ہم ان سے (امیر معاویہؓ اور ان ک ساتھیوں سے) ایمان باللہ اور تصدیقِ رسالت میں کسی اور چیز کے طالب نہیں اور نہ وہ ہم سے ( ایمانیات میں ) کسی امرِ زائد کے طالب ہیں ہم دونوں کی (دین میـں)،بات ایک سی ہے سوائے اس کے کہ خون عثمانؓ کے بارے میں ہمارا اختلاف ہو گیا (وہ ہمیں خون عثمانؓ میں شامل کر رہے ہیں) اور ہم اس الزام سے بالکل بری ہیں ۔

اس سے پتہ چلتا ہے کہ سیدنا علیؓ ایمان باللہ اور تصدیقِ رسالت میں کمی بیشی کے قائل نہ تھے ایمان اپنی کمیت (ایمانیات یا امور مومن بہ) میں ان کے ہاں کمی بیشی قبول نہیں کرتا قوت وضعف کے اعتبار سے کمی بیشی ہو یہ امر دیگر ہے. یہ بھی پتہ چلا کہ سیدنا علیؓ اپنے لیے کسی ایسی امامت کے قائل نہ تھے جس کا ماننا ایمانیات میں سے ہو اور یہ بھی پتہ چلا کہ آپ سیدنا معاویہؓ کو اپنے برابر کا مسلمان سمجھتے تھے اور ان کا آپس میں اختلاف دینی نہیں محض سیاسی تھا عقائد کا نہیں معاملات کا تھا۔ 

ہاں آپ کا خوارج سے اختلاف سیاسی نہیں دینی تھا انہوں نے اپنی الگ دینی صورت قائم کر لی تھی یہ لوگ سیدنا علیؓ اور ان کے سب پیروؤں کی تکفیر کرتے تھے. سیدنا علیؓ نے ایک دن انہیں کہا میں نے تحکیم قبول کر کے اگر غلطی کی ہے تو تم اس باریک اختلاف میں پوری امت کو کیوں گمراہ کہ رہے ہو؟

 فان ابيتم الا ان تزعموا انى أخطأت وضللت فلمَ تضللون عامة امة محمد بضلالی و تاخذونهم بخطائي وتكفرونهم بذنوبي

 ( نهج البلاغة صفحہ 8)

ترجمہ: سو اگر تم اس کے سوا کہ مں نے خطا کی ہے اور راہ حق گم کر چکا ہوں اور کوئی بات ماننے کے لیے تیار نہیں تو تم حضورﷺ کی پوری امت کو میری گمراہی کے عنوان سے کیوں گمراہ ٹھہرا رہے ہو اور انہیں میری غلطی پر کیوں پکڑ رہے ہو اور میرے گناہوں پر انہیں کیوں کافر کہہ رہے ہو ۔