Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام
زبان تبدیل کریں:

جن لوگوں نے سیدنا علیؓ کی خلافت نہ مانی اور ان کے خلاف بغاوت کی ان کا شرعی حکم کیا ہے کیا وہ فاسق ہیں؟ اور کیا پھر ان کی شہادت مردود ٹھہرے گی؟

سوال پوچھنے والے کا نام:   امجد

جواب: 

علامہ تفتازانیؒ عقائد کی مشہور کتاب شرح مقاصد میں اہلِ شام کے بارے میں لکھتے ہیں:

وليسوا كفاراً فسقة ولا ظلمة لما لهم من التاويل وان کان باطلاً فغاية الامر انهم اخطأوا فی الاجتہاد وذلك لا يوجب التفسيق فضلاً عن التكفير ولهٰذا منع علی اصحابه عن لعن اهل الشام و قال اخواننا بغوا علينا. 

(شرح مقاصد جلد 2 صحفہ 223) 

ترجمہ:

اور وہ کافر نہیں نہ فاسق ہیں اور نہ ہی انہیں ظالم ٹھہرایا جا سکتا ہے کیونکہ ان کے پاس کوئی نہ کوئی وجہ ضرور تھی گو وہ باطل ہی کیوں نہ ہو. زیادہ سے زیادہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ انہوں نے اجتہاد میں خطا کی اور اس سے فسق لازم نہیں آتا چہ جائیکہ کفر. اور اسی لیے سیدنا علیؓ نے ان لوگوں کو جو اہل شام پر لعنت کر رہے تھے اس سے روکا اور فرمایا وہ ہمارے بھائی ہی ہیں جو ہم پر چڑھ دوڑے ہیں۔

علم کلام کی مشہور تالیف کتاب التمہید میں علامہ عبدالشکور السالمیؒ لکھتے ہیں.

(ان الباغى لا يفسق لان شهادته مقبوله بالاتفاق الثانى ان الباغى ماول فى دعواه) 

(کتاب التمہید صحفہ 168) 

ترجمہ:

باغی فاسق نہیں ٹھہرتا کیونکہ اس کی شہادت بالاتفاق مقبول ہے اور دوسری بات یہ ہے کہ یہ باغی اپنے دعویٰ میں کسی تاویل سے کام لے رہے تھے۔

پھر آگے جا کر لکھتے ہیں.

ولانّه يجوز الصلوٰة والجمعة والحج وتولية القضاء وغير ذلك من الولاية من جهة الباغى دلّ انّه ما كان فاسقاً. 

ترجمہ: باغی کی طرف سے حقِ ولی قائم ہونا تولیة القضا، ادائیگی حج اور اس کا جمعہ و نماز جائز ہے یہ صورت حال بتلاتی ہے کہ وہ باغی فاسق نہ تھا۔

محدث جلیل ملا علی قاریؒ بھی لکھتے ہیں.

(كان معاویة مخطیأ الى انه فعل من تاويل فلم يصر به فاسقاً) 

(شرح فقہ اکبر صفحہ 82) 

ترجمہ: سیدنا معاویہؓ اپنے اجتہاد میں خطا پر تھے انہوں نے جو کچھ کیا سو کسی تاویل کے سہارے کیا. سو آپ اس سے فاسق نہیں ہوئے (آپ کا عادل ہونا مجروح نہیں ہوتا۔) 

حق یہی ہے اور یہی اہلِ حق کا مسلک ہے البتہ معتزلہ ان حضرات کو فاسق قرار دیتے ہیں اور علمائے حق نے ان کی پرزور تردید کی ہے۔

علامہ ابن اثیر الجزریؒ لکھتے ہیں:

فذهب جمهور المتعزلة الی ان عائشة وطلحة والزبير ومعاوية و جميع اهل العراق و الشام فساق بقتالهم الامام الحق. 

(جامع الاصول جلد صحفہ 83) 

ترجمہ:جمہور معتزلہ یہ کہتے ہیں کہ سیدنا عائشہؓ ، سیدنا طلحہؓ، سیدنا زبیرؓ، سیدنا معاویہؓ اور جمیع اہلِ عراق اور اہلِ شام سب امام برحق سے لڑنے کے باعث فاسق قرار پائے ہیں۔

پھر آگے جا کر ان الفاظ میں سے اس کی تردید کرتے ہیں.

