سیّدنا علیؓ پوری سلطنت اسلامی کے فرمانروا نہ تھے۔ قلمرَو اسلامی کے ایک حصہ پر سیّدنا معاویہ کا قبضہ تھا انہیں خلفاء راشدین رضوان اللّٰہ علیہم اجمعین میں کیسے شمار کیا جا سکتا ہے. وہ خلافتِ تامّہ نہ تھی نہ اس کا پہلے تین خلفاء رضوان اللّٰہ علیہم اجمعین سے تسلسل تھا۔ ان کے چوتھے خلیفۂ راشد ہونے پر دلیل پیش کیجئے؟
سوال پوچھنے والے کا نام: سہیلجواب:
سیّدنا عثمان کی شہادت کے بعد جب سیّدنا علی کی بیعت کی گئی تو اس وقت آپ کی یہ بعیتِ خلافت پوری قلمرَو اسلامی کے لیے تھی۔ صحابہ کرام رضوان اللّٰہ علیہم اجمعین جنہوں نے سیّدنا علی کی بیعت کی تھی نہ انہیں علم تھا کہ عملاً یہ خلافت مصر و شام تک نہ جا سکے گی نہ سیّدنا علی کو آئندہ ہونے والے واقعات کا علم تھا۔ علمِ غیب خاصۂ باری تعالیٰ ہے ، خاصانِ خدا بھی غیب کی وہی بات جان سکتے ہیں جو عالمُ الغیب بتلائے، سو عقداً یہ خلافت پوری قلمرو اسلامی کے لیے تھی۔گو عملاً ایسا ظہور نہ آیا۔ خلافت کے احکام عقد سے چلتے ہیں عمل سے نہیں، دو خلیفہ بنا لیے جائیں تو فیصلہ پہلے کے حق میں ہوتا ہے۔ سیّدنا علیؓ اپنے آپ کو اگر پوری سلطنتِ اسلامی کا حکمران نہ سمجھتے تو سیّدنا معاویہؓ کو بیعت کے لیے کیوں لکھتے اور پھر انہیں شام کے گورنر کی حیثیت سے معزول کیوں کرتے اگر سیّدنا علی پوری قلمرَو اسلامی کے فرمانروا نہ تھے تو سیّدنا معاویہ ان سے قاتلینِ عثمان کو پکڑنے کے لیے نہ کہتے۔ حقیقت یہ ہے کہ سیّدنا معاویہ کا ان سے یہ مطالبہ ان کی خلافت کے انکار پر مبنی نہ تھا۔ یہ صرف بیعت سے توقف تھا اور انہوں نے خلافت قائم ہونے تک اپنی سابق پوزیشن ( عامل خلافتِ عثمان )بحال رکھنے کا فیصلہ کر لیا تھا۔
سیّدنا علی کی خلافت سیّدنا حسن کی خلافت سے اصولاً مختلف ہے اوّلُ الذّکر بوقتِ عقد پوری قلمرو اسلامی کے فرمانروا تھے۔
اور ثانیُ الذّکر بوقتِ عقد اسی خطہ پر حکمران تھے جو سیّدنا علی کے قبضہ میں تھا سو سیّدنا علی کی خلافت باعتبار عقد خلافتِ تامّہ ہے اور خلافتِ راشد کی تمام شرطوں کو پورا کرتی ہے۔ پھر یہ خلافت پہلی تین خلافتوں سے مسلسل بھی ہے۔
سیّدنا علیؓ اپنے ایک مکتوب (نہج البلاغہ حصہ 3 صفحہ 8) میں صراحت کرتے ہیں کہ: "میری بیعت انہی لوگوں نے کی ہے جنہوں نے پہلے تین بزرگوں کی بیعت کی اور ان ہی شرطوں پر انہوں نے مجھے خلیفہ مانا ہے جن شرطوں پر انہوں نے انہیں خلیفہ مانا تھا۔
شیعہ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ سیّدنا علیؓ اپنے دورِ خلافت میں لوگوں کو تراویح باجماعت سے روک سکے نہ حضرات حسنین رضی اللہ عنہما کو فدک دے سکے۔ ان کی خلاف پہلی تین خلافتوں کا ہی تتمہ رہی۔
قاضی نوراللہ شوستری(1019ھجری) لکھتا ہے:
اکثر اہلِ زماں را اعتقاد آں بود کہ امامت حضرت امیر مبنی بر امامت ایشاں است و فساد امامت ایشاں را دلیل فساد امامت او مے دانند.
(مجالس المؤمنین جلد1 صفحہ 54)
ترجمہ: اس وقت اکثر لوگوں کا اعتقاد یہ تھا کہ سیّدنا علیؓ کی امامت ان پہلے تین کی امامت پر مبنی ہے اور وہ ان کی امامت ٹوٹنے سے سیّدنا علیؓ کی امامت کو ٹوٹا سمجھتے ہیں۔
یعنی وہ تین صحیح اور جائز خلیفہ ہوں تو یہ چوتھے بھی صحیح اور جائز خلیفہ ہوں گے اور وہ تین خلیفہ برحق نہیں تو یہ چوتھے بھی صحیح خلیفہ نہ ہونگے.
واللّٰہ اعلم بالصواب.