سیدنا علیؓ اور سیدنا امیر معاویہؓ کے اختلافات میں عام صحابہ کی کیا رائے تھی وہ جس کے بھی ساتھ تھے قطعی طور پر اسے حق پر جانتے تھے یا ظنی طور پر اسے حق کے قریب سمجھتے تھے اس دوسری صورت میں یہ مسئلہ ایک اجتہادی صورت اختیار کر جاتا ہے اور ضروری نہیں رہتا کہ ہم کسی ایک کو باطل پر کہیں اس کی وضاحت کریں؟
سوال پوچھنے والے کا نام: ساجدجواب:
بعض اکابر صحابہ نے فریقین سے گفتگو کی اور دونوں کو ایک دوسرے کے خیالات پہنچائے اور مصالحت کرانے میں وہ کامیاب نہ ہو سکے. اس کے بعد وہ دونوں سے کنارہ کش ہو گئے اور کسی فریق کے ساتھ جنگ میں حصہ نہ لیا. اس سے یہی سمجھ میں آتا ہے کہ یہ مسئلہ اجتہادی تھا اور یقین سے نہ کہا جا سکتا تھا کہ کس کا موقف صحیح ہے. اجتہادی مسائل میں قطعیت نہیں ہوتی ظنّیّت کا دخل ہوتا ہے. اگر انہیں قطعی طور پر معلوم ہوتا کہ حق پر کون ہے تو وہ کبھی اہلِ حق سے کنارہ کش نہ رہتے۔
سیدنا علیؓ نے جو سیدنا جرید بن عبداللہؓ کو سیدنا امیر معاویہؓ کے پاس بھیجا تھا اور اُنہوں نے دونوں میں سفارت کے فرائض سر انجام دیے. جب وہ مصالحت میں کامیاب نہ ہو سکے تو مقام قرقیا میں وہ کنارہ کش ہو کر بیٹھ گئے۔
حافظ ابن حجرؒ لکھتے ہیں:
ثم انعزل الفريقين وسکن قرقیا حتٰی مات 51 ھجری.
(الاصابہ جلد 1 صفحہ 234)
ترجمہ: پھر انہوں نے دونوں فریقوں کو چھوڑ دیا اور قرقیا کے مقام پر سکونت پزیر ہو گئے یہاں تک کہ 51 ہجری میں وفات پائی۔
اسی طرح سیدنا ابو الدرداءؓ اور سیدنا ابو امامہؓ نے پہلے سیدنا امیر معاویہ سے بات کی پھر سیدنا علیؓ سے بات کی. سیدنا علیؓ نے قاتلینِ عثمانؓ کے غلبے کا عذر کیا پھر یہ دونوں حضرات بھی دونوں طرف سے کنارہ کش ہو گئے. حافظ ابن کثیرؒ لکھتے ہیں:
فرجع ابو الدرداء و ابو امامة فلم یشھدا لھم حربا.
(البدایہ و النھایہ جلد 7 صفحہ 259)
ترجمہ: سو سیدنا ابو الدرداءؓ اور سیدنا ابو امامہؓ دونوں واپس لوٹے اور دونوں میں سے کسی نے کسی جنگ میں حصہ نہ لیا۔
اس صورتحال سے پتہ چلتا ہے کہ مسئلہ کسی طرف قطعی درجہ میں نہ رہا تھا. ہر صورتِ حال میں اجتہاد اور تاویل کی گنجائش تھی. بعض صحابہ کا اختلافات میں غیر جانبدار رہنا اس بات کا پتہ دیتا ہے کہ ان حضرات کے اختلافات اجتہادی درجہ میں تھے. حضرت عمار بن یاسرؓ حضرت علیؓ کے طرفدار تھے. ان کے سامنے کسی نے سیدنا امیر معاویہؓ اور ان کے ساتھیوں کی تکفیر کی. آپ نے اس سے روکا اور فرمایا کہ وہ لوگ ایک آزمائش کا شکار ہو گئے ہیں لیکن ان کا اور ہمارا دین ایک ہے۔
لا تقولوا ذلك، نبينا ونبيهم واحد وقبلتنا وقبلتهم واحدة ولكنهم قوم مفتونون.
ترجمہ: تم اس طرح نہ کہو، ہمارا اور ان کا نبی ایک ہے، ہمارا اور ان کا قبلہ ایک ہے لیکن وہ ایسے لوگ ہیں جو آزمائش کا شکار ہو گئے۔
علامہ خفاجیؒ شرح شفا میں لکھتے ہیں :
انها امور وقعت باجتهاد منهم لا لأغراض النفسانية ومطامع دنيوية كما يظنه الجهلة.
( نسیم الریاض جلد 3 صفحہ 467)
ترجمہ: یہ کچھ ایسے امور تھے جو اُن سے اجتہاداً صادر ہوئے. ان کا منشا کوئی اغراضِ نفسانیہ نہ تھیں. نہ ان کا مطمحِ نظر کوئی دینوی امور تھے جیسا کہ جاہلوں نے سمجھ رکھا ہے۔
مورخِ اسلام علامہ ابن خلدونؒ کی رائے بھی یہی ہے:
كان طريقهم فيها الحق والاجتهاد ولم يكونوا في محاربتھم لغرض دنیوی او لايثار باطل او لاستشعار حقد كما قد يتوهمه متوهم وينزغ اليه ملحد.
(مقدمہ تاریخ ابن خلدون صفحہ 364)
ترجمہ: اُن کا اِن امور میں عمل، حق اور اجتہاد کا تھا اور ان کی آپس میں جنگیں کسی دنیوی غرض یا کسی غلط اختیاری یا کسی سلگتے عناد کے باعث نہ تھیں جیسا کہ توہمات کے پرستار سمجھ لیتے ہیں اور ملحدیں اس طرف چوک جاتے ہیں۔
حافظ ابن کثیرؒ (774ھجری) کی تحقیق بھی یہی ہے. حافظ ابن حجر عسقلانیؒ (852ھجری) بھی لکھتے ہیں:
والظن بالصحابة في تلك الحروب انهم كانوا فيها متأولين وللمجتھد المخطی اجر واذا ثبت هذا في حق أحاد الناس فثبوته للصحابة بالطريق الأولى.
(الاصابہ جلد 1 صفحہ 151)
ترجمہ: اور ان جنگوں میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے بارے میں یہی گمان کیا جائے کہ وہ ان میں کسی نہ کسی تاویل میں تھے اور مجتہد نتیجہ تک پہنچنے میں خطاء پر بھی ہو تو وہ ایک اجر کا مستحق ہوتا ہے بس جب یہ حق تاویل عام احادِ امت کے لیے ثابت ہے تو اس کا ثبوت صحابہ کے لیے بدرجہ اولی ہونا چاہیے۔
(کیوں کہ یہ وہ لوگ تھے خدا جن کے دلوں میں جھانک چکا اور ان سے راضی ہو چکا)
انهم كانوا مجتهدين فيما تعاطوه من القتال وليس كل مجتهد مصيباً بل المصيب له اجران والمخطى له اجر
ترجمہ: انہوں نے جو کچھ بھی کیا گو قتال ہو مجتہدین کی حیثیت سے کیا اور ہر مجتہد مصیب نہیں ہوتا ہاں جو مصیب ہوا اسے دو اجر ملیں گے اور جو جو اجتہاد میں خطا کر جائے وہ بھی ایک اجر کا مستحق ہوتا ہے۔