وکل هٰذا جراّة علی سلفِ یخالف السنة فان ماجرىٰ بینھم کان مَبنیاً علی الاجتہاد. 

ترجمہ:

یہ سلف پر ایک بہت بڑی جرأت ہے اور یہ سنّت کے خلاف ہے کیوں کہ ان میں جو کچھ بھی پیش آیا اور جو کچھ ہوا وہ اجتہاد پر مبنی تھا۔

امام ربانی حضرت احمد مجدد الف ثانیؒ فرماتے ہیں.

وکتب القوم مشخونة بالخطاء الاجتهادى كما صرح به الغزالي والقاضي ابوبكر وغيرهما پس تفسیق و تضلیل در محاربان حضرت امیر جائز نباشد. 

(مکتوباتِ دفتر) 

ترجمہ: اور اہلِ سنّت کی سب کتابیں اس خطا کے اجتہادی ہونے سے بھری پڑی ہیں جیسا کہ امام غزالیؒ، قاضی ابوبکر باقلانیؒ اور دوسرے اکابر اہلِ حق تصریح کر چکے ہیں سو سیدنا علیؓ کے ساتھ محاربہ کرنے والوں کو فاسق کہنا یا انہیں گمراہ قرار دینا کسی طرح جائز نہ ہوگا کیونکہ انہوں نے جو کچھ بھی کیا اس میں ان کے پاس کوئی نہ کوئی عذر یا تاویل ضرور موجود تھی۔

سیدنا معاویہؓ اور سیدنا علی کا اجتہاد

سیدنا امیر معاویہؓ کی رائے یہ معلوم ہوتی ہے کہ وہ شخص جو مملکت کے کسی طاقتور فرد یا گروہ پر انصاف کا ہاتھ نہ ڈال سکے وہ خلافت کے لائق نہیں. سیدنا ابو بکر صدیقؓ نے اپنے خطبۂ خلافت میں حکومت کا جو چارٹر پیش کیا اس میں صراحت کی تھی کہ تم سے جو کمزور ہے وہ میرے نزدیک قوی ہے (مجھ سے اپنا حق لینے میں طاقتور ہے)، اور جو قوی اور طاقتور ہے وہ میرے نزدیک کمزور ہے۔ اس پر ہر حال میں انصاف کا ہاتھ ڈالا جائے گا۔

خلافت کے اس اصول کی روشنی میں سیدنا معاویہؓ سمجھتے تھے کہ جب سیدنا علیؓ قاتلانِ سیدنا عثمان کو پکڑ نہیں سکتے اور عذر کرتے ہیں کہ باغی اس قدر قوت اختیار کر چکے ہیں کہ میں سرِدست ان پر ہاتھ نہیں ڈال سکتا تو وہ خلافت کی ذمہ داریوں کے لائق کیسے ہو سکتے ہیں ؟ 

سیدنا علیؓ خود بھی اس اصول کو تسلیم کرتے تھے لیکن اس وقت ان کا خلافت سے دستبردار ہونا سلطنتِ اسلامی کے لیے اور بھی مہلک ہو سکتا تھا۔ ان کا اجتہاد یہ کہتا تھا کہ جس طرح بھی بَن پڑے پہلے اپنی بکھری قوتوں کو جمع کیا جائے اور پھر قاتلانِ حضرت عثمان پر ہاتھ ڈالا جائے ۔ اصولاً وہ خود مانتے تھے: 

ايها الناس ان احق الناس بهذا الامر اقواهم واعلمھم بامر الله فيه. 

(نهج البلاغه جلد 1 صفحہ 321) 

اس نازک صورت حال میں دونوں طرف اجتہاد کی گنجائش ہے۔ سو ان دونوں گروہوں میں کسی کی تفسیق جائز نہ ہوگی گو اکابر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے نزدیک سیدنا علیؓ کی خلافت قائم ہو چکی تھی۔ والله اعلم بالصواب. 

خالد محمود عفا الله عنه.